Get Even More Visitors To Your Blog, Upgrade To A Business Listing >>

روداد اسلام آباد (حصہ سوئم)

ارادہ تو یہ تھا کہ مختصرا لاہور سے نتھیا گلی تک کے سفر کا احوال آپ لوگوں کی خدمت میں پیش کروں  اور یہ تیسرا حصہ پہلا اور آخری ہوتا مگر تمہید اتنی لمبی ہو گئی کہ اک آرٹیکل میں احاطہ کرنا مشکل ٹہرا۔
بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی
اور ہوا بھی یہی بات سے بات نکلی اور دور تک گئی۔ پہلے حصے میں تذکرہ کیا تھا کہ اسلام آباد منتقلی کے بعد بیگم اور بچوں کا مری اور اس سے ملحقہ مقامات کی سیر کا اصرار زور پکڑ گیا تھا۔ اور میری مذاحمت دم توڑ رہی تھی۔ ویسے بھی شوہر کی۔۔۔تے نخرہ کی۔  کہیں اک لطیفہ پڑھا تھا۔
کہ اک شخص نے اپنی خوشگوار ازدواجی زندگی کا راز اپنے دوست کے سامنے یوں آشکار کیا۔ کہ بھائی گھر کے چھوٹے موٹے فیصلوں کا اختیار بیگم کو ہے۔ جیسے کس سے ملنا ہے۔ کسں کو جوتی کی نوک پر رکھنا ہے۔ رشتے داورں میں کون اچھا ہے اور کون راندہ درگاہ ہے۔ بچوں کے رشتے کہاں موزوں رہیں گے۔ تنخواہ کہاں خرچ کرنی ہے۔ شادی کے فنکشن میں کتنی سلامی دینی ہے۔ اور کہاں فقط سلام کرنا ہے۔ اور تمام بڑے اور اہم فیصلوں کا مختار کل میں ہوں۔ مثلا ۔۔۔مسئلہ کشمیر کا حل کیا ہونا چاہیے۔ پاکستان کی داخلہ اور خارجہ پالسیوں میں کیا تبدیلیاں ہونی چاہیں۔ امریکیوں کو کس امیدوار کو صدر منتخب کرنا چاہیئے۔ وغیرہ وغیرہ۔
ویسے شیخ صاحب کا کہنا ہے کہ یہ لطیفہ نہیں بلکہ اک سبق آموز مثالی واقعہ ہے۔ جس سے ہر شوہر کو استفادہ کر کے اپنی شادی شدہ زندگی کی گاڑی کو پٹری پر رکھنے میں مدد لینی چاہیئے۔ مگر شیخ صاحب نے یہ واقعہ جس وقت سنا تھا اس وقت تک چڑیاں کھیت چگ چکی تھیں۔ اور شیخ صاحب اپنی زوجہ سے کئی بار ذدوکوب ہو چکے تھے۔ اور جب انہیں ان کی عالمگیر شہرت کی حامل پٹائیوں کے بارے یاد دلایا جاتا ہے تو اپنی حرکتوں پر نادم ہونے کی بجائے اعتبار ساجد صاحب کےکسی مضمون کا حوالہ دے کر کہتے ہیں کہ بھئی یہ میری شرافت اور نجابت کا ثبوت ہے۔  کیونکہ جب بھی دھلائی ہوئی ہے اپنی منکوحہ کے ہاتھوں ہوئی ہے۔ پرائی عورت سے پٹنے سے بہتر ہے کہ بندہ اپنی ذاتی بیگم سے مار کھا لے۔
اگر شیخ صاحب کی مدح سرائی کرتا رہا تو بات پھر سے کہیں اور نکل جائے گی۔ لہذا واپس موضوع کی جانب آتا ہوں۔ آخر کار وہ دن آ ہی گیا جب مری کی جانب کوچ کیا۔ دوستوں نے مشورہ دیا کہ مری میں اب کچھ نہیں رکھا۔ بس اک مال روڈ ہے۔ جس پر لوگ صبح سے رات گئے تک مٹر گشت کرتے رہتے ہیں۔ تو میاں بہتر ہو گا کہ مری کچھ دیر رکو کھانا کھاو اور آگے نکل جاو۔ رستے میں جہاں جہاں دل چاہے رکو۔ چائے پیو پکوڑے کھاو اور رات نتھیا گلی بسر کرو اور پھر جیسے ہی اکتاوٹ محسوس کرو، گھر کی راہ لو۔ اپریل کا مہینہ تھا۔ چند دن پہلے برف باری کا تیسرا دور ختم ہوا تھا۔ کہا جا رہا تھا رواں سال برف باری نے بیس برس قبل اپنا ہی  قائم کردہ ریکارڈ توڑا ہے۔جب اسلام آباد سے روانہ ہوئے۔ موسم بے حد خوشگوار تھا۔ مناسب حدت والی دھوپ اور کسی حد تک خنک ہوا، درختوں کے پتوں سے اٹھکیلیاں کر رہی تھی۔ گاڑی سے باہر پرندے اور گاڑی میں پچھلی سیٹوں پر بیٹھے بچے چہچہا رہے تھے۔ بچوں کی گود میں ان کا پالتو بلا حسب معمول سب سے بےنیاز اونگھنے میں مشغول تھا۔

 اگلی سیٹ پر موجود بیگم کا گلہ شکوہ جاری تھا۔ کہ برف باری کے دنوں میں کیوں نہیں نکلے۔ شکوہ بجا تھا کیونکہ اس نیک بخت نے کبھی برف باری نہیں دیکھی تھی۔ میں خاموش تھا۔ کیونکہ میری بیشتر عمر کوئٹہ گزری تھی جہاں کبھی سردیوں میں برف کا گرنا معمول کی بات ہوا کرتی ہیں۔ اور مجھے برف باری کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مشکلات کا بخوبی انداذہ تھا۔ لہذا کم از کم میرے لئے گرتی برف کو دیکھنا کوئی خاص دلچسپی کا باعث نہ تھا۔ مری جانے کیلئے بارہ کہوہ سے گزر کر جیسے ہی آگے بڑھے تو پتہ چلا مری جانے کیلئے دو رستے ہیں۔ اک پرانا اور اک نیا۔ نیا رستہ مری ایکسپریس وے کہلاتا ہے۔ جبکہ پرانا رستہ مری روڈ کے نام جانا جاتا ہے۔ وہاں موجود اک شخص سے مشورہ مانگا کہ کون سا رستہ اختیار کروں تو بتایا گیا کہ اگر آپ پرسکون ڈرایونگ کرنا چاہتے ہیں تو  مری ایکسپریس وے سے جائیے کیونکہ یہ دو رویہ سڑک ہے۔ اور مری سے پہلے پتریاٹہ بھی اسی رستہ پر ہے۔ جہاں چیئر لفٹ اور کیبل کار کے ذریعے قدرت کے نظاروں کا طائرانہ نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ مگر اک قباحت یہ ہے کہ یہ نیا رستہ پرانی سڑک کی طرح پر رونق اور دلفریب نظاروں سے مزین نہیں۔ چونکہ میرے بچے ابھی چھوٹے ہیں لہذا میں انہیں چیئر لفٹ پہ بٹھانے کا رسک لینا نہیں چاہتا تھا اور ویسے بھی جو مزہ سفر میں ہے وہ منزل کو پا لینے میں نہیں۔ اس لئے پرانے رستے کا انتخاب کیا۔ وقت نے ثابت کیا کہ فیصلہ ٹھیک رہا۔ رستے میں کہیں سے بھنے ہوئے سٹے لئے اور کہیں رک کر چائے اور پکوڑوں سے انصاف کرتے ہوئے قدرت کی کاریگری کا مشاہدہ کیا۔ چونکہ بچے اور ان کا بلا ایسی چیزیں پسند نہیں کرتے اس لئے وہ اپنی مخصوص خوراک انجوائے کر رہے تھے۔  جوں جوں مری قریب آ رہا تھا ٹھنڈ بڑھ رہی تھی۔ اب گاڑی کے شیشے چڑھا کر سفر ہو رہا تھا۔ بچے اپنی لڑائیاں چھوڑ کر باہر دیکھنے میں مصروف ہو چکے تھے۔ بس اک گانا جو مسلسل بج رہا تھا وہ کوفت کا باعث تھا۔ مگر چونکہ وہ چھوٹے بچے کی فرمائش تھی۔ اور جیسے ہی سٹیریو بند ہوتا یا کوئی اور گانا لگایا جاتا تو وہ اپنے راگ الاپنے لگتا تھا۔ تو میرا اور بیگم کا متفقہ فیصلہ تھا کہ بچے کا راگ سننے سے بہتر ہے کہ یہ گانا سنتے رہا جائے۔ ویسے بھی ہمارا بیٹا اس گوئیے سے ذیادہ بےسرا وقوع پذیر ہوا ہے۔ نتھیا گلی سے چند کلو میڑ پہلے سڑک کنارے چند بندر نظر آئے تو بچوں نے شور مچا دیا۔ پاپا بندر، پاپا بندر۔۔۔اس پر بیگم کی بے ساختہ ہنسی چھوٹ گئی اور میں کھسیانا سا ہو کر رہ گیا۔ اب کون صفائی دیتا پھرے کہ بچے مجھے بندر نہیں کہہ رہے بلکہ اطلاعا سڑک پر موجود بندروں کے بارے اعلان فرمارہے ہیں۔ بچوں نے بندروں کے ساتھ خوب سلفیاں لیں جو بہت پسند کی گئیں۔ فیس بک پر کمنٹس آئے۔۔۔بہت پیارے۔۔۔واو کیوٹ۔۔۔۔اچھے لگ رہے ہیں۔۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔ اب یہ پتہ نہیں کہ کمنٹس بندورں کےلئے تھے یا بچوں کےلئے۔
(جاری ہے)




This post first appeared on GumNaam, please read the originial post: here

Share the post

روداد اسلام آباد (حصہ سوئم)

×

Subscribe to Gumnaam

Get updates delivered right to your inbox!

Thank you for your subscription

×