Get Even More Visitors To Your Blog, Upgrade To A Business Listing >>

روداد اسلام آباد

گزشتہ سال بحکم سرکار لاہور سے اسلام آباد ٹرانسفر ہونے کا حکم نامہ ملا, پہلے تو شدید کوفت ہوئی کہ اب اپنا گھر، ماں باپ، بہن بھائی سب چھوڑ چھاڑ کے وفاقی دارلحکومت کی غلام گردشوں میں زندگی بسر کرنی پڑے گی۔ زندہ دل لوگوں کے شہر لاہور کو کس دل سے اور کیسے خیر باد کہا جائے۔ لاہور کے باسی، دن اور رات کی تمیز کئے بغیرسیر سپاٹے کے شوقین، بلا وقت اور بلاضرورت کھانے کے رسیا، شوروغل کے عادی۔۔۔۔ اسلام آباد کے خاموش ماحول میں کیسے گزارا کریں گے۔ مگر حکم نامے میں چوں چاں نہ کرنے کی دھمکی آموز تنبیہ بھی تھی اور تنخواہ میں اضافے کا لالچ بھی۔ لہذا۔۔۔ نوکر کی تے نخرہ کی۔۔۔۔۔سامان باندھا، بیوی بچوں کو ہمراہ لیا اور حکمنامے پر عمل پیرا ہوا۔ کرایہ پر اک مکان کا بندوبست پہلے ہی کر چکا تھا۔ چند دن بیگم کے مددگار کے طور پر مکان کو گھر بنانے میں گزرے۔ بچوں کا سکول میں داخلہ کروایا اور پھر کئی دنوں تک مارکیٹوں اور مناسب داموں والی دکانوں کی تلاش میں کولمبس بنا رہا۔ یہ بھی دریافت کیا کہ اچھا گوشت اور تازی مچھلی کہاں سے ملتی ہے۔ اس کارنامے پر شیخ نے کہا کہ اگر تم نے اپنے مطلب کا گوشت ڈھونڈ لیا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اسلام آباد میں بھی گدھے کا گوشت دستیاب ہے۔ شیخ صاحب کی بکواس ہمیشہ کی طرح اک کان سے سنی اور دوسرے کان سے نکالی۔ لاہوریوں کے نذدیک کھانے کا مزیدار ہونا کھانے کے حسب نسب سے ذیادہ اہم ہوتا ہے۔ رستے سمجھنے اور یاد رکھنے میں ہمیشہ سے نکما رہا ہوں۔ گو کہ گوگل کے نقشہ جات بہت کام آئے مگر اس کے باوجود کئی بار رستہ بھولا۔ اک روز فیصل مسجد گئے۔ مارگلہ کے سرسبز پہاڑوں سے متصل اک بے حد خوبصورت اور بارعب عبادت گاہ۔۔۔۔ وہاں جا کربیگم سے کہا کہ یہاں کر لاہور کی بادشاہی مسجد یاد آگئی۔  تو نیک بخت بولیں کہ آپ لاہور کے فراق میں طاری مجنونانہ کیفیت سے باہر آجائیں۔ کل آپ ریگل کے دہی بھلے، خلیفہ کی نان خطائی، پھجے کے پائے، مولا بخش کا پان، رانا جی کے نان چنے اور رائل پارک کی حلوہ پوری کو یاد کر کے ٹسوے بہا رہے تھے۔ لاہور اتنا بھی پر فسوں نہیں جتنا آپ اس کی تعریفوں میں رطب اللسان رہتے ہیں۔ آپ کو لاہور کی مہیب و بےربط اور بے ہنگم ٹریفک کیوں یاد نہیں آتی۔ ہر وقت شوروغل جیسی زحمت، گدھے کا گوشت، کیمیکلز سے بنا دودھ، سردیوں میں حدنظر صفر کر دینے والی دھند ، فضائی اور آبی آلودگی، پارکنگ کے مسائل۔۔۔یہ سب آپ بھول رہے ہیں۔ بیگم کی کراری گفتگو سن کر کان لپیٹے اور گھر کی راہ لی۔ کافی دیر گاڑی چلانے کے بعد خیال آیا کہ آتے ہوئے اتنا وقت نہیں لگا تھا جتنا واپسی پر لگ رہا ہے مگر دور دور تک گھر پہنچنے کے آثار کیوں نظر نہیں آ رہے۔ ذھن سے متضاد سوچوں کو جھٹکا اور تو اندازہ ہوا کہ یہ وہ رستہ نہیں جو گھر کو جاتا ہے۔ گاڑی روک کر اک پولیس کانسٹیبل سے پوچھا کہ بھائی یہ سڑک کہاں کو جاتی ہے تو اس نے بتایا کہ سڑک تو کہیں نہیں جاتی، شیر شاہ سوری کے زمانے سے یہیں کی یہیں ہے مگر آپ جی ٹی روڈ پر لاہور کی جانب گامزن ہیں۔ یہ سنتے ہی فورا سیاستدانوں کی طرح یو ٹرن لے کر یوں گھر کو لوٹے جیسے بدھو گھر کو لوٹے۔
جب سب کچھ معمول پر آ گیا۔ تو بیگم کا مری اور اس سے ملحقہ علاقوں میں سیر سپاٹے کی فرمائش زور پکڑ گئی اور میری ازلی سست فطرت کے سبب بنے مخالفانہ دلائل دم توڑنے لگے۔ ویسے بھی اب اسلام آباد اچھا لگنے لگا تھا۔ پرسکون اتنا کہ اگر پطرس یہاں کے رہائشی ہوتے تو شہرہ آفاق مضمون "کتے" کبھی تخلیق نہ کرپاتے کیونکہ رات 10 بجے کے بعد یہاں کتے بھی نہیں بھونکتے، سکول اور دفتری اوقات کے علاوہ ٹریفک نہ ہونے کے برابر، غریب کی جیب کی طرح تقریبا خالی سڑکیں جن پر گاڑی دوڑاتے 20 سے 25 منٹوں میں کہیں بھی پہنچ جائیں۔ سردیوں میں ناصرکاظمی کے درودیوار جیسی شامیں جہاں اداسی بال کھولے سو رہی ہوتی ہے۔ پنکھج اداس کی گائی غزلوں سے بھی ذیادہ اداس ماحول۔۔۔۔غیرضروری طور پر سنجیدہ رہنے اور سوچنے پر مجبور کرتا رہتا ہے۔
اگر لاہور کے بابے خوش مزاج ہیں تو یہاں کے بابے خوش لباس۔۔۔ہمہ وقت پینٹ کوٹ میں ملبوس، ریٹائرمنٹ کے بعدکتابوں کی دکانوں میں ٹہلتے اور انگریزی زبان کی مشکل کتابیں تلاش کرتے نظر آئیں گے۔ غیرملکی باشندے بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ جنہیں آپ منہ پر گالیاں نکال کر دل ہلکا کر سکتے ہیں۔اور وہ جوابا مسکراتے رہیں گے۔ بس شرط یہ ہے کہ وہ مغلظات اپنی مادری زبان میں بکی جائیں۔  کافی شاپس اور قہوہ خانے شام کو آباد ہوجاتے ہیں۔ اگر جھجک کو اتار پھینکا جائے تو موقعہ تاڑ کرکسی میز پر منعقد فیض احمد فیض کی شاعری سے دل گرماتی محفل کو بھی جوائن کیا جاسکتاہے۔ اس موقع پر صرف اک احتیاط کی ضروری ہے۔ محفل میں شامل ہونے سے پہلے شرکاءپر طائرانہ نظر ضرور ڈال لیں کیونکہ اہم اداروں میں سفارشی پوسٹوں کی تقسیم ، سرکاری ٹھیکوں کی تقسیم اور ان ٹھیکوں میں حصوں کی تقسیم، سیاسی ٹکٹوں کی تقسیم، صحافتی لفافوں کی تقسیم، مختصرا یہ کہ ملک و قوم کو تقسیم کرنے جیسے فیصلے بھی یہیں کہیں کسی میز پر ہو رہے ہوتے ہیں۔
(جاری ہے)




This post first appeared on GumNaam, please read the originial post: here

Share the post

روداد اسلام آباد

×

Subscribe to Gumnaam

Get updates delivered right to your inbox!

Thank you for your subscription

×