Get Even More Visitors To Your Blog, Upgrade To A Business Listing >>

میں بڑے ہو کر ڈاکٹر عبدالسلام بنوں گا

 مرزا طلحہ احمد


اس کا نام سعادت تھا۔ وہ پڑھائی میں بہت ہوشیار اور کلاس میں ہمیشہ اوّل آتا تھا۔ گو کہ عمر ابھی چھوٹی تھی مگر ہر وقت اس خیال میں رہتا کہ وہ بڑا ہو کر کیا بنے گا۔ کبھی ڈاکٹر، کبھی انجینئر تو کبھی ٹیچر۔ البتہ سائنس کا بہت شوقین تھا۔ ایک دن سائنس کی کلاس کے دوران اس کو احساس ہوا کہ سائنس ہی اس کا پسندیدہ مضمون ہے۔ اس احساس کے پیدا ہوتے ہی اس کو لگا کہ جیسے اس کا ایک بہت بڑا بوجھ اٹھ گیا ہو۔ کلاس ختم ہوتے ہی وہ دوڑتے ہوئے اپنے استاد کے پاس پہنچا اور کہنے لگا ’سر میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ میں بڑے ہو کر ڈاکٹر عبدالسلام بنوں گا‘۔ استاد کا رنگ اچانک فق ہو گیا۔ وہ کبھی دائیں دیکھنے لگا اور کبھی بائیں پھر یہ کہہ کر چلا گیا کہ اس شخص جیسا بننے سے تو بہتر ہے کہ تم پڑھنا لکھنا ہی چھوڑدو۔
یہ بات سعادت کو بہت ہی عجیب محسوس ہوئی۔ وہ اپنے سب سے اچھے دوست کے پاس گیا اور پھر وہی بات دہرائی کہ وہ بڑے ہو کر ڈاکٹر عبدالسلام بننا چاہتا ہے۔ اس کا دوست پہلے تو خاموش ہو گیا پھر کہنے لگا کہ دیکھو میں تمہارا دوست ہوں تمہیں سمجھا رہا ہوں، یہ بات آئندہ مت کہنا، کیا تم جانتے نہیں کہ عبدالسلام کیا تھا؟ سعادت نے اپنی نادانی میں جواب دیا کہ ڈاکٹر عبدالسلام ایک بہت بڑے سائنسدان تھے اور انہوں نے اس دنیا کی بہتری کے لئے بہت مفید کام کئے۔ اس کا دوست اچانک آگ بگولا ہونے لگا اور یہ کہہ کر رخصت ہوا کہ تم سے تو بات کرنا ہی بے کار ہے۔
سعادت ایک عجیب کشمکش میں تھا۔ اس کو یہ سمجھ ہی نہیں آرہی تھی کہ آخر یہ ماجرا کیا ہے؟ اس الجھن کو دور کرنے کے لئے اس نے سوچا کہ اب گھر والوں سے ہی بات کر کے دیکھتا ہوں۔ اس روز اس نے گھر پہنچتے ہی بیٹھک کا رخ کیا جہاں سعادت کی والدہ اس کے لئے سویٹر بننے میں مصروف تھیں اور والد ٹی وی دیکھ رہے تھے۔ سعادت اپنی والدہ کی طرف مخاطب ہو کر بولا ’اماں آج میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ میں نے زندگی میں آیندہ کیا کرنا ہے، میں ڈاکٹر عبدالسلام جیسا بننا چاہتا ہوں۔ ‘ یہ الفاظ سعادت کے لبوں سے نکلنے کی دیر تھی کہ اس کے ابا اچانک اٹھ کھڑے ہوئے اور سعاد ت کو زور کا تھپڑ لگا دیا اور زور سے چلانے لگے کہ ’خبر دار جو آئندہ ایسی بات کی‘۔ سعادت کے ابا غصے سے لال ہو رہے تھے اور اماں ان کو سمجھا رہیں تھی کہ اس کو کیوں مار رہے ہیں، یہ تو ابھی بچہ ہے، لا علم ہے۔ پھر سعادت کو کہنے لگیں کہ دیکھو ہم شام کو بات کریں گے تم ابھی جاؤ ٹیوشن کے لیے دیر ہو رہی ہے۔
سعادت کی آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے۔ اس کے ابا نے اس سے پہلے کبھی اس پر ہاتھ نہیں اٹھا یا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ آخر ڈاکٹر عبدالسلام نے کیا گناہ کیا تھا کہ آج ابا نے پہلی مرتبہ میرے اوپر ہاتھ اٹھایا۔ وہ ٹیوشن کے راستے میں، انہی سوچوں میں گم، اس سوال کا جواب تلاش کررہا تھا کے صحیح راستے سے کچھ بھٹک گیا۔ ایک غلط موڑ مڑنے کے باعث وہ ایک انجانے راستے پر چل پڑاتھا ۔ اس اجنبی راستے پر اس کوایک مزار نظر آیا۔ اس نے دیکھا کہ مزار کے گرد بہت سی بھیڑ جمع ہے۔ لوگ مَنتیں مانگ رہے ہیں۔ پھول برسا رہے ہیں۔ لوگوں کے چہروں پر مرنے والے کے لئے بہت ہی محبت ہے۔ سعادت اس نتیجہ پر پہنچا کہ ڈاکٹر عبدالسلام ضرور ایک برا آدمی ہوگا جس کا نام بھی سننا لوگ گوارا نہیں کرتے ۔ میں بھی قسم کھاتا ہوں کہ آیندہ اس شخص کا نام بھی نہ لوں گا۔ البتہ یہ شخص جس کے مزار پر ہزاروں لوگ جمع ہیں، یہ یقیناً کوئی بزرگ آدمی ہوگا ۔ میں بڑے ہو کر اس جیسا ہی بنوں گا۔ اس نئے اور پکے عزم کے ساتھ اس نے ساتھ والے شخص سے پوچھا کہ بھائی یہ مزار کس کا ہے تو اس کو جواب ملا کہ یہ مزار ممتاز قادری کا ہے۔



This post first appeared on Pak Tea House | Pakistan – Past, Present And Fut, please read the originial post: here

Share the post

میں بڑے ہو کر ڈاکٹر عبدالسلام بنوں گا

×

Subscribe to Pak Tea House | Pakistan – Past, Present And Fut

Get updates delivered right to your inbox!

Thank you for your subscription

×