Get Even More Visitors To Your Blog, Upgrade To A Business Listing >>

ن لیگ میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہو جائیگا؟

ن لیگ میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہو جائیگا؟

نواز شریف کی پارٹی صدارت پر سپریم کورٹ کا فیصلہ ہرگز غیر متوقع نہیں تھا۔

کراچی: (ہارون الرشید) نواز شریف کی پارٹی صدارت پر سپریم کورٹ کا فیصلہ ہرگز غیر متوقع نہیں تھا ، سب سے زیادہ انہی کو اس کا اندازہ تھا لہٰذا وہ عدالت پر دباؤ ڈالنے کے لیے آخری حد تک چلے گئے ، اس کے باوجود یہ تاثر کیوں تھا کہ سیاسی طور پر نواز شریف آگے بڑھ رہے ہیں، بظاہر اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ مظلومیت کا تاثر دینے میں کامیاب رہے جو ان کا پرانا ہتھکنڈا ہے ، ن لیگ کے حامیوں نے خود کو دھوکہ دیا ، انہوں نے خیالات کی جنت آباد کی اور اس میں رہنا شروع کر دیا جو خوش فہم معاشروں کا شیوہ ہوتا ہے ، آخری وقت تک ذوالفقار علی بھٹو کے حامی بھی یہی سمجھتے رہے کہ ان کا تاریخ ساز لیڈر فوج کو شکست دینے میں کامیاب رہے گا ، سب سے بڑھ کر ان میڈیا گروپوں اور کرائے کے اخبار نویسوں کی وجہ سے ن لیگ کے حامیوں نے دھوکہ کھایا ، جن کے مالی مفادات ن لیگ سے وابستہ ہیں جو اس کے بل بوتے پر بارسوخ ہیں، وہ اس عظیم مافیا کا ایک حصہ ہیں جو ملک کے سب سے اہم سیاسی خاندان نے 30 برس میں تشکیل دی، اب ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہوجائے گا۔

موقع پرست جو ہمیشہ اقتدار کے ساتھ ہوتے ہیں جن میں سے زیادہ تر ق لیگ سے آئے تھے اسے چھوڑ جائیں گے ، سرائیکی پٹی سے تعلق رکھنے والے آٹھ ارکان اسمبلی کا اعلان اگلے چند دن میں متوقع ہے ، ن لیگ کے ایک درجن سے زیادہ ارکان پہلے ہی عندیہ دے چکے ہیں کہ آئندہ الیکشن میں وہ آزاد امیدوار ہوں گے ۔ عدالت جب نا اہلی کی مدت کا تعین کرے گی اور مے فیئر فلیٹس کے حوالے سے کالا دھن سفید کرنے کے مقدمہ کا فیصلہ ہوگا تو کئی ہفتوں سے جاری کنفیوژن ختم ہوتی چلی جائے گی ، صف بندیاں واضح ہونے لگیں گی، اپنی تشکیل میں ن لیگ ہرگز ایک اسٹیبلشمنٹ مخالف پارٹی نہیں، میاں شہباز شریف اور چودھری نثار علی خان یہ نکتہ خوب سمجھتے ہیں، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی۔ گزشتہ ایام میں کئی بار انہوں نے جنرلوں سے رابطہ کیا۔ ان سے استدعا کرتے رہے کہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے وہ عدالت کو مقدمات ملتوی کرنے پر آمادہ کریں وہ ایسا کیوں کرتے ؟ صاف صاف انہوں نے انکار کر دیا۔

ایم کیو ایم کے سینیٹر میاں عتیق کی حمایت اور تحریک انصاف کے بعض سینیٹرز کی خاموشی خرید کر نواز شریف نے الیکشن اصلاحات ایکٹ منظور کرایا۔ اسی وقت یہ کہا گیا کہ سپریم کورٹ اس قانون کو مسترد کردے گی کہ دستور کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم ہے ۔ اگر اس قانون کو سپریم کورٹ برقرار رکھتی اور نواز شریف کے حق میں فیصلہ کرتی تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ اس نے دباؤ قبول کر لیا اور بلیک میل ہوگئی۔ ریاست کا اہم ترین ادارہ یہ کیسے گوارا کرسکتا تھا کہ اپنی گردن وہ ایک ایسے لیڈر کی خدمت میں پیش کردے جسے ریاست سے کوئی خاص ہمدردی نہیں۔ جس کی اولاد اور دولت ملک سے باہر ہے ۔ جو ریاستی اداروں سے مستقل طور پر محاذ آرائی کا عادی ہے اور جو ریاست کے دشمن ممالک افغانستان اور بھارت کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے ۔ جو ریاستی مفادات نظر انداز کرکے خود اپنے نقطہ نظر سے برطانیہ، امریکہ اور عربوں سے مراسم استوار کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے ۔ جس کی ترجیحات ذاتی ہیں ۔ مفاد پرستوں کے علاوہ جو ہر حکومت کے ساتھ ہوتے ہیں، بھارتی لابی جس کی ڈٹ کر حمایت کرتی ہے۔

پرویز رشید اور نجم سیٹھی ایسے لوگ جن کے ساتھ مستقل طور پر رابطے میں رہتے ہیں، نواز شریف کے حق میں عدالت اگر فیصلہ صادر کرتی تو اس کا ایک مطلب یہ ہوتا کہ ریاست کو اپنے وجود پر سمجھوتا کر لینا چاہیے ۔ پولیٹیکل سائنس کا کوئی بھی طالب علم جانتا ہے کہ یہ حد درجہ احمقانہ بات ہوتی، کوئی ہوش مند جس کا مرتکب نہیں ہوسکتا ۔ انسانی تقدیروں کے اہم ترین فیصلے ریاستوں کے ذریعے بروئے کار آتے ہیں ۔ ملک تباہ ہوسکتے ہیں مگر کسی ایک لیڈر نہیں بلکہ اپنی تقدیر بگڑ جانے کے نتیجے میں جو سماجی پیرھن (سوشل فیبرک) کی تباہی سے وقوع پذیر ہوتے ہیں ۔ نواز شریف کی بات مان لی جاتی تو کل کوئی بھی سیاسی لیڈر عدالتوں کو بلیک میل کرنے کی کوشش کرتا۔ ن لیگ میں شکست و ریخت علاوہ جو بتدریج ہوگی، عدالتی فیصلے کے فوری سیاسی اثرات کیا ہوں گے ؟۔ خیال ہے کہ شہباز شریف کی پوزیشن اب مضبوط تر ہوجائے گی۔ شریف خاندان اور ان کے حریفوں کے لیے مریم نواز نہیں وہی ایک قابل سمجھوتہ امیدوار ہوسکتے ہیں جو اسٹیبلشمنٹ سے تصادم کے کبھی حامی نہ تھے ۔ اسی لیے جنرل پرویز مشرف کی برطرفی ان سے پوشیدہ رکھی گئی تھی۔ مزید برآں اپنے بھائی سے انہیں ہمدردی ہے ۔ وہ سمندر پار پڑی ان کی دولت بچانے کی کوشش میں مدد کرسکتے ہیں۔ اس لیے کہ انہیں بڑے بھائی کی حمایت درکار ہوگی۔ اس لیے بھی کہ ناجائز دولت پر انہیں کبھی اعتراض نہیں رہا۔

اسٹیبلشمنٹ بھی شہباز شریف کو گوارا کرے گی۔ اس لیے بھی کہ دوسری صورت میں بہت بڑا خلا پیدا ہوجائے گا۔ اسٹیبلشمنٹ کا انداز فکر یہ ہے کہ ن لیگ کے ووٹروں کی آواز باقی رہنی چاہیے ورنہ مستقبل میں قائم ہونے والی حکومت کا چہرہ ایک جمہوری حکومت کا چہرہ نہیں ہوگا ۔ عمران خان کی کئی ہفتوں سے جاری ابتلا میں کمی آئے گی ۔ ان کا معاملہ پس منظر میں چلا گیا حتیٰ کہ ان کی کردار کشی پر تلا ہوا میڈیا گروپ بھی اب اس معاملے کو زیادہ ہوا نہ دے سکے گا ۔ میڈیا ایک ایسی مچھلی ہے جو عوامی احساسات کے سمندر میں زندہ رہتی ہے ۔ سمندر اور دریا نہیں تو تالاب ہی سہی، کیچڑ نہیں۔ عمران خان کے اعتماد میں اضافہ ہوگا اور ان کے کارکن زیادہ جوش و خروش سے بروئے کار آئیں گے ۔ نواز شریف کے حامیوں کا ٹوٹتا حوصلہ کم ہوتا جائے گا ۔ بدھ کو مریم اورنگزیب کے لیے بات کرنا مشکل ہو رہا تھا ۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ کوئی منجھے ہوئے سیاسی لیڈر نہیں ۔ شہباز شریف اور مریم نواز کی طرح، اکثر مسلم لیگی لیڈر عرفان صدیقیوں اور پرویز رشیدوں کی لکھی چٹوں کو سامنے رکھتے ہیں ، حتیٰ کہ جلسہ ہائے عام میں بھی۔ نواز شریف کی قسمت پہ مہر لگ چکی ۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ بات واضح ہوتی جائے گی۔ موسلا دھار بارش میں برباد ہوتی کچی دیوار کی طرح ن لیگ کے ووٹروں کی تعداد کم ہوتی جائے گی ۔ ووٹر دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک جماعت اور دوسرے مقامی بارسوخ امیدواروں کے ۔ عام مایوسی پھیل جانے کے بعد، جس میں کچھ وقت لگے گا، پارٹی کے ووٹروں میں پولنگ سٹیشنوں پر جانے کی، گھنٹوں کھڑے رہنے کی للک کم ہوتی جائے گی۔ ن لیگ کے لیے یہ سب سے بڑا خطرہ ہے ۔

The post ن لیگ میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہو جائیگا؟ appeared first on ماہنامہ میرے محسن.



This post first appeared on Islamic Society Magazine | Islamic Magazine Around The Family, please read the originial post: here

Share the post

ن لیگ میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہو جائیگا؟

×

Subscribe to Islamic Society Magazine | Islamic Magazine Around The Family

Get updates delivered right to your inbox!

Thank you for your subscription

×