Get Even More Visitors To Your Blog, Upgrade To A Business Listing >>

پاکستان میں طلبہ طاقت کو کس نے تقسیم کیا ؟

آج میں بات کرنا چاہتا ہوں طلبہ کی طاقت پر۔ دُنیا بھر میں طلبہ تاریخ کا رُخ موڑ دیتے ہیں، ان کے اندر توانائیاں تو ہوتی ہی ہیں اگر انہیں علم کی دولت میسر آجائے۔ پھر آپس میں اتحاد بھی ہو تو بڑے بڑے چیلنجوں کا بہت کامیابی سے مقابلہ کر لیتے ہیں۔ پاکستان نوجوان ملک ہے۔ اس کو 60 فیصد سے زیادہ آبادی اللہ تعالیٰ نے 15 سے 25 سال کے درمیان عطا کی ہے۔ یہی وہ عمر ہے جہاں عزائم ہیں، توانائیاں ہیں۔ نئے آفاق تسخیر کرنے کا جذبہ۔ اگر صحیح سمت میں رہنمائی ہوجائے تو یہ نہ صرف پاکستان بلکہ خطّے میں انقلاب لا سکتے ہیں۔ یہی طلبہ تھے، جب قائد اعظم کی قیادت میسر آئی تو انہوں نے ایک الگ مملکت قائم کر دی۔ تحریک پاکستان میں طلبہ کا کردار ناقابل فراموش رہا ہے۔

دُنیا بھر میں طلبہ تاریخ کی سمت متعین کرتے رہے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، سب ملکوں میں یونیورسٹیوں نے ان معاشروں کو اندھیروں سے نکالا ۔  پاکستان کے ابتدائی ادوار میں بھی طلبہ نے قیادت کی ذمہ داری سنبھالی۔ پاکستان میں مہاجرین کی آباد کاری میں، نئے تعلیمی اداروں کے قیام میں، طلبہ و طالبات پیش پیش رہے ہیں۔ بحالی جمہوریت کی تحریکوں میں بھی طلبہ ہی ہر اوّل دستہ ثابت ہوئے۔ دنیا میں کہیں بھی انسانوں پر ظلم ہوتا، بھارت میں مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ ہوتا تو یونیورسٹیوں سے طلبہ سیل رواں بن کر سڑکوں پر نکلتے۔ حکمرانوں کو حرکت میں لے آتے۔ 

مجھے اپنے طالب علمی کا زمانہ یاد آرہا ہے۔ جبل پور بھارت میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا تو مشرقی اور مغربی دونوں بازوئوں میں طلبہ نے ہی احتجاج کا کفارہ ادا کیا۔ کراچی، لاہور، ملتان، راولپنڈی، ڈھاکہ، چٹا گانگ، اتنے بڑے بڑے جلوس نکلے کہ غیر ملکی میڈیا بھی اس کی رپورٹنگ پر مجبور ہو گیا تھا۔ یہ ایوب خان کا مارشل لا تھا۔ اس کے باوجود سڑکوں پر ہجوم تھا۔ ایوب خان نے ڈگری کورس دو سال کی بجائے 3 سال کیا۔ یونیورسٹی آرڈیننس جاری کیا تو پاکستان کے دونوں بازوئوں میں اتنا موثر احتجاج ہوا کہ حکومت کو یہ فیصلہ واپس لینا پڑا۔ میں تو ان دنوں گورنمنٹ کالج جھنگ میں احتجاج کا حصّہ تھا۔ یہیں کراچی بدر طلبہ میں سے شہر شہر سے نکالے جانے والے معراج محمد خان بھی آئے۔ پھر یہاں سے بھی نکالے گئے۔

یہ وہ زمانہ ہے۔ جب ہر درسگاہ میں طلبہ یونینیں ہوتی تھیں۔ سیاسی جماعتوں کی ذیلی تنظیمیں نہیں تھیں۔ طلبہ اپنی جگہ ایک قوت تھے۔ سیاسی جماعتوں کی منزلوں کا بھی وہ تعین کرتے تھے۔ آمرحکمرانوں نے طلبہ یونینیں ختم کیں۔ پھر طلبہ کی طاقت کو تقسیم در تقسیم کر دیا گیا۔ کہیں اسلام پسند اور سیکولر کے لیبل لگائے گئے۔ کہیں انہیں زبانوں کے حوالے سے الگ الگ کیا گیا۔ کہیں نسلی تعصبات کی بنیاد رکھی گئی۔ پہلے تو یہ مناظر دیکھنے میں آتے تھے کہ وہ کوئی بھی زبان بولتے ہوں، کسی صوبے سے بھی ہوں، وہ انسانیت، پاکستان اور اسلام کی حرمت کے لئے متحد ہو کر نکلتے تھے۔ اقتدار کے ایوانوں پر لرزہ طاری ہو جاتا تھا۔ استعماری قوتیں کانپنے لگتی تھیں۔ لیکن پھر ان کے درمیان دیواریں کھڑی کر دی گئیں۔ علیحدہ علیحدہ قبیلے بنا دیے گئے۔ اب اندر یا باہر سے ان پر حملہ ہوتا تھا تو وہ اپنے تحفظات کے یرغمال بنے رہتے تھے۔ بلکہ آپس میں ہی ایک دوسرے کے خلاف تلواریں سونت لیتے تھے۔ 

کتنی مائوں کے جگر کے ٹکڑے درسگاہوں میں خون میں نہلا دئیے گئے۔ اس طاقت کو سازشوں کے ذریعے پارہ پارہ کر دیا گیا۔ اب تو کسی ایک مقصد کے لئےسب نوجوانوں کا اکٹھے نکلنا ایک خواب دکھائی دیتا ہے۔ حسرت ہی رہتی ہے کہ کشمیر میں بربریت کے خلاف کبھی سب نوجوان مل کر صرف پاکستان کا پرچم اٹھائے نکلیں۔ جہاں ظلم ہو رہا ہے، وہاں تو کشمیری نوجوان پاکستان کا پرچم لے کر سڑکوں پر آتے ہیں۔ پہلے طلبہ کو سیاسی، لسانی، علاقائی، نسلی بنیادوں پر تقسیم کیا گیا، پھر کمرشلزم آگیا۔ سوشل سائنسز کو درسگاہوں سے نکالا جاتا رہا۔ پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں بزنس ایجوکیشن پر زور دیا جانے لگا۔ ایم بی اے کی ڈگریاں فروخت ہونے لگیں۔ فوجی ا ور سیاسی حکمرانوں نے ملکی حالات اتنے مخدوش کر دئیے۔ پاکستان ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہتا گیا۔ پھر امریکہ، برطانیہ، جرمنی، خلیج کے ممالک کے سفارت خانوں کے باہر پاکستانی نوجوان ویزے کے حصول کی قطاروں میں نظر آنے لگے۔ 

حکمراں طبقہ بھی خزانہ لوٹنے میں مصروف رہا۔ غیر ملکی تعلیمی وظائف بیورو کریٹ اپنے اقربا میں بانٹتے رہے۔ درسگاہوں میں سیاسی پارٹیوں، مذہبی اور لسانی تنظیموں کے مسلّح کارکنوں نے غلبہ پا لیا۔ یونیورسٹی کالج میں داخلے ان کے ذریعے آسانی سے ملنے لگے۔ ان سب سازشوں کے نتیجے میں طلبہ طاقت اب صرف یرغمال بن کر رہ گئی۔ اس قوت کی ڈور اب سیاسی جادوگروں کے ہاتھ میں ہے۔ وائس چانسلر، پرنسپل بھی ان سے خائف رہتے ہیں۔ اس لئےطلبہ اب وہ طاقت نہیں رہے جو تاریخ کے دھارے کا رُخ بدل دیتی ہے۔ جو علمی، ادبی، نظریاتی تحریکوں کو جنم دیتی ہے۔ جو ملکی معیشت میں تحقیق کے ذریعے نئے نئے راستے تراشتی ہے۔ جو پارلیمنٹ کے ارکان کو بھی راہِ راست پر لے آتی ہے۔ جو شہروں، قصبوں میں نا انصافی کا راستہ روکتی ہے۔ نوجوان طلبہ و طالبات کو یہ زنجیریں توڑنا ہوں گی۔ اپنی توانائیاں، صلاحیتیں صرف اور صرف پاکستان کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئےوقف کرنا ہوں گی۔ اندھی تقلید کی بجائے تحقیق کا راستہ اختیار کرنا ہو گا۔ تحقیق ہی تخلیق اور تشکیل کی راہ ہموار کرتی ہے۔

محمود شام
 



This post first appeared on All About Pakistan, please read the originial post: here

Share the post

پاکستان میں طلبہ طاقت کو کس نے تقسیم کیا ؟

×

Subscribe to All About Pakistan

Get updates delivered right to your inbox!

Thank you for your subscription

×