Get Even More Visitors To Your Blog, Upgrade To A Business Listing >>

نیلسن منڈیلا جنھوں نے امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا

نیلسن منڈیلا 18 جولائی 1918 میں پیدا ہوئے تھے، گزشتہ مہینے پوری دنیا میں ان کی صد سالہ جنم تقریبات منائی گئیں۔ استعماریت اور جبر کے خلاف ان تھک مزاحمت کرتے ہوئے منڈیلا نے تپش اور حبس زدہ ’’جزیرہ رابن‘‘ کی جس جیل کوٹھڑی میں اپنی زندگی کے 18 سال گزارے وہ اب کسی زیارت گاہ سے کم نہیں۔ یہاں آنے والوں کو حیرت ہوتی ہے کہ کس قدر کٹھن حالات میں نیلسن منڈیلا نے اپنے عزم اور حوصلے کے بادبانوں پر جیون کی کشتی رواں دواں رکھی، یہاں تک کہ وہ دن آن پہنچے جب سفید فام اقوام بلکہ سارے عالم نے نسلی اور انسانی مساوات کے عالم گیر اصول کو تسلیم کر لیا۔ منڈیلا کی قید و بند کا دورانیہ کم و بیش 27 سال پر محیط ہے۔ 

انسانی حقوق کے علم بردار اسے ضمیر کا سب سے بڑا قیدی قرار دیتے ہیں۔ 1960 کی دہائی کے اولین برسوں کے سوا، جب سفید فام حکمرانوں کی بربریت نسل کشی کی حد تک بڑھ چکی تھی، نیلسن منڈیلا کی تمام جدوجہد عدم تشدد پر مبنی رہی۔ انہوں نے اپنی جنگ تحمل اور بردباری سے لڑی۔ 1990 میں رہائی کے بعد انہوں نے نسل پرستانہ نظام کے خاتمے کے لئے تین سال مہم چلائی اور یہ ثابت کیا کہ نسل پرستانہ تفریق غیر انسانی رویہ ہے۔ طویل حراست اور مشقت کے بعد بھی انہوں نے نہ صرف سفید فام حکمرانوں کو معاف کر دیا بلکہ اپنے مدِ مخالف سفید فام صدر ایف ڈبلیو ڈیکلارک کو انتخاب لڑنے کی دعوت دی اور اپنے عوام کو، جن کے ذہنوں میں کئی دھائیوں کی ذلت اور رسوائی کی وجہ سے انتقام کا لاوا کھول رہا تھا، مساوات اور معاف کر دینے کا حوصلہ عطا کیا۔

نہ صرف یہی بلکہ ڈیکلارک کے ساتھ مل کر نئے جنوبی افریقہ کا لائحہ عمل بھی تیار کیا اور وہاں رہنے والے سفید فام شہریوں کو مساوی شہریت کا حق دیا۔ ان کے جذبے اور جدوجہد کو سراہتے ہوئے نوبل امن کمیٹی نے 1993 میں منڈیلا اور ڈیکلارک کو مشترکہ نوبیل امن انعام سے نوازا۔ اگر چاہتے تو وہ ڈیکلارک کے ساتھ پرائز لینے سے انکار بھی کر سکتے تھے۔ لیکن انھوں نے یہ کہہ کر مشترکہ انعام وصول کیا کہ ’’انسان اختلافات کے با وجود بھی ساتھ چل سکتا ہے‘‘۔ مفاہمت کی پالیسی پر شکوہ یا اعتراض کرنے والوں کو وہ جواب دیتے کہ ’’اگر وہ ایسا نہ کرتے تو یہ ملک آگ اور خون سے بھڑک اٹھتا۔‘‘ منڈیلا کا ساتھ دیتے ہوئے معروف پادری ڈیسمنڈ تُوتُو نے ’’سچائی اور مفاہمت کمیشن‘‘ کے ذریعے رنجیدہ لوگوں کی ڈھارس بندھائی اور انہیں مختلف لوگوں کے ساتھ مل کر رہنے اور کام کرنے کا درس دیا۔ 

حیرت کی بات یہ ہے کہ 1994 میں لینڈ سلائیڈ فتح کے بعد منڈیلا نے صرف پانچ سال حکو مت کی اور اپنی مقبولیت کے باوجود دوسری بار انتخابات لڑنے سے انکار کر دیا۔ تاکہ عوام پر یہ واضح ہو سکے کی ان کی جدوجہد اقتدار کیلئے نہیں بلکہ اصولوں کے لیے تھی۔ منڈیلا نے اپنی باقی زندگی انسانی فلاح اور جمہوریت کے فروغ کے لئے وقف کر دی۔ آج کل سیاح جب ’’رابن جزیرے‘‘ کی جیل، جہاں نیلسن منڈیلا قید رہے، دیکھنے کے لئے آتے ہیں تو وہ انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں کہ دنیا کا یہ عظیم رہنما صرف ایک مَیٹ، ایک کپ، ایک پیالے اور ایک چمچ سے اٹھارہ سال تک گزر بسر کرتا رہا مگر امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔

امجد نذیر


 



This post first appeared on MY Pakistan, please read the originial post: here

Share the post

نیلسن منڈیلا جنھوں نے امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا

×

Subscribe to My Pakistan

Get updates delivered right to your inbox!

Thank you for your subscription

×