کلام ؛ حضرت شاہ نیاز بریلوی رحمة اللہ علیہ
در راہِ حق اندیشی میپویم و می رقصم
دست از خودی و خویشی میشویم و می رقصم
حق کے راستے میں ڈرتا ہوا دوڑتا ہوں اور رقص کرتا ہوں، اپنی خودی اور اپنی ذات سے ہاتھ دھوتا ہوں اور رقص کرتا ہوں
گہہ گریم و گہہ خندم ، دست زنم گہہ پا
از مستی و جوش اندرہا ہویم و می رقصم
کبھی روتا ہوں کبھی ہنستا ہوںکبھی ہاتھ ، پیرمارتا ہوں، مستی و جوش کے ساتھ باطن میں شور مچاتا ہوں اور رقص کرتا ہوں
جامے زمئے باقی از دستِ خوشی ساقی
باکثرتِ مشتاقی میجویم و می رقصم
ساقی کے مبارک ہاتھوں سے باقی شراب کا ،بہت اشتاق سے میں طالب ہوں اور رقص کرتا ہوں
از جامہٴ و جسمانی زاں یوسفِ لاثانی
بوئے خوش روحانی میبویم و می رقصم
جامہٴ جسمانی سے یوسفِ لاثانی کے جیسے،روحانی خوشبو سونگھتا ہوں اور رقص کرتا ہوں
در شوقِ جمالِ او یک دل شدم و یکرو
لاواحد الاّ ھو میگویم و می رقصم
اس کے حسن و جمال کے شوق میں میرا چہرہ اور دل ایک ہی ہوگیا ہے ، زبان سے سوائے اس کے کوئی یکتانہیں کہتا ہوں اور رقص کرتا ہوں
در راہِ شدو آمد مانند دمم بیحد
ہم سبزہ نمط بے حد میرویم و می رقصم
اس کی راہ میں بے حساب سانسوں کی طرح بار بار آتا جاتاہوں ، سبزہ کی طرح بے حساب اگتا ہو ں اور رقص کرتا ہوں
چوں رفت نیاز از خود و زِکون و مکاں برشد
زد نعرہ کہ من بیخود ، خود اویم و می رقصم
جب نیاز خود اپنے سے گیا اور کون و مکاں سے باہر ہوگیا ،تو اس نے نعرہ لگایا کہ میں بے خود” وہی “ ہوں اور رقص کرتا ہوں
مزار مبارک ۛ؛ شاہ نیاز احمد قادری بریلوی قدس سرہٴ