Get Even More Visitors To Your Blog, Upgrade To A Business Listing >>

کراچی پشاور سے پیچھے رہ گیا

پشاور کے شہری جشن آزادی کے موقعے پر بس ریپڈ ٹرانسپورٹ (B.R.T) جیسی جدید ترین میٹرو بس سروس سے مستفید ہونے لگے، یہ منصوبہ طویل عرصہ سے التواء کا شکار رہا ہے۔ منصوبہ 2017ء میں شروع ہوا۔ حکومت نے 8 دفعہ منصوبہ کے افتتاح کی تاریخ کا اعلان کیا مگر منصوبہ 2020 میں مکمل ہوا۔
اس پروجیکٹ کی ابتدائی لاگت کا تخمینہ 49 ارب 43 کروڑ 60 لاکھ روپے تھا، تاہم اس منصوبہ کے اخراجات میں 14 ارب روپے سے زائد کا اضافہ ہوا اور ماہرین کا اندازہ ہے کہ اس منصوبے کی مکمل طور پر تکمیل پر 70 ارب روپے کی لاگت آئے گی۔ اس پروجیکٹ سے منسلک پارکنگ پلازہ ابھی تکمیل کے مراحل میں ہے۔ حکومت کا خیال ہے کہ اس کی تعمیر جون 2021 تک مکمل ہو گی۔ اس منصوبہ میں بدعنوانی کے کئی الزامات لگے اور منصوبہ مستقل التواء کا شکار ہوا۔ نیب نے اس منصوبہ میں غیر شفافیت کی شکایات پر تحقیقات شروع کیں تو حکم امتناعی جاری کیے گئے۔ وفاقی وزیراطلاعات سینیٹر شبلی فراز جن کا تعلق خیبر پختون خوا سے ہے، نے ایک انٹرویو میں یہ تسلیم کیا کہ اس منصوبہ کے بارے میں فیصلہ کرنے میں حکومت سے غلطی ہوئی تھی۔

پاکستان میں پبلک ٹرانسپورٹ کی اہمیت کو سب سے زیادہ پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف نے محسوس کیا۔ انھوں نے 2008 میں برسر اقتدار آتے ہی ترکی کی میٹرول بس کی طرز پر لاہور میں میٹرو بس سروس کی تعمیر شروع کی، اس منصوبہ پر اربوں روپے خرچ ہوئے، لاہور شہرکے وسط میں ٹریک تعمیر ہوا۔ اونچے اونچے برج دیکھ کر لوگ پریشان ہوئے، پھر جدید ترین اسٹیشن قائم ہوئے۔ ٹکٹ کا کمپیوٹرائزڈ نظام پاکستان میں سب سے پہلے اس منصوبے میں رائج ہوا۔ شہری پہلے سے 20 روپے کا ٹوکن خرید کر ایئرکنڈیشنڈ بس میں اطمینان سے سفرکرنے لگے، یوں عام آدمی کو گرمی میں ایئرکنڈیشن اور سردی میں ہیٹنگ سسٹم کے ماحول میں سفر کرنے میں ایک سکون محسوس ہوا، جب 2013 میں میاں نواز شریف تیسری دفعہ وزیراعظم کے عہدہ پر فائز ہوئے تو راولپنڈی سے اسلام آباد میٹرو بس چلنے لگی۔ یہ منصوبہ اپنے وقت پر مکمل ہوا، سی پیک کے ایک منصوبہ کے تحت لاہور میں اورنج ٹرین کی تعمیر شروع ہوئی جو مسلم لیگ ن کی حکومت میں مکمل نہ ہو سکی۔ تحریک انصاف کے رہنما عمران خان نے ہمیشہ ان منصوبوں کو مسترد کیا۔

وہ اب بھی کہتے ہیں کہ جنگلا بس پر اربوں روپے خرچ کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ یہ رقم تعلیم اور صحت کی سہولتوں پر خرچ ہونی چاہیے تھی۔ انھوں نے گزشتہ ہفتہ لاہور میں راوی کے قریب نئے شہر کے منصوبہ کا افتتاح کرتے ہوئے پھر جنگلا پروجیکٹ پر تنقید کی اور پبلک ٹرانسپورٹ کے ان منصوبوں کو پیسہ کا ضیاع قرار دیا۔ وزیر اعظم عمران خان کی پبلک ٹرانسپورٹ منصوبوں کے خلاف اس مہم کے باوجود خیبر پختون خوا کی حکومت نے پشاور میں یہ منصوبہ شروع کیا۔ تحریک انصاف کے وزراء کے دعوؤں کے باوجود یہ منصوبہ مستقل التواء کا شکار رہا اور اب بھی نامکمل منصوبہ کا افتتاح ہو گا۔ وزیر اعظم عمران خان نے اقتدار میں آنے کے بعد یوٹرن کی اصطلاح وضع کی تھی، یوں وزیر اعظم کے پبلک ٹرانسپورٹ مخالف نظریہ کے باوجود پشاورکے شہریوں کو سفری جدید ترین سہولتیں میسر آجائیں گی۔ خیبر پختون خوا کی حکومت میاں شہباز شریف کو اس منصوبہ کے معائنہ کے لیے مدعو نہیں کرنا چاہتی۔ انھوں نے بلاول بھٹو زرداری کو کیوں مدعو کیا ہے، اس کی وجوہات واضح ہیں۔ کراچی ملک کا سب سے بڑا صنعتی شہر ہے اور اب کراچی کا شماردنیا کے بڑے شہروں میں ہونے لگا ہے مگر پبلک ٹرانسپورٹ اور شہری انفرا اسٹرکچر کے اعتبار سے کراچی دنیا کا پسماندہ ترین شہر ہے۔

کراچی میں آزادی کے وقت ٹرام چلتی تھی۔ شہری بڑی بسوں میں سفر کرتے تھے۔ نئی بستیوں کے پھیلاؤ کے ساتھ کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے تحت بڑی بسیں چلنے لگیں۔ 70ء کی دہائی میں سویڈن نے جدید بسوں کا ایک فلیٹ تحفہ کے طور پر دیا جس میں پبلک ایڈریس سسٹم اور ایئرکنڈیشن کا نظام بھی نصب تھا۔ ایوب خان کے دور سے سرکلر ریلوے شہرکے گرد دوڑنے لگی مگر شہر میں ٹرانسپورٹ مافیا پروان چڑھی۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ٹرام سروس ختم ہوئی۔ ٹرام کینٹ اسٹیشن سے چاکیواڑہ اور سولجر بازار تا ٹاور تک عام آدمی کے سفرکا بہترین ذریعہ تھی مگر سڑکوں پر رکاوٹ کو ختم کرنے کے نام پر ٹرام پر پابندی عائد کی گئی۔ ٹرانسپورٹ کے ماہرین اس بات پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ دنیا بھر کے تمام بڑے شہروں میں الیکٹرک ٹرام چلتی ہے مگر کراچی میں اس سروس کو ختم کیا گیا۔

پہلے ڈبل ڈیکر بسیں لاپتہ ہوئیں پھر بڑی بسیں غائب ہوئیں۔ کے ٹی سی خسارہ کا شکار ہوئی۔ شہر میں چھوٹی منی بسیں دوڑنے لگیں جو کسی صورت پبلک ٹرانسپورٹ کی تعریف میں نہیں آتی تھیں۔ سرکلر ریلوے کی سروس کا معیار گرنے لگا۔ 60ء اور 70ء کی دہائی میں لانڈھی سے ٹاور اور سٹی اسٹیشن سے سائٹ وغیرہ جانے کے لیے سرکلر ریلوے ایک بہتر سواری تھی۔ ریل گاڑی کے دیر سے آنے، راستہ میں انجن کی خرابی، ڈبوں میں سے بلب اور پنکھے وغیرہ غائب ہوئے۔ ڈبوں کی سیٹوں پرگرد جمع ہونے کے واقعات بڑھے۔ یوں عام آدمی سرکلر ریلوے سے مایوس ہو گیا۔ گزشتہ صدی کی آخری دہائیوں میں کراچی بدامنی کا شکار رہا۔ اس بد امنی کا براہِ راست نشانہ پبلک ٹرانسپورٹ بنی۔ تیل اور فاضل پرزوں کی قیمتوں میں اضافہ سے عام ٹرانسپورٹز میں اتنی سکت نہیں رہی کہ وہ مزید سرمایہ کاری کرے۔ سابق صدر پرویز مشرف کے بلدیاتی نظام میں جماعت اسلامی کے نعمت اﷲ پہلے ناظم بنے۔ انھوں نے پبلک ٹرانسپورٹ کی بحالی کے لیے کوششیں کیں۔ 

کراچی کی سڑکوں پر جدید ترین ایئرکنڈیشن بسیں نظر آنے لگیں۔ صدر سے ملیر اور صفورہ چوک جانے کے لیے گرین بسیں چلنے لگیں جن میں مسافر نشستوں پر بیٹھ کر سفر کرتے تھے۔ یہ بسیں بینکوں کی لیز کی اسکیم سے حاصل کی گئی تھیں، بعد ازاں یہ بسیں لاپتہ ہونے لگیں۔ کچھ عرصہ بعد مکمل طور پر بند ہو گئیں۔ اس زمانہ میں اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ بسیں زیادہ منافع کے لیے دوسرے علاقوں میں بھیج دی گئیں اور کچھ کے مالکان نے بینکوں کی قسطیں ادا نہ کیں، یوں وہ بینکوں نے ضبط کر لیں۔ دوسرے ناظم مصطفی کمال کے ایجنڈا میں پبلک ٹرانسپورٹ کا مسئلہ شامل نہ تھا۔ یوں ان کے آخری دور میں لانڈھی سے ناگن چورنگی اور صدر سے لانڈھی جانے کے لیے چند بڑی بسیں چلیں۔ 2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو کراچی کے شہریوں کو امید تھی کہ پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام میں کوئی تبدیلی ہو گی۔ اس دور میں صدر زرداری نے چین کے سیکڑوں دورے کیے۔ اس کے علاوہ انھوں نے ترکی اور دیگر ممالک کے دورے بھی کیے۔

کراچی کے شہریوں کو امید تھی کہ جس طرح میاں برادران لاہور کے لیے میٹرو بس اور اورنج ٹرین کے منصوبے لائے ہیں زرداری صاحب بھی ضرور کچھ کریں گے، مگر شاید ان کی ترجیحات میں پبلک ٹرانسپورٹ نہیں ہے۔ بہرحال کراچی شہریوں کے لیے ٹوٹی بسوں پر سفر، رکشہ اور چین کی مال برداری کے لیے تیارکردہ چنگ چی موٹر سائیکل رہ گئی ہے۔ ٹرانسپورٹ کی رپورٹنگ کرنے والے ایک صحافی کا اندازہ ہے گو حکومت نے چنگ چی رکشوں پر کچھ پابندیاں عائد کی ہیں مگر عام آدمی کے لیے یہ چنگ چی سفر کا آسان اور سستا ذریعہ ہے۔ وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے اعلان کیا تھا کہ کراچی میں نئے بس ٹریک تعمیر کیے جائیں گے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے کراچی میں گرین لائن منصوبہ کا سنگ بنیاد رکھا۔ مسلم لیگ ن حکومت کے خاتمہ کی بناء پر یہ منصوبہ التواء کا شکار ہوا۔
کراچی کی مرکزی شاہراہ ایم اے جناح روڈ کئی سال تک اس منصوبہ کی بناء پر بند رہی۔ اب نامکمل ٹریک کی بناء پر یہ شاہراہ ٹریفک کے لیے کھول دی گئی ہے۔ کراچی میں ہونے والی بارشوں میں ضلع وسطی کی شاہراہیں ڈوب گئیں۔ ایک تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا کہ گرین لائن کے پل ، بس فلیٹ اسٹیشن نالوں کو بند کر کے تعمیر کیے گئے ہیں۔

یوں اس معاملہ پر توجہ دینے سے یہ منصوبہ مزید التواء کا شکار ہوا۔ سید ناصر شاہ 2010 میں ٹرانسپورٹ کے صوبائی وزیر بنے۔ انھوں نے ٹی وی انٹرویو میں اس بات پر شرمندگی کا اظہار کیا کہ ان کے 10 سالہ دور میں صرف 20 بسیں چل سکیں، مگر وزیر ٹرانسپورٹ کی اپنی حکومت سے معذرت کے باوجود حکومت سندھ کی پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے ترجیحات تبدیل نہیں ہوئیں۔ حکومت نے ریڈ لائن، بلو لائن اور یلو لائن وغیرہ کے نام سے مختلف شاہراہوں پربسوں کے جدید ٹریک تعمیر کرنے کے اعلانات کیے مگر پیپلز پارٹی کی حکومت کی 12 سالہ تاریخ سے واضح ہوتا ہے کہ غریبوں کے نام پر ووٹ لینے والی پیپلز پارٹی کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس گلزار احمد گزشتہ ایک سال سے کوشش کر رہے ہیں کہ سرکلر ریلوے متحرک ہو جائے۔

انھوں نے اس سال کے اختتام تک سرکلر ریلوے چلانے کا عزم کیا ہے مگر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی عدم دلچسپی سے یہ خوف ہو چلا ہے کہ منصوبہ ناکام نہ کر دیا جائے۔ عزت نفس کے ساتھ بین الاقوامی معیارکے مطابق پبلک ٹرانسپورٹ پاکستان کے ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ مسلم لیگ ن کی پالیسی کی بناء پر لاہور کے شہریوں کے لیے جدید ترین میٹرو اور ٹرین میسر ہو گئی۔ وزیر اعظم عمران خان کی ڈاکٹرائن کے باوجود پشاورکے شہری جدید بسوں میں سفرکریں گے مگر ملک کے سب سے بڑے شہرکے شہریوں کے لیے چنگ چی رکشہ اور ٹوٹی بسوں کی چھتوں پر سفرکے علاوہ کوئی اور ذریعہ نہیں ہو گا، یوں کراچی لاہور اور پشاور سے پیچھے رہ گیا۔ بلاول بھٹو زرداری اس نکتہ پر غور کریں گے۔

ڈاکٹر توصیف احمد خان 

بشکریہ ایکسپریس نیوز



This post first appeared on Karachi Affairs, please read the originial post: here

Share the post

کراچی پشاور سے پیچھے رہ گیا

×

Subscribe to Karachi Affairs

Get updates delivered right to your inbox!

Thank you for your subscription

×