Get Even More Visitors To Your Blog, Upgrade To A Business Listing >>

سیاسی عدم استحکام اور معاشی بدحالی

پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری، سیاسی عدم استحکام، توانائی بحران اورمجموعی معاشی بدحالی کی وجہ سے اب کم ازکم دس کروڑشہری پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھا سکتے، لوگ صحت اور تعلیم پر کمپرومائز کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں اوراپنے بچوں کو اسکولوں سے نکال کر کام پر لگا رہے ہیں۔ ملک میں نفرت کی سیاست اور قومیت کو ہوا دی جا رہی ہے جس سے سماج تباہ ہورہا ہے اور اقتصادی حالات خراب سے خراب تر ہو رہے ہیں اور بجلی مسلسل مہنگی کی جا رہی ہے۔ سیاسی محاذآرائی نے ڈیفالٹ کے اندیشے کو مزید بڑھا دیا ہے اور روپے کو ٹشوپیپرکی طرح بے قدر کر دیا ہے۔ حکومت اقتصادی میدان کی طرح سماجی اور تعلیمی شعبوں میں بھی بہتر کارکردگی نہیں دکھا سکی جو افسوسناک ہے۔ بیسیوں سرکاری ونجی جامعات دیوالیہ ہو رہی ہیں مگرکسی کو تعلیمی نظام کی تباہی کی کوئی فکر نہیں جوملک کے مستقبل سے کھیلنے کے مترادف ہے اور اوپر سے بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث ہمیں سنگین معاشی مسائل کا سامنا ہے۔

اقوام متحدہ نے پیش گوئی کی ہے کہ رواں برس نومبر 2022 تک دنیا کی آبادی 8 ارب تک پہنچ جائے گی اور موجودہ صدی کے اختتام تک یہ تعداد 10 ارب نفوس سے بھی تجاوز کر جائے گی۔ عالمی آبادی 1950 کے بعد سے سست وری سے بڑھ رہی ہے جو 2020 میں ایک فیصد سے کم ہو گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے تازہ ترین تخمینے بتاتے ہیں کہ دنیا کی آبادی 2030 میں 8 ارب 50 کروڑ اور 2050 میں 9 ارب 70 کروڑ تک ہو سکتی ہے اور 2080 کی دہائی کے دوران آبادی لگ بھگ 10 ارب 40 کروڑ افراد تک پہنچ سکتی ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے ملک کی نازک معاشی صورتحال کی خبریں تواتر کے ساتھ میڈیا کی زینت بنتی رہی ہیں۔ اب اطلاعات ہیں کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی کاوشیں رنگ لے آئی ہیں۔ چین اور سعودی عرب نے 13 ارب ڈالر کی امداد کی یقین دہانی کرا دی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ دوست ممالک سے ملنے والی اس امداد پر خوشی منائیں یا افسوس کا اظہار کریں۔ 

اصولی طور پر جوہری قوت کے حامل ملک کو غیر ملکی امداد کی حاجت سے ماورا ہو نا چاہئے۔ لیکن افسوس کہ مانگے تانگے کی رقم سے معیشت کی نبضیں بحال رکھنا ہمارا معمول ہے۔ 70 برس گزرنے کے بعد بھی ہم اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہو سکے۔ سیاسی عدم استحکام اور عدم تسلسل کی وجہ سے ہمارا ملک آج تک ترقی نہیں کر سکا۔ پاکستان کے داخلی سیاسی حالات اس کے معاشی طاقت بننے کی راہ میں ہمیشہ حائل رہے۔ جب بھی ہم ایک قدم آگے بڑھے، دو قدم پیچھے کی جانب لڑھک گئے۔ امدادی رقوم پر انحصار کرنے کی ہماری عادت اس قدر پختہ ہو چکی ہے کہ کسی ملک یا عالمی ادارے سے امداد مل جائے تو خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ غنیمت ہو، اگر امدادی رقم کی وجہ سے معیشت کو کچھ استحکام نصیب ہو جائے۔ لیکن یہ بھی ناممکنات میں سے ہے۔ اس کی وجہ ہمارے سیاسی رویے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ سیاسی بے یقینی اور انتشار جس شے کو سب سے پہلے نگلتا ہے، وہ ملک کی معیشت ہے۔

اندازہ کیجئے کہ کسی ملک کا سیاسی منظرنامہ کچھ یوں ہو کہ کسی اپوزیشن جماعت نے سیاسی احتجاج کی کال دی ہو۔ حکومت گرانے کی کوششیں ہونے لگیں۔ حساس اداروں کو سر عام للکارا جائے۔ الزام تراشی کا ایسا شور اٹھے کہ عوام الناس سچ جھوٹ کی پہچان بھولنے لگیں۔ جلائو گھیرائو کی باتیں ہو رہی ہوں۔ اہم سرکاری عمارتوں پر حملے کئے جائیں۔ ان حالات میں کون سا ملک یا غیر ملکی کمپنی اس ملک میں سرمایہ کاری کرنے یا قرض دینے پر آمادہ ہو گی؟ کوئی ملک یا کمپنی تو دور کی بات، بے یقینی اور ماردھاڑ کی ایسی کیفیت میں کوئی عام شہری کریانے کی نئی دکان کھولنے سے پہلے بھی سو مرتبہ سوچے گا۔ قارئین، آرمی چیف کی تعیناتی کیلئے گزشتہ ایک ماہ سے جو کشمکش چل رہی تھی بالآخر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے نئے آرمی چیف اور چیئر مین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کی تعیناتی کے لئے بھیجی گئی وزیر اعظم کی سمری منظور کر لی، جس کے تحت جنرل سید عاصم منیر کو ملک کا نیا سپہ سالار تعینات کر دیا گیا ہے، جب کہ جنرل ساحر شمشاد مرزا چیئر مین جوائنٹ چیفس ہوں گے۔

آرمی چیف اور چیئر مین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کی تعیناتی ایک معمول کا عمل ہوتا ہے اور خوش آئند امر یہ ہے کہ یہ عمل خوش اسلوبی کے ساتھ چند گھنٹوں میں مکمل کر لیا گیا، وزیر اعظم شہباز شریف نے سمری ارسال کی اور صدر مملکت عارف علوی نے اس کی منظوری دے دی۔ صدر نے تعیناتی سے قبل تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے بھی ملاقات کی، جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ وہ بھی اس مشاورت میں بالواسطہ حصہ بن گئے، لہٰذا اگر کچھ عناصر کی یہ خواہش تھی کہ وہ آرمی چیف کی اہم تعیناتی کو متنازعہ بنا کر ملک کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی کوشش کریں گے، تو ان کے ارمانوں پر بھی اوس پڑ گئی۔ جنرل عاصم منیر کی تقرری کا سارے حلقوں نے خیر مقدم کیا ہے، اس کے ساتھ ہی اس بار دونوں تعیناتیاں سنیارٹی کے اصول پر کی گئی ہیں۔ طویل عرصے بعد کسی افسر کو سپر سیڈ نہیں کیا گیا۔

خلیل احمد نینی تا ل والا

بشکریہ روزنامہ جنگ



This post first appeared on Pakistan Mirror, please read the originial post: here

Share the post

سیاسی عدم استحکام اور معاشی بدحالی

×

Subscribe to Pakistan Mirror

Get updates delivered right to your inbox!

Thank you for your subscription

×