Get Even More Visitors To Your Blog, Upgrade To A Business Listing >>

واشنگٹن کیوں ۔ ریکوڈک کیوں نہیں؟

اشرافیہ سفاک اور حکمران طبقے پتھر دل ہو گئے ہیں۔ وہ جن کی ذمہ داری ہے اکثریت کی زندگی کو آسان بنانا، ان کی ضرورتیں پوری کرنا، وہ خود تو زندگی پورے تعیش کے ساتھ گزار رہے ہیں اور اسّی فی صد سے زیادہ خلقِ خدا کے لئے دو وقت کی روٹی کا حصول دودھ کی نہر نکالنے کے مترادف ہو گیا ہے۔ پیٹرول کی قیمتوں میں مثالی اضافہ کر دیا گیا ہے۔ آٹا، چاول، گھی، سبزی، چائے، دالیں سب ایسی چیزیں ہیں جن کے بغیر کوئی غریب سے غریب گھرانا بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔ عام پاکستانی کی اوسط ماہانہ آمدنی اور ماہانہ انتہائی ضروری اخراجات کے درمیان زمین آسمان کا فرق ہو گیا ہے۔ کوئی بھی حساس دل، ہمدرد ذہن رکھنے والا پاکستانی اندر سے ٹوٹ رہا ہے کہ اس کے کروڑوں ہم وطن دن کیسے گزار پاتے ہوں گے لیکن ہمارا حکمران طبقہ چاہے وہ حکومت میں ہے یا اپوزیشن میں، اسے کوئی احساس نہیں ہے۔ 100 میں سے 80 سے زیادہ پاکستانی اپنا گھر چلانے کے لئے دوسروں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ہر عمر کے پاکستانی نفسیاتی امراض کا شکار ہو رہے ہیں۔ بھوک اور احتیاج نے مروت کو نگل لیا ہے۔

صدر، وزیر اعظم، وفاقی وزراء، ماہرینِ معیشت سب غریبوں کے زخموں پر یہ کہہ کر نمک چھڑک رہے ہیں کہ ضروری اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ایک عالمی رجحان ہے۔ عمران خان یہی راگ الاپ رہے ہیں۔ شوکت ترین بھی قوم کو یہی لیکچر دے رہے ہیں۔ اسد عمر کی منطق یہی ہے۔ ہو سکتا ہے ایسا ہی ہو۔ لیکن ایک ریاست اسی لئے قائم ہوتی ہے، ایک حکومت اسی لئے وجود میں آتی ہے کہ وہ ان عالمی رجحانات کا پہلے سے اندازہ کرتے ہوئے قلاش اکثریت کی مشکل کو آسان کرے۔ عالمی رجحان کہنے سے شیر خوار دودھ سے بے نیاز تو نہیں ہو سکتا۔ دوسرے ملکوں میں بھی قیمتیں بڑھنے کی خبر سن کر ضعیف والدین کی بھوک تو نہیں مٹ جاتی اور نہ ہی ان کے مرض لادوا ہو جاتے ہیں۔ جنگوں کی جگہ ریاستیں اسی لئے وجود میں لائی گئی ہیں۔ حکومتوں کے ڈھانچے اس لئے استوار کیے گئے کہ ا س علاقے کے انسانوں کو غیر ملکی یلغار وں سے، موسموں کی سختیوں سے، مہنگائی کی یلغار سے محفوظ رکھا جاسکے۔

کسی بھی ریاست اور حکومت کا اولین فریضہ یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنے لوگوں کی بنیادی ضروریات ان کی قوتِ خرید کے مطابق فراہم کرے۔ حکومت اشیائے ضرورت کے ذخیرے محفوظ کرتی ہے۔ مارکیٹ میں اناج کی فراہمی یقینی بناتی ہے۔ حکمران کتنے بے حس ہو گئے ہیں کہ مہنگائی کی یلغار کو عالمی منظر نامہ کہہ کر اس کی ضرب کم کرنے کے لئے ذرا سی حرکت نہیں کر رہے۔ انسان دوست حکومتیں ایسے مواقع پر ایسی اصلاحات کرتی ہیں جس سے مہنگائی کی شدت براہ راست عوام کو نہ تڑپائے۔ وہ بڑھتی ہوئی قیمتوں کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالتیں۔ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے وافر پانی دیا ہے۔ سونا اگلتی زمینیں بخشی ہیں۔ پہاڑوں، ریگ زاروں اور سمندری تہوں میں سونا، تانبا، نمک، کرومائٹ، آئرن، روبی اور زمرد عطا کیے ہیں۔ہماری خوشحالی چاغی کے ریکوڈک میں ہماری راہ تک رہی ہے۔ ہم مگر قرضوں کا مزید بوجھ لادنے واشنگٹن پہنچ جاتے ہیں۔ ابھی شوکت ترین کاسۂ گدائی لے کر آئی ایم ایف کے در پر فقیرانہ آئے صدا کر چلے کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ 74 برسوں سے ریکوڈک جیسے قیمتی خزانے بلوچستان، سندھ، خیبر پختونخوا، پنجاب، گلگت، بلتستان، آزاد جموں و کشمیر میں ہمارا راستہ دیکھ رہے ہیں۔ ہم دس ہزار سال میل دور اپنے خواب بیچنے واشنگٹن کے بازار میں چلے جاتے ہیں۔ ہمارے خوابوں کی تعبیر وادیٔ سندھ کی زرخیز زمینوں میں ہے۔ کپاس، گندم، گنے، چاول کی فصلیں ہمارے خواب حقیقت میں بدل سکتی ہیں۔

یہ پاک سر زمین نہ تو سود مانگتی ہے اور نہ کوئی اور شرائط عائد کرتی ہے اور نہ یہ دبائو ڈالتی ہے کہ اپنے غریب بے بس، مجبور بندوں سے، بجلی ان نرخوں پر دو، پینے کا پانی مفت نہیں قیمتاً دو۔ یہ کیسی ریاستِ مدینہ کے تمنّائی ہیں جو یہود ونصاریٰ سے سودی معاہدے کرنے کے لئے رتجگے کرتے ہیں۔ معیشت کے ماہرین تو اپنے ملک میں ایسے راستے دکھاتے ہیں، ایسے نظام سمجھاتے ہیں کہ اپنے لینڈ اسکیپ، ماحول، آب و ہوا کے مطابق زندگی اطمینان اور اعتماد سے گزار سکیں۔ہمارے ماہرین تو اپنی اپنی جھاڑیوں میں گھات لگائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ حکومت وقت کی اسکیموں پالیسیوں پر تیر چلانے کیلئے ہر دور کی اپوزیشن اپنے لوگوں کی سہولت کیلئے رہنمائی نہیں کرتی بلکہ حکومت وقت کو گرانے کیلئے بے روزگاروں، بھوکوں، پیاسوں، مہنگائی سے گھائل لوگوں کو سڑک پر نکلنے کی دعوت دیتی ہے۔ ایک حکومت گر جائے دوسری حکومت آئے تو وہ مہنگائی کا سارا ملبہ پچھلی حکومت پر ڈالنے میں اپنے سال گزار دیتی ہے۔ لوگوں کے دکھ درد کو کم کرنے میں مقامی حکومتیں مددگار ہوتی ہیں۔ 

ایک طرف لوگ کچرے کے تعفن سے بیماریوں میں مبتلا، میٹھے پانی سے محروم، گندے پانی سے بھری گلیوں میں چلنے پر مجبور۔ اوپر سے انتہائی بنیادی ضروری اشیا کی قیمتیں ان کی قوت خرید سے بہت دور۔ بلدیاتی عمارتیں ہیں لیکن حکومتیں نہیں ہیں۔ کسی طرف سے کوئی ایسی بشارت نہیں آتی کہ اکثریت کی پریشانی کم کرنے کیلئے کوئی اسکیم شروع کر دی گئی ہے۔ پیٹرول کا غم بانٹنے کیلئے پبلک ٹرانسپورٹ چلا دی گئی ہے۔ گندم، کپاس، گنا، سبزیاں اگاتی زمینوں پر پلازے بن رہے ہیں۔ کارخانوں کی جگہ شاپنگ مال ابھر رہے ہیں۔ معدنی وسائل کی دریافت اور ان کی برآمد کی خبریں یا اشتہار چینلوں پر نہیں آتے ہیں۔ تحقیق، تخلیق، تجرید، تنوع، تعبیر، تسخیر ساری صلاحیتیں کند ہو گئی ہیں۔ صرف قرض کی معیشت کو فروغ دیا جارہا ہے۔ ایک طبقہ غیر ضروری چیزیں خرید رہا ہے۔ اکثریتی طبقہ انتہائی ضرورت کی چیزیں خریدنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ ہمارے درد کی دوا واشنگٹن کے سود خوروں کے پاس نہیں ہے۔ ریکوڈک کے پہاڑوں میں ہے۔

محمود شام

بشکریہ روزنامہ جنگ
 



This post first appeared on Focus Pakistan, please read the originial post: here

Share the post

واشنگٹن کیوں ۔ ریکوڈک کیوں نہیں؟

×

Subscribe to Focus Pakistan

Get updates delivered right to your inbox!

Thank you for your subscription

×