Get Even More Visitors To Your Blog, Upgrade To A Business Listing >>

سنہ 2023 میں ایردوان نہیں تو کون؟

ترکی میں اپوزیشن جماعتوں نے ابھی سے قبل از وقت انتخابات کا واویلا شروع کر دیا ہے جبکہ ملک میں صدارتی انتخابات سن 2023 میں ہوں گے تاہم یہ صدارتی اور پارلیمانی انتخابات ایک ساتھ ماہ نومبر 2022 میں ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ ترکی میں سیاسی جماعتیں اپنی پوزیشن کو جانچنے کے لئے مختلف کمپنیوں کی جانب سے کروائے جانے والے سرویز کو بڑی اہمیت دیتی ہیں اور ان سرویز ہی کے نتیجے میں اپنی پوزیشن بہتر بنانے کے لئے اقدامات اٹھاتی ہیں۔ حالیہ سرویز سے یہ معلوم ہوا ہے کہ صدر رجب طیب ایردوان کی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (آق پارٹی ) حسبِ معمول پہلی پوزیشن حاصل کیے ہوئے ہے۔ مختلف سرویز فرموں کے مطابق جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی 36 فیصد سے 42 فیصد کے لگ بھگ ووٹ حاصل کیے ہوئے ہے جبکہ دوسرے نمبر پر ملک کی سب سے پرانی جماعت ری پبلکن پیپلز پارٹی ( CHP) 25 فیصد سے 29 فیصد تک ووٹ حاصل کیے ہوئے ہے۔

یہ دونوں ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعتیں ہیں اور ان دونوں سیاسی جماعتوں کے گرد دیگرسیاسی جماعتوں کا اتحاد گھومتا ہے۔ یعنی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کا جمہوری اتحاد جبکہ دوسرا ہے ری پبلکن کا ملت اتحاد۔ ملت اتحاد کو امید پیدا ہو گئی ہے کہ وہ آخر کار بیس سال کے طویل عرصے بعد صدر ایردوان کو اقتدار سے ہٹانے میں کامیاب ہو جائے گا لیکن میری ذا تی رائے میں صدر ایردوان کو شکست سے دوچار کرنا اتنا آسان نہیں جتنا اپوزیشن والے سمجھ رہے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ طویل اقتدار کی وجہ سے آق پارٹی کی مقبولیت میں کافی حد تک کمی آئی ہے لیکن صدر ایردوان اپنی جماعت کو فتح سے ہمکنار کروانے کے ماہر ہیں اور وہ آخری لمحے تک اپنی فتح کیلئے جنگ جاری رکھتے ہیں اور ان کا یہی عزم ان کو کئی بار شکست کے دہانے سے فتح تک پہنچانے میں کامیاب رہا ہے۔

اس اتحاد میں شامل تین جماعتوں کے ووٹوں کو اگر موجودہ حالات کے مطابق یکجا کیا جائے تو صورتِ حال کچھ یوں ابھر کر سامنے آتی ہے 50=0.5+8+42 یعنی صدر ایردوان کے اتحاد کو بمشکل کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔ مختلف اداروں کی سروے رپورٹوں کو دیکھتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان جماعتوں کو ملنے والے ووٹوں کی شرح میں تبدیلی آسکتی ہے اور صدر ایردوان لازمی طور پر انتخابات سے قبل اپنے ووٹوں میں اضافہ کیلئے تن من دھن کی بازی لگانے سے گریز نہیں کریں گے۔ اب دیکھتے ہیں صدر ایردوان کے مد مقابل’’ ملت اتحاد‘‘ میں ری پبلکن پیپلز پارٹی، گڈ پارٹی جسے 10 سے 14 فیصد تک ووٹ حاصل ہیں، پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی (HDP) جسے 9 فیصد سے 11 فیصد ووٹ حاصل ہونے کی توقع ہے جبکہ ڈیڑھ اور ایک فیصد کے لگ بھگ ووٹ حاصل کرنے والی سعادت پارٹی، دعا پارٹی اور مستقبل پارٹی شامل ہیں ۔ 

ملت اتحاد کی صورتِ حال بڑی دلچسپ ہے۔ اس کی سب سے بڑی پارٹی یعنی ریپبلکن کے چیئرمین کمال کلیچدار اولو اگر خود صدر ایردوان کے مد مقابل کھڑے ہوتے ہیں تو اس جماعت کے بائیں بازو سے تعلق رکھنے کی وجہ سے اگر بہت زیادہ ووٹ حاصل بھی کر لیں تو یہ 35 فیصد کے لگ بھگ ہو سکتے ہیں جو صدر ایردوان کی کامیابی کی راہ کو ہموار کر دے گا، اس لئے یہ اتحاد کبھی اس قسم کا خطرہ مول لینے کی کوشش نہیں کرے گا۔ اگر اسی اتحاد میں دوسرے نمبر پر موجود گڈ پارٹی ( ترک قومیت پسند پارٹی ) کی چیئر پرسن میرال آق شینر صدارتی امیدوار کے طور پر کھڑی ہوتی ہیں تو انہیں بائیں بازو کی ری پبلکن پیپلز پارٹی کے 25 فیصد، اپنی جماعت سے دس سے چودہ فیصد اوراس اتحاد میں شامل تمام چھوٹی پارٹیوں کے ووٹ حاصل ہو سکتے ہیں لیکن وہ اپنے ہی اس اتحاد میں شامل کردوں کی نمائندہ جماعت HDP  کے ووٹ حاصل کرنے سے قاصر رہیں گی ۔ 

علاوہ ازیں اسی اتحاد میں شامل دو دیگر متبادل بھی موجود ہیں جن کے صدارتی امیدوار ہونے کی صورت میں ان کے اور صدر ایردوان کے درمیان سخت مقابلے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ ان دو امیدواروں میں ایک استنبول کے موجودہ مئیر اکرم امام اولون ہیں جنہیں اس اتحاد میں شامل تمام جماعتوں کے ووٹ حاصل ہو سکتے ہیں اور یہ امیدوار صدر ایردوان کے لئے مشکلات کھڑی کر سکتے ہیں جبکہ دوسرے منصور یاواش ہیں جنہوں نے انقرہ میں ’’جمہور اتحاد‘‘ کے مئیر کے امیدوار کو شکست دے کر کامیابی حاصل کی تھی اور ترکی بھر میں بلدیاتی کارناموں کی بدولت جو شہرت حاصل کر رکھی ہے، اس کے نتیجے میں انہیں بھی صدر ایردوان کے مقابلے میں ایک طاقتور امیدوار قرار دیا جا رہا ہے لیکن ان کی راہ میں اس وقت سب سے بڑی رکاوٹ ان کا ترک قوم پسند ہونا ہے اگرچہ منصور یاواش ترکی کی تمام سیاسی جماعتوں سے ووٹ حاصل کر سکتے ہیں بلکہ وہ آق پارٹی کے اندر سے بھی چند ایک ووٹ حاصل کر سکتے ہیں لیکن ان کو کردوں کی جماعت HDP سے ووٹ ملنا ممکن نہیں۔

اس لئے اگر’’ملت اتحاد‘‘ میں شامل تمام امیدواروں کا ایک ایک کر کے جائزہ لیا جائے تو ابھی تک صدر ایردوان کے پائے کا کوئی بھی امیدوار سامنے نہیں آیا۔ اگر صدر ایردوان 2022 تک ملک کی اقتصادی صورتِ حال کو بہتر بنانے میں کامیاب ہو گئے تو پھر صدر ایردوان کا حریف اتحاد کامیابی حاصل نہیں کر پائے گا۔ جب تک حریف اتحاد صدر ایردوان کے مقابلے میں ان جیسا نڈر اور مقبول لیڈر سامنے نہیں لاتا ان کے لئے صدارتی انتخابات جیتنا ممکن نہیں ہے۔

ڈاکٹر فر قان حمید

بشکریہ روزنامہ جنگ



This post first appeared on Focus Pakistan, please read the originial post: here

Share the post

سنہ 2023 میں ایردوان نہیں تو کون؟

×

Subscribe to Focus Pakistan

Get updates delivered right to your inbox!

Thank you for your subscription

×