Get Even More Visitors To Your Blog, Upgrade To A Business Listing >>

یہ ریڈیو پاکستان ہے

اِس کی سماعتوں سے محبت کا رشتہ پہلی محبت ہی سمجھئے۔ پیار کی کہانی اُس وقت زیادہ پُراثر ہوئی جب وسیم حسن راجہ کو ویسٹ انڈیز کی سرزمین پر دھواں دھار بلے بازی کرتے سنا، اِس زمانے میں کلائیو لارڈ کی قیادت میں کرافٹ، کلارک، گارنر، مارشل اور ہولڈنگ جیسے باؤلرز تباہی کا دوسرا نام تھے، آصف اقبال کی کپتانی کا دورہ تھا، محمد برادران میں سے مشتاق محمد کی کرکٹ اسٹوری تمام ہوئی تھی، ظہیر عباس و ماجد خان بقا کی جنگ لڑ رہے تھے، تو دوسری جانب ہاکی کی دنیا میں شہناز شیخ و صلاح الدین و منور الزمان، اختر رسول و منظور الحسن، منظور جونئر و سلیم شیروانی اور سمیع اللہ و کلیم اللہ و حنیف خان کی دنیا میں حکومت تھی۔ ہم پرائمری و مڈل اسکول تک ان سب کو ریڈیو پاکستان کی نظر سے دیکھتے اور دل کی آنکھ میں سمیٹ لیتے تھے۔ ہماری سینئر نسل میں ریڈیو کا کمال اور جمال کس قدر دلآویز ہو گا ہم کافی حد تک سمجھ سکتے ہیں۔ ریڈیو پاکستان سے بی بی سی لندن، وائس آف امریکہ، وائس آف جرمنی اور ریڈیو ماسکو وہ نشریاتی دنیا اور اس زمانوں کا گلوبل ویلیج تھی گویا ریڈیو اس دور کے گلوبل ویلیج کا معمار تھا۔ اور ہمارے بڑے اس دنیا کے دورے پر اکثر شاموں میں روانہ ہوتے۔ 

لہلہاتے کھیتوں، سر سبز شاداب پہاڑوں، کچی پکی شاہراہوں، سمندروں اور ساحلوں کی ہواؤں میں ریڈیو کی نغمگی و شگفتگی، رننگ کمنٹریوں، ابلاغ و اطلاع اور فصاحت و بلاغت آج بھی کانوں میں رس گھولتے اور نظریات کو جھنجوڑنے کا سماں یاد کراتے ہیں۔ اس سے قبل کے جنگ و جدل کا نہیں معلوم مگر 1971 کی جنگ اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے نوحے اور مرثیے جو احساس بڑوں کے چہروں پر نقش کرتے وہ تصاویر کسی حد تک یاد ہیں۔ وہ ایک ڈبہ گھر میں کبھی ایک یونیورسٹی ہوتا تو کبھی مکہ و مدینہ کی ہواؤں و فضاؤں کا منظر کش، کبھی سڈنی کا کرکٹ گراؤنڈ تو کبھی بارسلونا کا ہاکی اسٹیڈیم۔ کبھی کبھی میں بچوں کو مزاقاً کہتا ہوں کہ پاک ہاکی کو ریڈیو نے جوان رکھا اور ٹیلیوژن نے ہاکی بوڑھی کر کے پاک کرکٹ جوان کر دی۔ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو ؟ ریڈیو پاکستان کی پیدائش بھی 1947 ہی کی ہے۔ ہمارے بڑے مصطفےٰ علی ہمدانی کا یہ اعلان سنایا کرتے تھے: ’’السلام علیکم! پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس۔ ہم لاہور سے بول رہے ہیں۔ تیرا اور چودہ اگست ، سنہ سینتالیس عیسوی کی درمیانی رات۔ بارہ بجے ہیں۔ 

طلوع صبح آزادی‘‘۔ آج بھی مصطفےٰ علی ہمدانی یاد آجاتے ہیں جب ان کے صاحبزادے صفدر علی ہمدانی یا ان کی بہو مہ پارہ صفدر کو سوشل میڈیا پر دیکھتا پڑھتا ہوں۔ ریڈیو پاکستان ہی ٹیلیوژن، فلم، ڈرامہ اور ہر قسم کی براڈ کاسٹنگ نرسری تھی اور وطن عزیز کا فخر اور وقار مگر آج یہ عالم ہے اس تاریخی و قومی ادارے کی وسعتوں کے بجائے خاموشیوں پر کام ہو رہا ہے۔ ہم تو سوچتے تھے کہ موٹروے و نیشنل ہائی ویز کا اپنا ریڈیو ہو جو دوران سفر تفریح بھی دے اور انفارمیشن، موسیقی کے سنگ سنگ جاتے جاتے ہی بتا دے کہ کدھر فوگ ہے اور کہاں اسموگ، کہاں رش ہے اور کہاں سڑک زیر تعمیر۔ کدھر حادثہ ہوا اور کیوں ہوا۔ ہمارا خیال تھا ریڈیو پاکستان ویب سائٹ بمعہ ویڈیو بی بی سی اردو کا مقابلہ کرے، مگر کھلا یہ راز یہاں تو کہ 10 اسٹیشن اور یونٹس ہی بند کرنے کا ارادہ ہے۔ کہتے ہیں ریڈیو کو 1971 والے مقام پر لا کر صرف 8 اسٹیشن رکھنے ہیں اور یہ جو اس وقت 31 یونٹس یا اسٹیشن موجود ہیں ان میں سے اکثریت کا گلا دبا دینا ہے۔ 

اجی 2020 کا جدید ریڈیو ہونے کے بجائے ریڈیو پاکستان 1947 کا ریڈیو بننے جارہا ہے؟ دہائی ہے بھئی دہائی! کچھ ماہ قبل ری اسٹرکچرنگ کے نام پر ساڑھے سات لوگوں کو گھر بھجوا دیا۔ یہ ان لوگوں نے گھر بھجوایا جو ایک کروڑ نوکریاں دینے کے وعدے پر آئے۔ ایک سال سے ریڈیو کو مستقل ڈی جی میسر نہیں اور ایک ایڈیشنل سیکرٹری محترمہ بطور ڈی جی کام کر رہی ہیں۔ جہاں ایڈہاک ہی ایڈہاک ہو گا وہاں بناؤ نہیں بگاڑ ہی تو ہو گا۔ غور کیجئے 13 اور 14 اگست کی درمیانی شب وزیر موصوف اور سیکرٹری صاحب کی موجودگی میں جعلی بات سے کمال رنگ بھر دیا کہ اپنی نوکریاں آباد رہیں۔ سن 1947 کا نشریاتی مذکورہ بالا اعلان یعنی 1972 میں بیٹے نے جو ہمدانی صاحب کا اعلان از سر نو ریکارڈ کیا اسے سن سنتالیس کا کہہ کر سنا دیا حالانکہ سنتالیس کا کوئی ریکارڈ ہی موجود نہیں۔ 

تین چار روز قبل نامکمل بورڈ آف ڈائریکٹرز کا اجلاس ہوا، صرف سیکرٹری، ایکٹنگ ڈی جی، فنانس کے ایڈیشنل سیکرٹری اور فارن افیئر کے ایڈیشنل سیکرٹری آئے جو چار ڈائریکٹرز ریٹائر ہو چکے اِن کی جگہ کوئی تھا ہی نہیں۔ ارے اہلِ کرم فارن افیئرز اور فنانس والے کیا جانے ریڈیو کے بسنت بہار؟ انہیں کیا معلوم ریڈیو ایڈمنسٹریشن، پروگرامنگ، مارکیٹنگ اور انجینئرنگ کا؟ جب ان چیزوں کے ڈائریکٹرز ہی نہیں ہوں گے تو سارے عہدے رکھنے والا ڈائریکٹر فنانس کیا کرے گا جی؟ ایسے میں اگر بورڈ آف ڈائریکٹرز سات سو نوکریاں ختم کرنے کی ٹھانے، خورشید شاہ کمیٹی و کیبنٹ فیصلے کے مستقل کردہ ملازمین فارغ، نوازشریف دور کے اخباری اشتہار اور انٹرویوز کے بعد میرٹ پر آئے لوگوں کو فارغ کر دے، اس کے علاوہ ان کی بھی نہ سنی جائے جنہوں نے اسلام آباد، کراچی، بہاولپور اور پشاور سے معزز عدالتوں سے اسٹے لے رکھے ہیں ان کو نہ دیکھے، اور 31 یونٹس و سٹیشنز کو 8 اسٹیشنوں پر لائے گا علاوہ بریں مجموعی چار ہزار کو 1972 کے دو ہزار پر لائے گا، تو یہ مسئلہ و معاملہ محترم وزیراعظم اور متحرک و معاملہ فہم وزیر شبلی فراز ہی کے سامنے رکھا جائے گا۔ جناب یہ معاملہ اس ریڈیو کا ہے جس کے متعلق چند ماہ قبل بھارتی وزیراعظم مودی نے بھری بزم میں کہا تھا کہ ریڈیو پاکستان کشمیر کاز کو نقصان پہنچا رہا ہے! دوسری جانب بھارت بارڈر اور دیگر علاقوں میں کم و بیش 60 ٹرانسمیٹرز لگا چکا۔ اور ہم؟ محترم وزیراعظم و وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات! یہ تاریخی و تحریکی و نظریاتی ریڈیو پاکستان ہے۔

نعیم مسعود 

بشکریہ روزنامہ جنگ



This post first appeared on Focus Pakistan, please read the originial post: here

Share the post

یہ ریڈیو پاکستان ہے

×

Subscribe to Focus Pakistan

Get updates delivered right to your inbox!

Thank you for your subscription

×