Get Even More Visitors To Your Blog, Upgrade To A Business Listing >>

امریکی انتخابات اور پاکستان

گزشتہ چند دنوں سے پاکستان سمیت عالمی میڈیاکا سب سے پسندیدہ موضوع امریکہ میں جاری صدارتی انتخابات ہیں، میڈیا پر موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بائیڈن سے متعلق مختلف تجزیے پیش کئے جا رہے تھے، دنیا بھر کے سیاسی مبصرین ٹرمپ کے دور اقتدار کے اقدامات کو زیربحث لارہے تھے، امریکہ میں جاری انتخابی عمل کے حوالے سے پاکستان میں ہمیشہ بہت جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ تاہم بطور پاکستانی ہمارے لئے سب سے اہم قابل غور امر یہ ہونا چاہئے کہ امریکی انتخابات پاکستان پر کس طرح سے اثرانداز ہو سکتے ہیں اور نئی امریکی حکومت پاکستان کے حوالے سے کیا پالیسی اختیار کرے گی؟۔ اس سوال کا جواب جاننے کیلئے ہمیں امریکہ کی تاریخ اور پاک امریکہ دو طرفہ تعلقات کا جائزہ لینا ہو گا، امریکہ کی تاریخ بتاتی ہے کہ امریکہ میں حکومت کی تبدیلی کبھی پالیسیوں میں تبدیلی کا باعث نہیں بنا کرتی، امریکہ ہمیشہ اپنا ریاستی مفاد سامنے رکھتا ہے ، اور اپنے مفادات کے حصول کیلئے پالیسیوں میں ردوبدل کرتا ہے، ماضی کے دشمن امریکہ کے دوست بن جاتے ہیں اور دشمن دوست کا روپ دھار لیتے ہیں۔

دوسری جنگ عظیم کے وقت امریکہ اور سویت یونین مشترکہ دشمن ہٹلرکے نازی جرمنی کے خلاف نبزد آزما تھے، جنگ میں فتحیاب ہونے کے بعد امریکہ کے مفادات بدل گئے اور ماضی کے اتحادی ملک سویت یونین سے ہر محاذ پر ٹکراؤ ہونے لگا، سپر پاور امریکہ نے دوسری سپر پاور سویت یونین کو نیچا دکھانے کیلئے افغانستان میں ان عناصر کی حمایت شروع کر دی جنہیں نائن الیون کے بعد دہشت گرد قرار دے دیا گیا، آج انیس سال بعد امریکی مفادات کا تقاضا ہے کہ افغانستان میں ان لوگوں سے ساتھ ہاتھ ملایا جائے جنکی حکومت امریکہ نے نائن الیون کے ردعمل میں بزورِ طاقت ختم کر دی تھی۔ پاکستان اور امریکہ کے دوطرفہ تعلقات بھی نشیب و فراز کا شکار رہے ہیں، کبھی امریکی مفادات نے پاکستان کو فرنٹ لائن اسٹیٹ کا درجہ دیا اور کبھی ڈومور کے مطالبات ہوتے رہے۔ اسی طرح ہمارے ہمسایہ ملک بھارت سمیت دنیا کا ہر ملک اپنی خارجہ پالیسی اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے وضع کر رہا ہے، بھارت کسی زمانے میں سویت یونین کا اہم اتحادی تھا جو آج امریکہ کے ساتھ ہے وہ عربوں کے بھی قریب ہے اور اسرائیل کا بھی اسٹریٹیجک پارٹنر ہے، اسی طرح مشرق وسطیٰ کے نمایاں ملک متحدہ عرب امارات نے بھی صرف اپنے مفادات کی خاطر اسرائیل سے دو طرفہ سفارتی تعلقات استوار کر لئے ہیں۔

اگر ٹرمپ کے چار سالہ دور حکومت کا جائزہ لیا جائے تو ٹرمپ نے اپنی ماضی کی انتخابی سیاسی مہم میں پاکستان مخالف زبان استعمال کی تھی لیکن جب وہ حکومت میں آئے تو ان کے رویے میں مرحلہ وار تبدیلی آتی گئی، مجھے نہیں یاد کہ حال میں ٹرمپ نے پاکستان مخالف بیانیہ اپنایا ہو، بلکہ ٹرمپ کی وزیراعظم عمران خان سے ملاقات ہر لحاظ سے کامیاب ثابت ہوئی، ٹرمپ نے پاکستان کو اپنا دوست ملک قرار دیا ، دورہ پاکستان کی خواہش کا اظہار کیا، دیرینہ مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی بات کر کے پاکستانیوں کے دل جیت لئے ، برصغیر کے امن پسند حلقوں میں امید کی کرن روشن ہوئی کہ جس طرح ٹرمپ نے اپنے دورِ حکومت میں کوریا کے دو دشمن ممالک کو قریب کر دیا ہے تو ہو سکتا ہے کہ گزشتہ سات دہائیوں سے تصفیہ طلب کشمیر کا دیرینہ مسئلہ بھی حل  اور خطے میں امن کی راہ ہموار ہو سکے۔ 

افسوس کہ ایسا نہیں ہو سکا لیکن اس سے ایک چیز ثابت ہوتی ہے کہ امریکہ میں بھی انتخابی مہم کے موقع پر جو بیانات دئیے جاتے ہیں وہ جوشِ خطابت میں عوام کی توجہ حاصل کرنے کا ایک طریقہ ہوتے ہیں لیکن جیسے ہی حکومت میں آکر زمینی حقائق کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو امریکی صدر اپنے آپ کو ریاستی مفادات کے تابع کر لیتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ٹرمپ حکومت نے چین اور ایران کے حوالے سے جو پالیسی اختیار کی ہے، اگلی امریکی حکومت بھی اسی کو جاری رکھے گی تاوقتیکہ امریکی مفادات میں تبدیلی ناگزیر نہ ہو جائے ، پاکستان کے اپنے دونوں پڑوسی ممالک ایران اور چین سے خوشگوار تعلقات ہیں، اگر پاکستان کے بارڈر کے پار امریکہ کوئی نئی مہم جوئی کرنے کی کوشش کرتا ہے تو لامحالہ پاکستان کو شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، سپر پاور امریکہ کی طرف سے حمایت کے مطالبات ماننے کی صورت میں ہماری ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستی بھی داؤ پر لگ سکتی ہے اور عوامی دباؤ وسیع پیمانے پر بے چینی کا باعث بن سکتا ہے۔ 

ہمیں ایسی ممکنہ صورتحال کا سامنا کرنے کیلئے ابھی سے خارجہ محاذ پر سرگرم ہو جانا چاہے، تاہم اس کیلئے ضروری ہے کہ ہم اپنی دقیانوسی خارجہ پالیسی کو خیرباد کہتے ہوئے فارن پالیسی کی تجدید نو کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔ ہماری تمام سیاسی جماعتوں کو عہد کرنا چاہئے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کسی خاص ملک یا شخصیت کی خوشنودی کیلئے نہیں بلکہ پاکستان کے ملکی مفادات کے تحفظ کیلئے ہو گی، پاکستان میں حکومت کی تبدیلی سے خارجہ پالیسی میں فرق نہیں پڑنا چاہئے، پاکستان کی ترقی و خوشحالی، امن و استحکام اور عالمی برادری میں نمایاں مقام کا حصول ہماری خارجہ پالیسی کا اہم جز ہونا چاہئے۔ 

اس حوالے سے میری تجویز ہے کہ ہم اپنی خارجہ پالیسی کو بہتر بنانے کیلئے تمام سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سینیئر سیاست دانوں، خارجہ امور پر دسترس رکھنے والے ریٹائرڈ بیوروکریٹ اور سیکرٹری صاحبان پر مشتمل ایک ایسا تھینک ٹینک تشکیل دیں جس کے سامنے واحد ایجنڈا ہو کہ پاکستان میں چاہے کسی کی حکومت آئے، کوئی بھی وزیر اعظم بنے لیکن پاکستان کی خارجہ پالیسی صرف اور صرف پاکستان کے مفادات کا تحفظ کرے گی ۔ بطور ذمہ دار ریاست ہمیں دونوں امریکی صدارتی امیدواروں کو یکساں اہمیت دینی چاہئے، تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے کسی بھی امریکی امیدوار کے حوالے سے غیر ضروری بیان بازی سے بھی گریز کرنا چاہئے۔ ہمیں سمجھنا چاہئے کہ امریکی انتخابات کے بعد چاہے کوئی بھی جیت کر آئے، اگلے امریکی صدر کے پاکستان سے تعلقات کی نوعیت کا فیصلہ امریکی مفادات کریں گے۔ امید کرتا ہوں کہ حالیہ امریکی انتخابات پاکستان کے حق میں بہتر ثابت ہونگے۔

ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی

بشکریہ روزنامہ جنگ



This post first appeared on Focus Pakistan, please read the originial post: here

Share the post

امریکی انتخابات اور پاکستان

×

Subscribe to Focus Pakistan

Get updates delivered right to your inbox!

Thank you for your subscription

×