Get Even More Visitors To Your Blog, Upgrade To A Business Listing >>

اقسام افسران (حصہ اول)

یہ مضمون اس امید پہ لکھ رھا ہوں کہ اسے پڑھنے والے ذیادہ تر افراد نوکری پیشہ ہوں گے۔ ویسے بھی جتنے ادباء اور شعراء سے میں واقف ہوں وہ سب بھی کسی نہ کسی طور ملازمت سے وابستہ رہے ہیں۔ کم از کم میری ناقص معلومات کی حد تک ایسا ہی ہے۔ شاید ہی کوئی کاروباری بابو ادیب یا شاعر بنا ہو۔ اس کی وجوہات کچھ بھی ہوں۔ اس بارے میں پھر کبھی بات ہو گی۔ مگر آپ میری رائے سے اختلاف کرنے میں آذاد ہیں۔
چند دن پہلے حسین احمد شیرازی صاحب کی کتاب بابو نگر پڑھنے کا موقع ملا۔ جس میں انہوں نے مختلف سرکاری، کاروباری اور سیاسی بابووں کا طنزیہ پیرائے میں جائزہ لیا اور مزاحیہ انداز میں قارئین کے سامنے پیش کیا۔ کتاب سے متاثر ہو کر دل چاہا کہ میں بھی اپنے اردگرد کے حالات کی منظر کشی کرنے کی جسارت کروں۔ چونکہ اس گستاخی کی حیثیت شیرازی صاحب کی کتاب کے آگے ایسے ہی ہے جیسے سورج کو چراغ دیکھانا۔ بلکہ چراغ بھی ذیادہ روشن ہوتا ہے۔ اور میرے چراغ کی لو شاید محدب عدسہ کی مدد سے بھی نہ نظر آئے تو امید ہے وہ اس خطا پر ناچیز کو غیرمشروط معافی سے نوازیں گے۔ اور دوسری طرف اگرچہ شیخ صاحب اس مضمون کے بعد دفتر میں متوقع نتائج کی دھمکی آمیز منظر کشی کر چکے مگر وہ کیا ہے کہ
جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے کا آستیں کا
اور اس کے علاوہ اک موہوم سی امید یہ بھی ہے کہ اگر بھولے سے میرے کسی افسر نے اس مضمون پر نظر ڈال بھی لی تو ان کا ردعمل ایسا ہی ہو گا جیسا ردعمل میری دفتری گزارشات پر ہوتا ہے۔ یعنی اک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دینا۔ بلکہ بعض اوقات تو وہ دونوں کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر اس زحمت سے بھی بچ جاتے ہیں۔ مجھے اس پر بھی کوئی شکایت نہیں۔ کیونکہ صاحب کا بھیجہ کوئی موٹروے تو ہے نہی کہ گزارشات کی ٹریفک ادھر ادھر کرنےکے لئے ہمہ وقت کھلا رہے۔
تو جناب مجھ خاکسار کوپہلے بلوچستان اور پھر پنجاب اور اب وفاق میں ملازمت کرنے کا موقع ملا ہے۔ دوران ملازمت مختلف انواع و اقسام کے افسران کی ماتحتی میں کام کرنے کاشرف حاصل ہوا۔ چند موقعوں پہ پشاور اور کراچی کے دفاتر کا سرکاری دورہ بھی کیا۔ ان تمام مقامات پر جا کر، رہ کر اور کام کر کے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ  قابلیت کی بنیاد پر سرکاری افسران کی چار اقسام ہیں۔ پہلی قسم کے افسر وہ ہوتے ہیں جنہیں کچھ نہیں آتا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ پھر وہ افسر کیسے بنے۔ تو جناب سرکاری نوکری میں آنا مشکل ہے۔ مگر آ کر افسر بننا قطعا مشکل نہیں۔ جوں جوں اوپر کے افسر ترقی کرتےہیں یا ریٹائر ہوتے ہیں یا پھر قضائے الہی سے انتقال فرماتےہیں۔۔توں توں سینیارٹی میں لٹکتے، مٹکتے، گھسٹتے اور چلتے چلتے اک نہ اک روز افسری قدم ضرورچومتی ہے۔ اس سارے پراسس میں کارکردگی، قابلیت، اور محنت کا کوئی کردار نہیں۔ بس زندہ رہنا شرط ہے۔ دوسری قسم کے افسر وہ ہیں جو قابل تو ہیں مگر دفتری معاملات کو اپنی گوناگوں غیر نصابی مصروفیات کے باعث وقت نہیں دے پاتے۔ عموما ان کا ذاتی کاروبار ہوتا ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ اپنی اولاد کو ان کے پیروں پہ کھڑا کریں وہ اپنی اگلی نسل کے کیلئے کاروبار کو اس کے پیروں پہ کھڑا کرنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔ تیسری طرح کے افسر، دفتری غیر پارلیمانی اصطلاح میں کھسرا افسر ہوتے ہیں۔ ان کو کچھ کام آتا ہے اور کچھ معاملات میں یا تو پیدل ہوتے ہیں یا پھر خوداعتمادی کی کمی کی وجہ سے قوت فیصلہ سے محروم ہوتے ہیں۔ اور چوتھی قسم ان افسران کی ہے جو حقیقتا قابل اور محنتی ہوتے ہیں۔ ان کی لوگوں کی موجودگی سے ادارے قائم ہیں۔ مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
تو آئیے ان سب سے بالترتیب تعارف حاصل کرتے ہیں۔

1۔ نکمے اور نالائق افسر۔ ان کی بھی دو اقسام ہیں۔ پہلی قسم کے نکمے افسران سب سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ یہ خوشناسی کی عظیم منزل پا چکے ہوتے ہیں۔ انہیں اپنے نالائق ہونے پر کوئی شک نہیں ہوتا۔ اور یہ کسی کام میں روڑے نہیں اٹکاتے۔ ان کی میز پر جتنی بھی ڈاک آئے۔ دس منٹ میں سب کام فارغ کر دیتے ہیں۔ دستخط کرتے ہوئے صرف اک بار سائل سے پوچھتے ہیں۔ سب ٹھیک ہے نا۔ مروا نہ دینا۔ اور فائل سائن۔۔۔۔ایسے افسر کے ساتھ عمومی طور پر ماتحتوں کا وقت اچھا گزرتا ہے۔ مگر اگر ماتحت بھی حضرت کی طرح دماغی قبض کا شکار ہوں تو پھر دمادم مست قلندر ہوتا ہے۔ ان نکمے افسران میں سے چند چالاک افسر اپنے ساتھ اک عدد ہوشیار قسم کے جونیئر ترین ماتحت کو اپنا نائب مقرر کر لیتے ہیں۔ جو ان کو اپنی بساط کے مطابق مفید مشوروں سے نوازتا ہے اور دفتری کام آسان بناتا ہے۔ ایسے نائب کی پانچوں گھی میں اور سر کڑاھی میں ہوتا ہے۔ اور بقیہ دفتر کھولتے تیل میں تلا جارہا ہوتا ہے۔ کیونکہ نائب خلیفہ اس آڑ میں اپنے دشمنوں سے ایسا ہی سلوک کر رہا ہوتا جو سلوک انگریزوں نے جنگ آذادی کے بعد مسلمانوں کے ساتھ کیا تھا۔ مگر وہ کیا ہے کہ چار دن کی چاندنی کے بعد اندھیری رات بھی آتی ہے۔ اور اس ماتحت  کی شامت تب آتی ہے جب وہ افسر کسی اور جگہ ٹرانسفر ہو جاتا ہے۔ اب اس نائب اور اسکی  قابلیت کے ساتھ ویسا سلوک ہوتا ہے جیسا تاتاریوں نے بغداد اور اہلیان بغداد کے ساتھ کیا تھا۔
نکمے افسران کی دوسری قسم کو یہ زعم ہوتا ہے کہ ان سے ذیادہ کام پورے دفتر میں نہ کسی کو آتا ہے اور نہ کوئی کرتا ہے۔ جو لوگ ان کے کام میں کیڑے نکالتے ہیں یہ حضرت ان کی ذہنی حالت کے بارے مشکوک رہتے ہیں۔ ایسے افسران سے لوگ اپنا کام نکلوانے کےلئے ان کی چاپلوسی کرتے ہیں اور اس سے ان کے مرض میں اور اضافہ ہوتا ہے۔ یہ بیک وقت اپنے سے بڑے افسران کے  بہت اچھے ماتحت اور اپنے سے چھوٹے ملازمین کے لئے بہت ظالم افسر ہوتے ہیں۔ ہمیشہ بڑوں پر جان چھڑکتے اور چھوٹوں کے زخموں پر نمک مرچ چھڑکتے پائے جاتے ہیں۔ کسی محفل میں ہوں۔ سفر میں ہوں۔ فون پر بات کر رہے ہوں۔ اپنی تعریفوں کے پل باندھتے رہتے ہیں۔ قابلیت ایسی کہ اگر کوئی مالی ان کے سامنے بیلچہ مہیا کرنے کی درخوست لے آئے تو یہ اسے چمچ پکڑا دیتے ہیں۔ اور بضد رہتے ہیں کہ چونکہ چمچ کی شکل بیلچے سے ملتی جلتی ہے اس سے لئے اس سے گڑھے کھودے اور پر کئےجا سکتے ہیں۔ عموما یہ خود بھی دوسروں کیلئے گڑھے کھودتے رہتے ہیں۔ ان کی موجودگی میں کوئی کسی اور کی تعریف کرے۔اول تو یہ ناممکن ہے۔ مگر پھر بھی اگر کوئی انجان ایسی گستاخی کر بھی بیٹھے تو یہ جوابا اپنی روداد سنا کر، شانے چوڑے کر کے، سب حاضرین محفل پر رعونت بھری نظر ڈال کے، داد وتحسین کے متمنی بن جاتے ہیں۔ مثلا اک بار ایسے ہی کسی افسر کے سامنے کسی ناہنجار اور ناعاقبت اندیش شخص نے اک گٹر کھولنے والے کی مہارت کی تعریف کی۔ جس نے ان کے گھر میں بند اک غسلخانے کے گٹر کو رواں دواں کر کے انہیں غسلخانے کی متوقع توڑ پھوڑ اور اس توڑ پھوڑ پر آنے والے اخراجات سے محفوظ رکھا تھا۔ بس اب کیا تھا۔ بڑے صاحب نے جواب آں غزل کے طور پر اپنے گھر کے ذاتی گٹر خود کھولنے کے دلخراش واقعات اور اس کام میں اپنی مہارت و قابلیت کی ایسی منظر کشی کی کہ اب جب کبھی میرے گھر کا کوئی گٹر بلاک ہوتا ہے تو مجھے بےاختیاروہ افسر یاد آجاتے ہیں۔ (جاری ہے)



This post first appeared on GumNaam, please read the originial post: here

Share the post

اقسام افسران (حصہ اول)

×

Subscribe to Gumnaam

Get updates delivered right to your inbox!

Thank you for your subscription

×