Get Even More Visitors To Your Blog, Upgrade To A Business Listing >>

پہلا خط | Defense Mechanism in Urdu

خطوطِ ماہرنفسیات – پہلا خط

پیارے بھائی شہزاد اَلسَّلَام ُعَلَیْکُم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ!

اُمید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ ۔
مجھے نہیں معلوم خط کس طرح سے لکھتے ہیں خیر چھوڑو جیسے بھی لکھتے ہیں لکھنے دو لوگوں کو۔ ۔ یہاں میں اپنے انداز میں لکھوں گا۔ ۔ شاید اپنے انداز میں لکھنے سے میں مزید اچھے سے لکھ سکوں اور اپنی بات آپ کو ٹھیک ویسے سمجھا سکوں جیسے میں سمجھانا چاہتا ہوں۔ ۔ہاہاہاہاہاہا۔ ۔ اِس ہنسی کی وجہ آپ مجھ سے ضرور پوچھو گے اِس لیے بہتر ہے کہ میں ابھی بتا دیتا ہوں۔ ۔ ایک لمحے کے لیے میرے ذہن میں خیال آیا کہ شکر ہے، شہزاد نفسیات کا طالبِ علم نہیں ہے ورنہ وہ مجھے پکڑ لیتا۔ ۔ کیا پکڑ لیتا ؟ یہی اگلا سوال ہوگا آپ کا۔ ۔ تو چلو یہیں سے شروعات کرتے ہیں۔ ۔ شہزاد تمہیں تو اندازہ ہوگا کہ انسان کوئی نا کوئی غلطی کر کے اپنے ego کو مطمئن کرنے کے لیے اپنے آپ کو درست ثابت کرنے کی کوشش ضرور کرتا ہے اور اس کوشش کے عمل کو نفسیات میں defense mechanism کا استعمال کرنا کہتے ہیں۔ ۔ ویسے ڈیفینس مکینزم کو سمجھنے کے لیے مجھے یہاں تفصیل سے بتانا چاہیے جیسے آپ کو سمجھنے میں بھی آسانی ہو اور concept بھی واضح رہے پر انشاء اللہ اگلے خط میں ضرور، فلحال میں آپ کو یہ بتا دیتا ہوں کہ اِس ڈیفینس مکینزم کا ہم استعمال کہاں اور کب کرتے ہیں اور ڈیفینس مکینزم کون کون سے ہوتے ہیں ۔

سب سے پہلے بات کرتے ہیں Denial کے متعلق۔ ۔ ۔ ڈینائل کو اگر میں آسان الفاظ میں بیان کروں تو اِس کو آپ منع کر دینا کہہ سکتے ہیں، اس میں ہم حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے، کوئی ایسی صورتحال پیدا ہو جائے جس کو تسلیم کرنا مشکل ہو جاتا ہے تو ہم ایک دم سے ڈینائل کا پہلو پکڑ لیتے ہیں اور بے اختیار جواباً کہتے ہیں کہ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا جب کہ حقیقت میں وہ ہو چکا ہوتا ہے۔ عام طور کی زندگی میں ہم جب اپنے حساب سے کسی چیز کہ لیے تیار ہوں اور سامنے سے وہ چیز ہماری تیاری اور توقعِ کے برعکس آ جائے تو ہم اُس حقیقت کو تسلیم نہیں کر پاتے یا جب ہم اچانک سے کس کہ مرنے کی خبر سُنتے ہیں تو کچھ لمحوں کے لیے تسلیم نہیں کر پاتے ہمارا پہلا رد عمل یہ ہوتا ہے کہ نہیں ایسا کیسے ہو سکتا ہے وہ کیسے مر سکتا ہے۔ ۔ یہ ڈینائل اصل میں دل اور ضمیر کے درمیان ایک جنگ ہوتی ہے جو کہ اوپر بیان کی گئی کسی بھی صورتحال میں چھڑ سکتی ہے۔
دوسرا ڈیفینس مکینزم جس کو پروجیکشن (projection) کہتے ہیں، جب کوئی شخص اپنی غلطی کسی اور پر تھوپے تو مطلب وہ اِس ڈیفینس مکینزم کا استعمال کر رہا ہے جیسا کہ کوئی شخص امتحانات کی تیاری نہیں کرے اور اُنھی امتحانات میں فیل ہو کر کہے کہ ٹیچر نے پرچہ ہی مشکل بنایا تھا یا کہے کہ جو ٹیچر نے پڑھایا اُس میں سے تو ایک بھی سوال نہیں آیا، ایسا ہم رزلٹ آنے سے پہلے بھی دیکھتے ہیں، جیسے ہی پیپر دے کر کلاس سے باہر آتے ہیں تو تقریباً اُن حضرات سے یہ سب سُننے کو ملتا جن کا پیپر مناسب نہیں ہوتا۔ ۔ چلو کہاں کی بات کہاں نکل پڑی۔ ۔ آپ اگر نفسیات کے طالبِ علم ہوتے تو میں نے جو کہا کہ ” یہاں میں اپنے انداز میں لکھوں گا۔ ۔ شاید اپنے انداز میں لکھنے سے میں مزید اچھے سے لکھ سکوں اور اپنی بات آپ کو ٹھیک ویسے سمجھا سکوں جیسے میں سمجھانا چاہتا ہوں۔ ۔” میرے اس بیان کو آسانی سے پکڑ لیتے کیونکہ یہاں بھی میں نے ایک ڈیفینس مکینزم کا استعمال کیا ہے جس کو rationalisation کہتے ہیں۔ ۔ ریشنلازیشن میں ہم اپنی غلطی کو صحیح ثابت کرنے کے لیے کوئی ایسی دلیل دے دیتے ہیں جو acceptable ہو۔ جیسے کوئی شخص پانچ روپے کی پین بیس روپے میں لیکر آئے اور اپنی غلطی پر پردہ ڈالنے کے لیے یہ کہہ دے کہ یہ وہ پین نہیں ہے یہ اُس پین کی عمدہ کاپی ہے جو کہ ابھی ابھی مارکیٹ میں آئی ہے جب کہ وہ پین حقیقت میں ہو گی بھی پانچ روپے والی، ٹھیک ویسے مجھے خط لکھنا نہیں آتا تو میں نے کہہ دیا کہ میں اپنے انداز میں لکھوں گا تو اچھے سے بیان کر پاؤں گا۔ ۔
یہ میرا پہلا خط ہے انشاللہ اگلے خط میں بہت ساری باتیں کریں گے۔
تب تک اپنا بہت زیادہ خیال رکھنا اور کیا کہوں، بس کافی ہے اتنا کہ اپنا خیال رکھنا۔ 
اللہ حافظ۔ ۔



This post first appeared on Ink By Kashif, please read the originial post: here

Share the post

پہلا خط | Defense Mechanism in Urdu

×

Subscribe to Ink By Kashif

Get updates delivered right to your inbox!

Thank you for your subscription

×