Get Even More Visitors To Your Blog, Upgrade To A Business Listing >>

قوت برداشت


صدر ایوب خان پاکستان کے پہلے ملٹری ڈکٹیٹر تھے‘ وہ روزانہ سگریٹ کے دو بڑے پیکٹ پیتے تھے‘ روز صبح ان کا بٹلر سگریٹ کے دو پیکٹ ٹرے میں رکھ کر ان کے بیڈ روم میں آجاتاتھا اورصدر ایوب سگریٹ سلگا کر اپنی صبح کا آغاز کرتے تھے‘ وہ ایک دن مشرقی پاکستان کے دورے پر تھے‘ وہاں ان کا بنگالی بٹلرانہیں سگریٹ دینا بھول گیا‘ جنرل ایوب خان کو شدید غصہ آیا اورانہوں نے بٹلر کو گالیاں دینا شروع کر دیں۔ جب ایوب خان گالیاں دے دے کر تھک گئے تو بٹلر نے انہیں مخاطب کر کے کہا ’’جس کمانڈر میں اتنی برداشت نہ ہو وہ فوج کو کیا چلائے گا‘ مجھے پاکستانی فوج اور اس ملک کا مستقبل خراب دکھائی دے رہا ہے‘‘۔ بٹلر کی بات ایوب خان کے دل پر لگی ‘ انہوں نے اسی وقت سگریٹ ترک کر دیا اور پھر باقی زندگی سگریٹ کو ہاتھ نہ لگایا۔
آپ نے رستم زمان گاما پہلوان کا نام سنا ہو گا۔ہندوستان نے آج تک اس جیسا دوسرا پہلوان پیدا نہیں کیا‘ ایک بار ایک کمزور سے دکاندار نے گاما پہلوان کے سر میں وزن کرنے والاباٹ مار دیا۔ گامے کے سر سے خون کے فوارے پھوٹ پڑے‘ گامے نے سرپر مفلر لپیٹا اور چپ چاپ گھر لوٹ گیا۔ لوگوں نے کہا’’ پہلوان صاحب آپ سے اتنی کمزوری کی توقع نہیں تھی‘ آپ دکاندار کو ایک تھپڑ مار دیتے تو اس کی جان نکل جاتی‘‘۔ گامے نے جواب دیا ’’مجھے میری طاقت نے پہلوان نہیں بنایا‘ میری برداشت نے پہلوان بنایا ہے اور میں اس وقت تک رستم زمان رہوں گا جب تک میری قوت برداشت میرا ساتھ دے گی‘‘۔ 
قوت برداشت میں چین کے بانی چیئرمین ماؤزے تنگ اپنے دور کے تمام لیڈرز سے آگے تھے‘ وہ75سال کی عمر میں سردیوں کی رات میں دریائے شنگھائی میں سوئمنگ کرتے تھے اوراس وقت پانی کا درجہ حرارت منفی دس ہوتا تھا۔ ماؤ انگریزی زبان کے ماہر تھے لیکن انہوں نے پوری زندگی انگریزی کا ایک لفظ نہیں بولا ۔آپ ان کی قوت برداشت کا اندازا لگائیے کہ انہیں انگریزی میں لطیفہ سنایا جاتا تھا‘ وہ لطیفہ سمجھ جاتے تھے لیکن خاموش رہتے تھے لیکن بعدازاں جب مترجم اس لطیفے کا ترجمہ کرتا تھا تو وہ دل کھول کر ہنستے تھے ۔ 
قوت برداشت کا ایک واقعہ ہندوستان کے پہلے مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر بھی سنایا کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے انہوں نے زندگی میں صرف ڈھائی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ان کی پہلی کامیابی ایک اژدھے کے ساتھ لڑائی تھی‘ ایک جنگل میں بیس فٹ کے ایک اژدھے نے انہیں جکڑ لیا اور بابر کو اپنی جان بچانے کیلئے اس کے ساتھ بارہ گھنٹے اکیلے لڑنا پڑا۔ ان کی دوسری کامیابی خارش تھی۔ انہیں ایک بارخارش کا مرض لاحق ہو گیا‘خارش اس قدر شدید تھی کہ وہ جسم پر کوئی کپڑا نہیں پہن سکتے تھے۔ بابر کی اس بیماری کی خبر پھیلی تو ان کا دشمن شبانی خان ان کی عیادت کیلئے آ گیا۔ یہ بابر کیلئے ڈوب مرنے کا مقام تھا کہ وہ بیماری کے حالت میں اپنے دشمن کے سامنے جائے۔ بابر نے فوراً پورا شاہی لباس پہنا اور بن ٹھن کر شبانی خان کے سامنے بیٹھ گیا‘ وہ آدھا دن شبانی خان کے سامنے بیٹھے رہے‘ پورے جسم پر شدید خارش ہوئی لیکن بابر نے خارش نہیں کی۔ بابران دونوں واقعات کو اپنی دو بڑی کامیابیاں قرار دیتا تھا اورآدھی دنیا کی فتح کو اپنی آدھی کامیابی کہتا تھا۔ 
دنیا میں لیڈرز ہوں‘ سیاستدان ہوں‘ حکمران ہوں‘ چیف ایگزیکٹو ہوں یا عام انسان ہو‘ان کا اصل حسن ان کی قوت برداشت ہوتی ہے۔ دنیا میں کوئی شارٹ ٹمپرڈ‘ کوئی غصیلہ اور کوئی جلد باز شخص ترقی نہیں کر سکتا۔ دنیا میں معاشرے‘ قومیں اور ملک بھی صرف وہی آگے بڑھتے ہیں جن میں قوت برداشت ہوتی ہے۔ جن میں دوسرے انسان کی رائے‘ خیال اور اختلاف کو برداشت کیا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک‘ ہمارے معاشرے میں قوت برداشت میں کمی آتی جا رہی ہے۔ ہم میں سے ہر شخص ہروقت کسی نہ کسی شخص سے لڑنے کیلئے تیار بیٹھا ہے۔ شائد قوت برداشت کی یہ کمی ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں دنیا میں سب سے زیادہ قتل اور سب سے زیادہ حادثے ہوتے ہیں لیکن یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کیا ہم اپنے اندر برداشت پیدا کر سکتے ہیں؟ اس کا جواب ہاں ہے اور اس کا حل رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ میں ہے۔ ایک بار ایک صحابیؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا ’’یارسول اللہ ﷺآپ مجھے زندگی کو پر سکون اور خوبصورت بنانے کاکوئی ایک فارمولہ بتا دیجئے‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا ’’غصہ نہ کیا کرو‘‘ آپﷺ نے فرمایا ’’دنیا میں تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ اول وہ لوگ جو جلدی غصے میں آجاتے ہیں اور جلد اصل حالت میں واپس آ جاتے ہیں۔ دوم وہ لوگ جو دیر سے غصے میں آتے ہیں اور جلد اصل حالت میں واپس آ جاتے ہیں اور سوم وہ لوگ جو دیر سے غصے میں آتے ہیں اور دیر سے اصل حالت میں لوٹتے ہیں‘‘ آپﷺ نے فرمایا ’’ ان میں سے بہترین دوسری قسم کے لوگ ہیں جبکہ بدترین تیسری قسم کے انسان‘‘۔ غصہ دنیا کے90فیصد مسائل کی ماں ہے اور اگر انسان صرف غصے پر قابو پا لے تواس کی زندگی کے 90فیصد مسائل حل ہوجاتے ہیں




This post first appeared on Urdukahani, please read the originial post: here

Share the post

قوت برداشت

×

Subscribe to Urdukahani

Get updates delivered right to your inbox!

Thank you for your subscription

×