Get Even More Visitors To Your Blog, Upgrade To A Business Listing >>

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت اور انکے مخالفین

خلافت امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب رضی الله


نوٹ:

(اس مکمل تفصیل میں آپ کو جو بھی واقعات ملیں گے وہ تاریخ طبری سے لیے گئے ہیں. تاریخ طبری اہل سنت والجماعت اور اہل تشیع اور بریلوی مکتبہ اسلامیہ میں شامل ہے. تاریخ طبری کو صرف ناصبی نہیں مانتے.ناصبی کوئ فرقہ نہیں ناصبی دراصل حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے اور اہل بیت کے شدید مخالف ہیں.ناصبیوں کی مکمل تفصیل آپ رنگین الفاظ والے ناصبی لفظ جو ہے اسے ٹچ کر کے پڑھ سکتے ہیں.اس تفصیل میں آپ کو ایسے واقعات تاریخ سے مل سکتے ہیں. کہ اگر آپ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے محبت رکھتے ہیں تو آپ کو دکھ ہو سکتا ہے. اور اگر آپ یزید ملعون کے چاہنے والے  ہیں تو بھی آپ کو تکلیف پہنچ سکتی ہے.لہذا یہ مضمون تاریخ میں موجود ہے اور اسے آپ اپنی مرضی سے پڑھنا چاہتے ہیں تو آگے پڑھیں. یا آپ کسی اور مضمون کو بھی پڑھ سکتے ہیں. ہم قارئین کی حوصلہ افزائی چاہتے ہیں. ہم آپ کے جذبات کو مجروح نہیں کرنا چاہتے. آپ کا مسلک آپکے ساتھ آپکے اعمال جانے ہیں نا کہ ہمارے. اس لیے ہم صرف تاریخی معلومات فراہم کر رہے ہیں. تو آپ بھلے کسی بھی مسلک سے ہوں یہ مضمون آپ کے جذبات کو چھیڑ سکتا ہے.)

۳۵ ھ میں مدینہ منورہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت کی گئی. تاریخ دانوں میں صرف ناصبی مورخین کا اس میں اختلاف ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی بیعت کس وقت کی گئی.اور کن کن لوگوں نے بیعت کی. بعض اہلسنت مؤرخین کی رائے تو یہ ہے کہ صحابہ کرام  نے جمع ہو کر حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے بیعت کی درخواست کی. لیکن انہوں نے انکار فرمایا جب صحابہ کرام نے حد سے زیادہ اصرار کیا تو انہوں نے بار خلافت اٹھانا قبول فرمایا.


 حضرت علی رضی اللہ کی بیعت :

جعفر بن عبد الله الحمدی نے عمرو بن حماد نے علی بن حسین. عبد الملک بن ابی سلیمان الضراری اور سالم بن ابی الجعد کے واسطے سے یہ قول بیان کیا ہے. کہ جس روز حضرت عثمان رض شہید کیے گئے میں اس روز اپنے والد حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ساتھ تھا. جب انہیں شہادت عثمان ربی اللہ کی خبر ملی تو وہ فوراً اپنے گھر سے نکلے. اور حضرت عثمان کے گھر پہنچے وہاں رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے. اور انہوں نے عرض کیا کہ حضرت عثمان تو شہید کر دیئے گئے ہیں. اور لوگوں کے لیے ایک نہ ایک امام کی موجودگی ضروری ہے.جس کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں. اور آج ہم روئے زمین پر آپ سے زیادہ کسی کو اس کا حقدار نہیں پاتے. نہ تو آج کوئی ایسا شخص موجود ہے جو اسلام میں آپ پر سبقت رکھتا ہو. اور نہ کوئی ایسا فرد موجود ہے جو آپ سے زیادہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا. یا اللہ کا قرب اور آپ سے زیادہ نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے رشتہ داری حاصل ہو. اس لیے یہ ہار آپ اپنے کاندھوں پر اٹھائیے.اور لوگوں کو اس بے چینی اور پریشانی سے نجات دیجیے. حضرت علی کرم اللہ وجہہ و علیہ السلام نے فرمایا بہتر یہ ہے کہ تم کسی اور کو اپنا امیر بنالو. اور مجھے اس کا وزیر رہنے دو اور بہتر یہی ہے کہ کوئی دوسرا امیر ہو اور میں اس کا وزیر ہوں. صحابہ کرام نے عرض کیا. خدا کی قسم ہم آپ کے علاوہ کسی کی بیعت کے لیے تیار نہیں.

حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا، جب تم مجھے مجبور کر رہے ہو تو بہتر یہ ہے. کہ بیعت مسجد میں ہونی چاہیے تا کہ لوگوں پر بیری بیعت مخفی نہ رہے. اور حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی رضا مندی کے بغیر یہ خلافت مجھے حاصل بھی نہیں ہو سکتی. سالم بن ابی الجعد کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس رض بیان فرمایا کرتے تھے کہ مجھے حضرت علی بی اللہ کا مسجد میں جانا بہتر معلوم نہیں ہوا۔ کیونکہ مجھے یہ خوف تھا کہ لوگ ان کے خلاف شور نہ مچائیں. لیکن حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے میری بات قبول نہیں فرمائی اور مسجد تشریف لے گئے. وہاں تمام مہاجرین و انصار نے جمع ہو کر آپ کی بیعت کی. اور ان کے بعد دیگر لوگوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی بیعت کی.

قارون کی مکمل تفصیل پڑھیں


بیت المال کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام کی روش:

جعفر بن عبد اللہ محمدی نے عمرو بن حماد علی بن حسین حسین، عن ابیہ. اور ابو میمونہ کے واسطہ سے ابو بشیر العابدی کا یہ بیان ذکر کیا ہے. کہ جب حضرت عثمان رض شہید کیے گئے. تو میں مدینہ میں موجود تھا۔ مہاجرین و انصار جمع ہو کر جن میں حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رض بھی تھے. حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں پہنچے. اور عرض کیا اے ابوالحسن اپنا ہاتھ بڑھائیے تا کہ ہم آپ کی بیعت کریں.


حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے جواب دیا مجھے خلافت کی کوئی حاجت نہیں. تم جسے بھی خلیفہ بنانا چاہو میں اس سے خوش ہوں. اور اس معاملہ میں تمہارے ساتھ ہوں.

 مہاجرین و انصار نے جواب دیا: ہم آپ کے علاوہ کسی کو خلیفہ بنانے کے لیے تیار نہیں. الغرض حضرت عثمان رضی اللہ کی شہادت کے بعد. مہاجرین و انصار حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں بار بار حاضر ہوتے رہے. اور انہیں خلافت قبول کرنے پر مجبور کرتے رہے. حتی کہ ان مہاجرین و انصار نے ایک بار یہاں تک کہا کہ خلافت کے بغیر معاملات طے نہیں پاسکتے. اور آپ کی ٹال مٹول سے معاملہ طویل سے طویل تر ہوتا جا رہا ہے. حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا چونکہ تم مجھے بار بار آ کر مجبور کر رہے ہو. تو میں بھی تم سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں اگر تم میری بات قبول کرو گے تو میں خلافت قبول کروں گا. ورنہ مجھے خلافت کی کوئی حاجت نہیں. مہاجرین و انصار نے وعدہ کیا کہ آپ جو کچھ بھی حکم دیں گے ہم انشاء اللہ اسے ضرور قبول کریں گے. یہ وعدہ لے کر حضرت علی کرم اللہ وجہہ مسجد میں تشریف لائے اور منبر پر بیٹھے. لوگ آپ کے ارد گرد جمع ہو گئے. آپ نے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا. میں نے تمہاری اس خلافت کا بار مجبور ہو کر قبول کیا ہے.کیونکہ تم لوگوں نے مجھ کو اس پر انتہائی مجبور کیا. اور میرے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ کار باقی نہ رہا کہ میں تمہاری یہ درخواست قبول کرلوں.

اب میری شرط صرف اتنی ہے.کہ تمہارے خزانوں کی چابیاں اگر چہ میرے قبضہ میں ہوں گی. لیکن میں تمہاری رضامندی کے بغیر اس میں سے ایک درہم بھی نہ لوں گا. صحابہ کرام رض یہ نے یہ بات قبول فرمائی. حضرت علی علیہ السلام نے ان کا جواب سن کر فرمایا. اے اللہ تو ان پر گواہ رہ اس کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے لوگوں سے بیعت لی. ابو بشیر کہتے ہیں میں رسول اللہ ایم کے منبر کے قریب کھڑا تھا اور حضرت علی علیہ السلام کا خطبہ سن رہا تھا. 



پہلی بدفالی

 عمرہ بن شعبہ نے علی بن محمد کے ذریعے ابوبکر البنلی ابو اسلیح کا یہ بیان ذکر کیا ہے. کہ جب حضرت عثمان رض شہید کردیئے گئے تو حضرت علی علیہ السلام بازار تشریف لے گئے اور یہ واقعہ اٹھا رہ ذی الحجہ بروز ہفتہ پیش آیا. لوگ ان کے پیچھے لگ گئے اور انہیں دیکھنے لگے. حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے بنو عمرو بن مبذول کے باغ میں داخل ہو کر. ابو عمرة بن عمرو بن محصن سے فرمایا کہ دروازہ بند کر دو. لوگ باغ کے دروازے پر پہنچے اور دروازہ کھٹکھٹایا مجبور ہو کر دروازے کو کھول دیا گیا. اور لوگ اندر داخل ہو گئے. ان لوگوں میں طلحہ اور زبیر رض بھی تھے. ان دونوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے کہا. اے علی علیہ السلام! اپنا ہاتھ بڑھائیں. حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ہاتھ آگے بڑھا دیا اور طلحہ و زبیر رض نےآپ کی بیعت کی. جب حضرت طلحہ رض نے آپ کی بیعت کی.تو حبیب بن ذویب آپ کو دیکھ رہا تھا. اور چونکہ سب سے پہلے بیعت طلحہ رض نے کی تھی. اس لیے حبیب بولا جس بیعت کی ابتداء کئے ہاتھ سے ہوئی ہو وہ ہر گز مکمل نہیں ہو سکتی.

اس کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ مسجد تشریف لائے اور منبر پر چڑھے. اس وقت حضرت علی علیہ السلام ایک تہمد باندھے اور چوغہ پہنے تھے. سر پر خزہ کا عمامہ تھا. اور پاؤں میں چپل تھے ہاتھ میں ایک کمان تھی جس پر ٹیک لگائے ہوئے تھے. لوگوں نے آپ سے بیعت کی.


لوگ حضرت سعد بن ابی وقاص رض کو پکڑ کر لائے. حضرت علی رض نے ان سے فرمایا تم بھی بیعت کرو. حضرت سعد رض نے فرمایا. جب سب لوگ بیعت کر لیں گے تو میں بھی بیعت کرلوں گا. لیکن میری ذات سے آپ کو کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچے گی. اس کے بعد لوگ حضرت عبد اللہ بن عمر رض کو پکڑ کر لائے. حضرت علی علیہ السلام نے ان سے بیعت کے لیے کہا تو انہوں نے بھی وہی جواب دیا. جو حضرت سعد رض نے دیا تھا. اس پر حضرت علی علیہ السلام نے ان سے فرمایا اپنا کوئی ضامن پیش کرو. ابن عمر رض نے فرمایا میرے پاس کوئی ضامن نہیں ہے. اشتر نخعی نے کھڑے ہو کر عرض کیا مجھے اجازت دیجیے کہ میں اس کی گردن اتار دوں. حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا نہیں. انہیں چھوڑ دو میں نے ان کے بچپن سے لے کر ان کے بڑے ہونے تک ان میں کوئی برائی نہیں دیکھی.


حضرت زبیر رضی اللہ کی بیعت : 

محمد بن سنان اتضرار نے اسحاق بن ادریس، ہشیم حمید کے ذریعہ حسن بصری رض کا یہ قول بیان کیا ہے. کہ میں نے مدینہ کے جنگلات میں سے ایک جنگل میں حضرت زبیر رض کو حضرت علی علیہ السلام کی بیعت کرتے دیکھا.


اشتر کی حضرت طلحہ رض کو دھمکی

احمد بن زہیر نے زہیر و ہب جریر یونس بن یزید الایلی کے ذریعہ زہری کا یہ قول بیان کیا ہے۔ کہ جب لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ کی بیعت کی تو انہوں نے حضرت طلحہ رض اور زبیر رض کو بلوایا۔ طلحہ رض نے بیعت سے پس و پیش کیا۔ مالک اشتر رض اپنی تلوار کھینچ کر کھڑا ہو گیا. اور بولا خدا کی قسم ! ا طلحہ یا تو بیعت کرلے ورنہ میں یہ تلوار تیری پیشانی میں گھونپ دوں گا. اس پر حضرت طلحہ رضی اللہ نے فرمایا میں اس سے بھاگ کر کہاں جا سکتا ہوں. اور اس کے بعد انہوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی بیعت کی. پھر زبیر رض نے بیعت کی اور انہیں دیکھ کر اور لوگوں نے بھی بیعت کی. حضرت طلحہ وزبیر رض نے حضرت علی علیہ السلام سے کوفہ و بصرہ کی امارت کی خواہش ظاہر کی. اس پر حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا تم میرے ساتھ رہو تمہیں وہاں ضرور حاکم بنا کر بھیج دوں گا. زہری کہتے ہیں ہمیں یہ بھی خبر معلوم ہوئی ہے. کہ حضرت علی علیہ السلام نے ان دونوں حضرات سے فرمایا کہ اگر تم چاہو تو میری بیعت کر لو اور اگر تم خود خلیفہ بنا چاہو تو میں تمہاری بیعت کے لیے تیار ہوں. انہوں نے جواب دیا نہیں ہم آپ کی بیعت کرتے ہیں. اس کے بعد بنو امیہ کے دور حکومت میں طلحہ اور زبیر رض فرمایا کرتے تھے ہمیں اپنی جانوں کا خوف تھا. اس لیے ہم نے علی علیہ السلام کی بیعت کر لی.

خلافت امام علی رض حصہ دوئم یہاں پڑھیں




This post first appeared on , please read the originial post: here

Share the post

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت اور انکے مخالفین

×

Subscribe to

Get updates delivered right to your inbox!

Thank you for your subscription

×