صبح آزادی فیض احمد فیض نے مملکت پاکستان کی ایک غلامی مسسلسل میں طلوع ہوئے دن کو لکھی۔۔۔۔
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
کہیں تو ہوگا شب سست موج کا ساحل
کہیں تو جا کے رکے گا سفینۂ غم دل
جواں لہو کی پر اسرار شاہراہوں سے
چلے جو یار تو دامن پہ کتنے ہاتھ پڑے
دیار حسن کی بے صبر خواب گاہوں سے
پکارتی رہیں باہیں بدن بلاتے رہے
بہت عزیز تھی لیکن رخ سحر کی لگن
بہت قریں تھا حسینان نور کا دامن
سبک سبک تھی تمنا دبی دبی تھی تھکن
سنا ہے ہو بھی چکا ہے فراق ظلمت و نور
سنا ہے ہو بھی چکا ہے وصال منزل و گام
بدل چکا ہے بہت اہل درد کا دستور
نشاط وصل حلال و عذاب ہجر حرام
جگر کی آگ نظر کی امنگ دل کی جلن
کسی پہ چارۂ ہجراں کا کچھ اثر ہی نہیں
کہاں سے آئی نگار صبا کدھر کو گئی
ابھی چراغ سر رہ کو کچھ خبر ہی نہیں
ابھی گرانیٔ شب میں کمی نہیں آئی
نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
مزید پڑھیں
صبح
ہم دیکھیں گے
الم نصیبوں جگر فگاروں – فیض احمد فیض
بہت سیاہ ہے یہ رات لیکن – فیض احمد فیض
نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی – فیض احمد فیض
نصیب آزمانے کے دن آ رہے ہیں – فیض احمد فیض
چند روز اور مری جان فقط چند ہی روز – فیض احمد فیض
یہ رات اس درد کا شجر ہے – فیض احمد فیض
یہ گلیوں کے آوارہ بے کار کتے- فیض احمد فیض
مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ – فیض احمد فیض
Related Articles
The post صبح appeared first on Fruit Chat.