Get Even More Visitors To Your Blog, Upgrade To A Business Listing >>

جنرلی میٹنگ

میٹنگ کی اہمیت سے آج ہر کوئی واقف ہے لیکن ایک  جرنیلی میٹنگ کی خبر پڑھ کر ماضی کی ایک میٹنگ یاد آگئی۔

عمران خان 2018 میں حکومت میں آئی تو مالی حالات کسی کی بھی سوچ اور توقع سے زیادہ خراب تھے ۔ 

ملک کے پاس ڈالر کے ذخائر برائے نام رہ گئے تھے،ماہانہ خسارہ ذمہ داران کا پسینہ خشک نہیں ہونے دیتا تھا،

عمران خان کو آتے ہی بریفنگ دے کر تیاری کروا کر مشکل حالات کو بہتر کرنے کے لیے کشکول تھامایا اور دوست ملکوں کے پاس روانہ کر دیا گیا۔

جنرل باجوہ صاحب نے دن رات شانہ بشانہ کام کیا۔

اور دونوں نے مل جل کر ملک کا نظام چلایا۔ 

چیف آف آرمی سٹاف نے تمام بڑے کاروباری افراد کو جمع کیا اور انکو ملک میں نئے منصوبوں میں انویسث کرنے  کےلیے راغب کرنے کی کوشش کی 

گارمنٹس کے علاوہ باقی میدانوں آئی ٹی اور معدنیات وغیرہ میں انوسٹمنٹ کی طرف توجہ دلائی۔ 

اس میٹنگ میں عقیل کریم ڈھیڈی،ملک ریاض،میاں عامر،میاں منشا اور تمام دیگر بڑے سرمایہ کار موجود تھے۔

اس دور میں سابقہ وزیر خزانہ کی کرپشن اور کام پر خوب تنقید کی گئ اور ایک میٹنگ کا حوالہ بھی دیا کہ کس طرح وزیراعظم نواز شریف  کی موجودگی میں ویسپا سکوٹر کو رشوت ادا نہ کرنے پر فیکٹری نہ لگانے دی۔

ملک میں ایک روایت عرصیہ سے موجود ہے ایک طرف  حلف کی تقریب ہوتی ہے اور دوسری طرف کشول چکائی کی۔

ایک طرف ایکشن جیتنے کے لیے زور لگتا ہے اور دوسری طرف اس بات سے قطع نظر کون جیتے گا،

کشول بھرائی  کے لیے دوست اور مخیر ممالک سے وقت طے ہو رہا ہوتا ہے۔

مالدار حضرات کو لگا کہ شائد ہم واقعی ٹھیک ہو گئے ہیں۔

ہم نے پرانی روش ترک کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

تمام لوگ نیا پاکستان بنانے کو تیاری کرنے لگے فائلیں مرتب ہونا شروع اور فائل کھلنے سے پہلے پول کھل گیا۔

کرونا کی وجہ سے لیٹ ہوا لیکن  پھرانٹرنل رجیم چینج کی وجہ سے نئی حکومت نئے صاحب آگئے۔

حالات پہلے سے بدتر اس لیے بھی ہوئے کہ اس دفعہ نئی نسل کا پہلا تجربہ تھا۔ 

یہ بات سمجنے کی ہے، کہ دنیا نے پاکستان کی طرف سے نظریں پھیری لی تھی، 

ملکی فیکٹروں کو جانتے بوجھتے بند کیا گیا ، 20 /20 سال کے ایڈوانس آڈر سب ہمارے سامنے منسوخ ہوتے چلے گئے۔ 

ملک کو منظم سلو ڈیتھ کی طرف لیجایا گیا۔

 کارخانوں والے شورکرتے رہے لیکن صاحب اختیار کی شائد ترجیحات مختلف تھیں۔ 

 پاکستان کی حقیقی معنوں میں یہ حالت ہیکہ قرض اتارن دور کی بات روٹی کھانے کو نوالہ ہو گا یا نہیں 

کوئی بھی یقین سے نہیں کہ سکتا۔

خبر آئی ہیکہ جنرل عاصم منیر صاحب نے پرانی میٹنگ کو دوبارہ سے تازہ کیا ہے اور انہی لوگوں سے دوبارہ میٹنگ کی ہے۔ 

ان کو یقین دلایا ہیکہ کاروبار کریں پاکستان ڈیفالٹ سے نکل آیا ہے ۔ 

اور اس دفعہ بھی وہی لوگ میٹنگ میں موجود تھے۔ 

کاروباری کتابوں میں انوسٹر کے رویہ کو سمجھنے کے لیے جنگلی کبوتر کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ 

زمین پر اناج دانہ بکھرا ہو تو کبوتر انتظار کرتا ہے۔ 

اور سب سے آخر میں جب سب پرندے زمین پر اناج کھا رہے ہوتے ہیں،

 حالات سازگار ہونےکا یقین کر کےاترتا ہے۔

اور کوئی کھٹکا پا کر سب سے پہلے اڑنے والا بھی کبوتر ہی ہوتاہے۔ 

یہاں بات یہ ہے،  یہ میٹنگ جنرل صاحب کے کرنے کی نہ تب تھی نہ اب ہے۔

جنرل صا حب کو باڈر سے بلا کر تجارتٰ میٹنگ کروانی ہے،

 تو پھر وزیر خزانہ صاحب کو لندن سے بلانے کی کیا ضرورت ہے۔

 یہ میٹنگ وزارت خزانہ  میں ہونی چاہیے تھی۔ 

پہلے جنرل صاحب کو بلا کر دعوت دی جاتی ہے پھر محکموں میں مداخلت کا الزام۔

کاروباری افراد گن میں کی بندوقوں سے خوف کھاتے ہیں امن مانگتے ہیں۔

صوبہ بلوچستان میں کوئی انڈسٹری نہیں  ہے۔

کے پی میں کوئی انڈسٹری نہیں لگتی،

امن کنجی ہے کاروبار کی اور کاروبار کنجی ہے ترقی 

 امن قائم کرنا ہو گا،۔ اور وہ وزارت تجارت کا نہیں کر سکتی 

جنرل صاحب انکا کام کرنے اور خود میں اہلیت پیدا کریں اپنا کام کرنے کی۔

امن قایم ہو گیا تو

 میٹنگ کے بغیر ہی کبوتر صحن میں گٹرغوں گٹرغوں کرتے اتر ائیں گے۔ 

The post جنرلی میٹنگ appeared first on Fruit Chat.



This post first appeared on Think Different,Let's Fruit Chat, please read the originial post: here

Share the post

جنرلی میٹنگ

×

Subscribe to Think Different,let's Fruit Chat

Get updates delivered right to your inbox!

Thank you for your subscription

×