Get Even More Visitors To Your Blog, Upgrade To A Business Listing >>

سولہ آنے سچ ، ٹکے ٹکے کے لوگ

یادش بخیر: "سولہ آنے سچ”، "ٹکے ٹکے کے لوگ”، "آنے پائی کا حساب”، "پائی پائی چکا دوں گا”، "دمڑی کی بڑھیا ٹکہ سر منڈائی” جیسے محاورے اب اجنبی بنتے جا رہے ہیں، نئی نسل کے لئے انہیں سمجھنا مشکل ہے کہ اب "آنے” رہ گئے اور نہ "ٹکے” بلکہ "پیسے” بھی ختم کر دئیے گئے ہیں۔

ایک زمانہ تھا کہ روپے کے 64 پیسے اور 16 آنے ہوتے تھے، یہی نہیں آنے کے چار پیسے اور پیسے کی 12 پائیاں ہوتی تھیں، دو پیسوں کا ٹکہ، چار آنوں کی چونی اور آٹھ آنوں کی اٹھنی ہوتی تھی۔

روپے کی تقسیم 192 پائیوں تک تھی، یعنی پاکستانی کرنسی کی قدر (value) اتنی تھی کہ اس کا کم از کم یونٹ روپے کا 192 واں حصہ ہوتا تھا۔

صدر محمد ایوب خان کے دور حکومت میں یکم جنوری 1961ء کو پاکستان میں سکوں کا اعشاری نظام آیا تو روپے کے 64 کی جگہ 100 پیسے ہو گئے، نیا پیسہ سائز میں پرانے سے کافی چھوٹا تھا، انہی دنوں لباس کا ٹیڈی فیشن چل رہا تھا، جس کی خصوصیت چست، تنگ اور مختصر ہونا تھی، ہر چھوٹی چیز ٹیڈی کہلا نے لگی، لہذا یہ نیا چھوٹا پیسہ بھی ٹیڈی پیسہ کہلانے لگا، چھوٹی بکریوں کو "ٹیڈی بکری” کا نام بھی اسی رعایت سے ملا تھا۔

چھوٹے یا ٹیڈی پیسے کے ساتھہ ایک بڑا آنہ بھی تھا، اعشاری نظام آیا تو پرانے چار پیسے والا دندانے دار آنہ چل رہا تھا، اب نئے سکوں میں دس پیسے کا سکہ بھی اسی طرح دندانے دار لیکن ذرا بڑا تھا، اس طرح لوگوں نے اسے بڑے آنے کا نام دے دیا۔

خیر اب تو سب سے چھوٹا یونٹ روپیہ ہے، روپے سے نیچے کوئی سکہ نہیں، اب بھی اخبارات میں اتنے "روپے” اور اتنے "پیسے” جیسی رقوم لکھی ہوتی ہیں لیکن یہ اخبار نویس کی لاعلمی کا اظہار ہوتا ہے؛ پیسہ اب کوئی سکہ نہیں ہے ،آنے، ٹکے، چونیاں، اٹھنیاں، پائیاں، ملاحظہ فرمائیں۔۔۔ چند متروک سکے جو اس وقت نایاب ہو چکے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تلاش و ترسیل: آغا نیاز مگسی



This post first appeared on Baaghi TV, please read the originial post: here

Share the post

سولہ آنے سچ ، ٹکے ٹکے کے لوگ

×

Subscribe to Baaghi Tv

Get updates delivered right to your inbox!

Thank you for your subscription

×