Get Even More Visitors To Your Blog, Upgrade To A Business Listing >>

سیرتِ رسولﷺ اور ہماری زندگی

سیرتِ رسولﷺ اور ہماری زندگی
پروفیسر محمد مسعود احمد

آقا ﷺ کا حسنِ مبارک: ہر طرف اندھیرا ہی اندھیراتھا۔۔۔۔ چاند تھا لیکن بے نور سا۔۔۔تارے تھے لیکن بجھےبجھےسے۔۔۔۔آفتاب تھا لیکن ڈوبا ڈوبا سا۔۔۔ عقلوں پر پتھر پڑ گئے تھے، دل اجڑ گئے تھے اور خزاں نے بہاروں کو لوٹ کر چمن ویران کر دیئے تھے کہ اچانک:وہ آنے والا آگیا جس کا روزِ ازل سے انتظار تھا، کیساحسیں ، کہ دل کھنچے جارہے تھے۔۔۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرما رہے ہیں: لم ارقبلہ ولا بعدہ مثلہ
حسن تیرا سا نہ دیکھا نہ سنا
کہتے ہیں اگلے زمانے والے

اور حضرت براء بن عازبؓ فرمارہے ہیں:مارایت شیاً قط احسن منہ
ترجمہ: ’’میں نے کبھی کوئی چیز حضور ﷺسے زیادہ حسین نہ دیکھی‘‘۔
حسن وجمال کی جذب وکشش کا یہ عالم تھا کہ پیشانیاں جھکنے کے لیے بے قرار تھیں۔
پیش نظر وہ نوبہار سجدے کو دل ہے بے قرار
روکئے سر کو روکئے ہاں یہی امتحان ہے

جسم مبارک کیا تھا، معلوم ہوتا تھا کہ چاندی میں ڈھالا گیا ہے، چمکتا ہوا مہکتا ہوا۔
اعلٰی حضرت فرماتے ہیں:
کیا مہکتے ہیں مہکنے والے
بو پہ چلتے ہیں بھٹکنے والے

رنگ مبارک سنہری بھی، روپہلی بھی۔۔۔۔۔ ایسا پرکشش کہ بس دیکھے جایئے:
نمک آگیں صباحت پہ لاکھوں سلام

قد مبارک نہ بہت درازاور نہ بہت پست بس درمیانہ نہایت ہی موزوں، روئے مبارک کی بات نہ پوچھئے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں:یتلا لا وجھہ تلاء لو القمر لیلۃ البدر ترجمہ: ’’چہرہ مبارک اس طرح چمکتا تھا جس طرح چودہویں کا چاند چمکتا ہے‘‘۔
حسن بے داغ کے صدقے جاؤں
یوں دمکتے ہیں دمکنے والے

اور حضرت جابر بن سمرہ (رضی اللہ عنہ )فرماتے ہیں:فھو عندی احسن من القمرترجمہ: ’’ آپ ﷺ میرے نزدیک چاندسے بھی زیادہ حسیں ہیں ‘‘
سر اقدس مبارک موزوں ، بڑا اور بھاری۔۔۔بال مبارک نہ گھنگھر یالے، نہ سخت، بس گرہ گیر۔کبھی کانوں کی لو تک جھولتے رہتے اور کبھی شانوں کو چوم چوم لیتے۔ کبھی دودوزلفیں پڑی ہیں، کبھی چار چار گیسو بکھرے ہیں ’کبھی مانگ نکلی ہے ‘کبھی مانگ نکالی جار ہی ہے۔ روزانہ نہیں ایک دن بیچ کر کے ۔۔۔جبین مبارک نہایت کشادہ اور چمکدار ۔ چشمِ مبارک نہایت سیاہ اور سفیدی میں سرخ ڈورے ہمیشہ جھکی جھکی رہتیں۔
نیچی آنکھوں کی شرم وحیا پر درود

ابروئے مبارک لمبی لمبی اور انتہائی خوبصورت، کمان کی طرح خمیدہ یا ہلالینِ عیدین۔۔مثرگانِ مبارک بڑی بڑی بینی مبارک نہایت اونچی اور دیکھنے والوں کو تو بہت ہی اونچی معلوم ہوتی۔
اونچی بینی کی رفعت پہ لاکھوں سلام
رخسا رمبارک ہموار وتاباں
جن کے آگے چراغ قمر جھلملائے
ان عذاروں کی طلعت پہ لاکھوں سلام

دہن مبارک کشادہ ، چشمہ علم وحکمت۔۔برہان الٰہی۔۔
ہنستے ہیں تو چمک اٹھتے ہیں

ریش مبارک گھنی تھی۔۔۔چند بال سفید باقی سیاہ اور سیاہی مائل سرخ جو تمہید ِ سفیدی تھے۔ دونوں شانوں کے درمیان کچھ فاصلہ تھا۔۔۔۔اس کے بیچوں بیچ چاندی کی طرح صاف شفاف صراحی دار گردن اور اس کے بالکل پیچھے مہرنبوت ، نور علٰی نور
حجرِ اسودِ کعبہ جان و دل
یعنی مہر نبوت پہ لاکھوں سلام

ہتھیلیاں پر گوشت، ریشم سے زیادہ نرم وملائم۔۔۔کلائیاں لمبی لمبی۔۔۔۔جس پر دستِ کرم پھیرا شفایاب ہوا،اُنگشت مبارک لمبی لمبی۔۔۔ سینہ مبارک فراخ وکشادہ ۔۔۔۔شکم مبارک سینے سے بالکل ہموار ۔۔پائے مبارک پر گوشت اور گہرے۔۔۔۔اور خرامِ ناز ایسا کہ شرمائے شرمائے، جھکے جھکے، جیسے نشیب سےفراز کیطرف جارہے ہوں، بظاہر آہستہ آہستہ ، مگر تیز تیز
عرش جس خوبی رفتار کا پامال ہوا
وہ قدم چل کے دکھا سرد خراماں ہم کو

آقا ﷺ کا آداب طعام:عادت شریفہ تھی کہ کھانے سے قبل اور کھانے کے بعد ہاتھ دھوتے۔۔کھانے سےقبل ہاتھ دھو کر نہ پونچھتے۔۔۔۔اس سنت کی حکمت ایک عزیز نے سمجھائی فرمایا کے ایک سرجن ہاتھ دھو کر سیدھے آپریشن تھیٹر میں تشریف لےگئے، جب ان سے پوچھا کہ ہاتھ دھوکر کیوں نہ پونچھے؟۔۔۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہر چیز پر جراثیم موجود ہیں، تو لیے پر بھی جراثیم ہوتے ہیں، اگر پونچھ لیتا تو عین ممکن تھا کہ جراثیم منتقل ہو کر میرے ہاتھ پر آتے اور پھر مریض کے زخم میں منتقل ہو جاتے۔۔۔ حقیقت تو یہ ہے کہ فائدے میں وہی رہے جنہوں نے آنکھیں بند کر کے سنت پر عمل کیا۔ جنہوں نے آنکھیں کھولیں اور عقل کو کام پر لگایا نقصان میں رہے،جو بات آنکھ والوں اور عقل والوں کو چودہ سو برس بعد سمجھ میں آئی وہی بات دل والوں کو اسی وقت سمجھ میں آگئی تھی۔۔۔۔ علامہ اقبال نے کیسی دل لگتی بات کہہ دی کہ حضور ﷺ نے ’’انسانی مساعی کو بہت ہی مختصر کر دیا‘‘ یعنی جو بات صدیوں میں سمجھ میں آسکتی تھی، منٹوں میں سیکنڈوں میں سمجھا دی۔۔ اسی لیے تو بزرگ کہتے تھے کہ شرعی معاملات میں عقل سے سمجھنے میں وقت اور دولت دونوں کا ضیاع ہے اور اسی مختصر زندگی میں یہ ضیاع نہایت نامعقول بات ہے۔۔۔کھانے کے آداب میں سرکار دو عالم ﷺ نے یہ بھی فرمایا:”بسم اللہ پڑھو اور جو کچھ سامنے رکھا ہوا ہو اس کو داہنے ہاتھ سے کھاؤ۔”
تہذیب جدید میں اس سنت کا کیسے مذاق اڑایا جا رہا ہے؟ اغیار نہیں ہم خود مجرم ہیں۔۔کیسی بسم اللہ، کس کی بسم اللہ!۔۔ بیٹھے بیٹھے کھڑے ہوگئے۔۔اور اس پر فخر محسوس کر تے ہیں۔۔ اور کھڑے ہو کر چلتے پھرتے کھاتے پیتے ہیں، کس کا داہنا ہاتھ اور کیسا داہنا ہاتھ؟۔۔ اپنے آگے سے ۔سب کے آگے سے ۔۔۔۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔۔۔ آج تجدیدِ عہد کی ضرورت ہے کہ ہم ہراس رسم کو خاک میں ملا دیں، جو ہمیں حضور ﷺ کی سنت سے دور کرے۔
آقا ﷺ کے اسلحے: سرکار دو عالم ﷺ کے پاس اسلحہ بھی تھا کئی تلواریں تھیں، جن کے مختلف نام تھے۔ العون، العرجون۔۔۔ شمائل شریف میں یہ نام ملتے ہیں اور شارح شمائل شریف احمد عبدالجواد الدومی نے یہ نام بھی لکھے ہیں۔ قضیب ، قلعی ،تبار، حتف، مخذم، رسوب، صمصامہ، لحیف، ذوالفقارا۔ زرہیں بھی کئی تھیں، شمائل ترمذی میں یہ دو نام ملتے ہیں ذات الفضول اور فضۃ ۔احمد عبدالجوادالدومی نے یہ نام بھی لکھے ہیں ذات الوشاح، ذات الحواشی، السعدیۃ، البشراء ، الحزنق، جنگ احد میں سرکار ِ دو عالم ﷺ ذات الفضول اور فضۃ زیب تن کئے ہوئے تھے ، لب ورخسار لہولہان ، دشمنوں نے شہادت کی خبراڑادی، صحابہ منتشرہوگئے، سرکار ایک چٹان پر چڑھ کر جاں نثاروں کو دیدار کرانا چاہتے ہیں ،حضرت طلحہ حاضرہیں ، جھک رہے ہیں اور سرکارِدوعالم ﷺ ان کی پشت پر چڑھ کر پہاڑی پر چڑھ رہے ہیں۔۔ سبحان اللہ! قدوم مبارک نے پشتِ طلحہؓ کو عرشِ بریں بنا دیا:
زرہوں کے علاوہ حضور ﷺ کے پاس سات گھوڑے ، چھ کمانیں، تیروترکش، سنان وسپر، لوہے کا خود وغیرہ بھی تھے۔۔۔ آپ نے ہر چیز کا نام رکھ چھوڑا تھا، کوئی چیز بے نام نہ تھی۔ اللہ اللہ اپنے جاں نثاروں کو کیا تہذہب سکھا دی!
آقا ﷺ کا شوق نعت:سرکار دو عالم ﷺ کو اشعار مرغوب تھے، عبداللہ بن رواحہ، لبیدبن ربیعہ اور حسان بن ثابت رضی اللہ عنہم وغیرہ کے اشعار سماعت فرمائے۔۔ جن بزرگوں کے ہاں نعت خوانی یا بلا مزامیرقوالی کی محفلیں منعقد ہوتی ہیں وہ اسی سنت شریفہ پر عمل کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نعتیہ اشعار سننے سے طبیعت میں نرمی اور توازن پیدا ہوتا ہے۔
آقا ﷺ کا عبادت کا انداز:سرکار دو عالم ﷺ کی عبادت وریاضت کا حال نہ پوچھئے۔ نفل پڑھتے پڑھتے پاؤں مبارک ورما جاتے، عرض کیا جاتا تو ارشاد فرماتے۔افلا اکون عبداشکورا ؟” کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں”
اللہ اللہ!کیا نیاز مندی ہے۔ اول رات آرام فرماتے پھر بیدار ہو جاتے اور نوافل پڑھتے رہتے۔ نماز فجر سے قبل تھوڑی دیر آرام فرماتے پھر بیدار ہوجاتے اور نماز ادا کرتے، اس کے بعد اشراق وچاشت کے نوافل پڑھتے۔نوافل اتنی دیر میں ادا فرماتے کہ جو صحابی شریک ہوتا تھا تھک تھک جاتا ۔ نوافل میں کبھی ایک رکعت میں سورۃ بقرہ کی قراءت فرماتے اور دوسری رکعت میں سورۃ آلِ عمران، پھر ترتیل کے ساتھ قراءت فرماتے۔رکوع وسجود میں اتنی ہی تاخیر فرماتے جتنی قیام میں۔ غور تو کیجئے یہ دو نفل کتنے گھنٹے میں پورے ہوتے ہوں گے!۔ روزے رکھتے تو مسلسل روزے رکھے چلے جاتے سمجھنے والے یہ سمجھتے کہ شاید اب افطار نہ فرمائیں گے۔ کس میں ہمت ہے جو ہمتِ مصطفی (ﷺ ) کا مقابلہ کرے۔ سنئے سنئے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کیا فرما رہی ہیںوایکم یطیق ماکان رسول اللہ ﷺ یطیق ’’ تم میں کون ایسی طاقت وسکت رکھتا ہے جتنی طاقت وسکت رسول اللہ ﷺ رکھتے تھے “؟
اللہ اللہ ! جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو سینہ مبارک سے ایسی آواز آتی جیسے جوش مارتی پتیلی سے آتی ہے۔۔۔کبھی ایسا بھی ہوتا کہ ایک آیت پڑھتے پڑھتے ساری ساری رات گزر جاتی ہے۔
تہجد کی جاگی نگاہوں کا صدقہ
مرے بخت خفتہ کو آکر جگا دے

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا فرماتی ہیں۔ ایک رات جو نفل پڑھنے کھڑے ہوئے تو ساری رات یہ آیت شریف پڑھتے رہے۔
ان تعذبھم فانھم عبادک وان تغفر لھم فانک انت العزیز الحکیمترجمہ: اگر تو انہیں عذاب دےتو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو بخش دے تو بیشک تو ہی غالب حکمت والا ہے۔
آقا ﷺ کا پیالہ مبارک اور پانی پینا: حضور ﷺ کےپاس ایک لکڑی کا پیالہ تھا جو بالعموم استعمال میں رہتا تھا ، اس کے علاوہ چار پیالے اور تھے۔ پیالوں کے مختلف نام تھے ایک کا نام الریان اور دوسرے کا نام مغیثا تھا۔ پیالہ شریف کا ایک عجیب واقعہ سننے میں آیا ہے۔’’ حیدر آباددکن میں ایک صاحب نے خواب میں حضور ﷺ کی زیارت کی، آپ نے پیالہ عنایت فرمایا، آنکھ کھل گئی، بازار میں جو نکلے تو سرِراہ ایک فقیر نے آواز دے کر بلایا اور ایک پیالہ دیا، یہ دیکھ کر حیران رہ گئے ہو بہووہی پیالہ تھا جو خواب میں دیکھا تھا اور جس کی صفات احادیث شریفہ میں بیان کی گئی ہیں، یہ پیالہ اب تک صاحب موصوف کے پاس ہے اور عجب تاثیر رکھتا ہے۔‘‘
پانی پینا: سرکار دوعالم ﷺ کو ٹھنڈا اور میٹھا شربت پسند تھا دودھ بھی مرغوب تھا اور شہد بھی ۔۔۔دودھ کے لیے کیا خوب ارشاد فرمایا کہ اس کے سوا کوئی ایسی چیز نہیں جو بیک وقت پانی اور غذادونوں کے قائم مقام ہو۔۔ سرکار مشروبات کو بیٹھ کر نوش فرماتے۔ وضو کا بچا ہواپانی اور آبِ زم زم تو ہمیشہ کھڑے ہو کر نوش فرمایا، تین سانس میں نوش فرماتے کہ اس میں بےشمارطبی فوائد ہیں۔
آقا ﷺ کا تبسم، طریقہ گفتگو اور خوش طبعی:
تبسم:حضور ﷺ مسکراتے رہتے اور دل کی کلیاں کھلاتے رہتے تھے
جس تبسم نے گلستان پہ گرائی بجلی
پھر دکھا دے وہ ادائے گل خنداں ہم کو

یہ تبسم پنہاں شاہ ووزیر، علماء ومشائخ ، حاکم وافسرسب کے لیے ایک درسِ عظیم ہے، یہ سمجھنا کہ عظمت کا راز منہ بسور نے میں مخفی ہے خام خیالی ہے عظیم وہی ہے جس کی ٹھوکر پر دولتِ دنیا ہو پھر بھی وہ مغرورنہ ہو، مسکراتا رہے۔
گفتگو: گفتگو فرماتے تو صاف صاف،ٹھہر ٹھہر کر، آہستہ آہستہ دھیرے دھیرے۔ ہر بات تین دفعہ دہراتے کہ سمجھنے والا اچھی طرح سمجھ لے، نہ ضرورت سے زیادہ گفتگو فرماتے اور نہ ضرورت سے کم ۔ لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ بولنے پر آئیں تو بولتے چلے جائیں ، لکھنے سے جی چراتے ہیں اور عمل سے بیگانہ ہیں ، وہ سراپا کتاب تھے، وہ سراپا عمل تھے۔
خوش طبعی: سرکار دو عالم ﷺ مزاح بھی فرمایا کرتے تھے کہ مزاح بہار حسن ہے۔ ایک صحابی سے مزاحاً فرمایا۔ذو الاذنین(دوکانوں والے)، ایک بچہ کا بلبل مر گیا، سرِ راہ آزردہ بیٹھا تھا، سرکارنے جو دیکھا تو فرمایا:یا ابا عمیر مافعل النغیر عمیر کے ابا تیرے بلبل کو کیا ہوا؟ یہاں ہم قافیہ الفاظ، ’’عمیر اور نغیر‘‘ سے لطفِ مزاح پیدا کیا ہے۔
ایک صحابی سے فرمایا ، تمہیں اونٹنی کے بچے پر سوار کروں گا۔ وہ حیران کہ اس پر کیسے سوار کریں گے۔ لیکن کیا ہر اونٹ ، اونٹنی کا بچہ نہیں؟
ایک بڑھیا نے جنت کے لیے دعا کی درخواست کی ، فرمایا، بڑھیا جنت میں نہ جائے گی ، وہ بیچاری روتی پیٹتی چل دی، آپ نے اس کے پیچھے ایک صحابی کو بھیجا اور فرمایا اس سے کہہ دو کہ جنت میں جو جائے گا، جوان ہو کر جائےگا۔ حضرت زاہر(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) بازار میں بیٹھے کچھ بیچ رہے تھے، سرکار دو عالم ﷺ نے پیچھے سےآکر آنکھوں پہ ہاتھ رکھ دیا اور فرمایا: من یشتری ھذالعبد اس غلام کون خرید تا ہے؟ اللہ اللہ ! حضرت زاہررضی اللہ عنہ کی قسمت قابلِ صدر شک تھی کہ سرکار نے انہیں خود غلام کہہ کر پکار ا ۔۔ اس غلامی کو خدا کی غلامی سمجھ لیجئے یا رسول اکرم ﷺ کی غلامی سرکارِ دوعالم ﷺ کے مزاح میں یہ بات قابلِ غور وفکر ہے کہ جھوٹ کی ذرا آمیزش نہیں۔ اللہ اللہ کیا اہتمامِ صداقت ہے! صداقت کا یہ معیار کوئی پیش کر کے تو دکھائے۔ ہمارا حال یہ ہے کہ ہمارے سچ بھی جھوٹ کے پلندے ہیں اور جھوٹ کا تو کہنا ہی کیا!
آقا ﷺ کا تقسیم اوقات:سرکاردوعالم ﷺ نے اوقاتِ یومیہ کوتین حصوں میں تقسیم کر لیا تھا۔ ایک حصہ اللہ کے لیے، دوسرا اہل خانہ کے لیے، تیسرا اپنے لیے جو اپنے لیے مخصوص کیا تھا پھر اس کو دوحصوں میں تقسیم کر لیا۔ ایک اپنے لیے اور دوسرا مخلوقِ خدا کے لیے ۔ اللہ اکبر ! امتِ مرحومہ سے یہ محبت کہ وقت بھی دیا تو اپنے ہی حصے میں سے دیا۔۔۔ عوام وخاص سے جب ملاقات فرماتے تو خواص کو ترجیح دیتے۔ وہ خواص جن کا ذکر قرآن میں ہے۔۔ ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم۔۔ اللہ کے نزدیک وہ چنیدہ ہے جو معاشرے میں سب سے زیادہ پرہیز گارہو ۔۔ مگر مادہ پرستی کے اس دور میں اسی کی عزت کی جاتی ہے اور اسی کا خیال رکھا جاتا ہے جسکے پاس مال ودولت ہو، جو جاہ وحشمت کا مالک ہو، جس کو کثرت کی حمایت حاصل ہو مگر حضور ِ انور ﷺ نے ایک ہی معیار رکھا اور وہ سچائی اور نیکی کا معیار تھا۔
آقا ﷺ کا تلاوت قرآن کا طریقہ:حضور ﷺ قراءت فرماتے تو صاف صاف، ٹھہر ٹھہر کر۔۔۔ فتح مکہ کے موقع پر اونٹنی پر سوار ہیں اور وجد میں یہ آیت کریمہ تلاوت فرمارہے ہیں: إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًاشمع رسالت کے گردپروانے جمع ہیں۔۔ عجب دل آراء منظر ہے۔ راوی فرماتے ہیں کہ اگر مجھے یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ میرے ارد گرد ٹھٹ کے ٹھٹ لگ جائیں گے تو سرکارکی آواز میں یہ آیت کریمہ سناتا۔۔ اللہ اکبر ! کیا کشش تھی کہ جن وبشرسب کھنچےچلے آتے تھے:
کبھی کبھی صحابہ سے تلاوت کی فرمائش کرتے۔۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سرکار کی مجلس میں بیٹھے قرآن سنا رہےہیں کہ:انی احب ان اسمعہ من غیری ’’دل چاہتا ہے کہ حدیث یارکسی دوسرے کی زبان سے سنوں‘‘ ہاں سناؤ ، سناؤ!۔۔ تلاوت ہو رہی ہے، آنسو بہہ رہے ہیں سرکارِدوعالم ﷺ کی رقت کا یہ عالم تھا کہ حضرت عثمان بن مظعونؓ کی میت رکھی ہے چادر اٹھاتے ہیں اور پیشانی چوم رہے ہیں ، اشکبار ہیں۔۔ہاں اے عثمان ذرا عمرِ رفتہ کو آواز دیجئے کہ آج قسمت کا ستارہ اوج پر ہے۔
میت اٹھائی گئی بے ساختہ ارشاد فرمایا۔’’ اے عثمان مبارک ہو! نہ تو دنیا کو قبول کیا اورنہ دنیا نے تجھے۔
ایک نیکی یہ ہے کہ انسان دنیا میں رہ کر دنیا سے الگ رہے، یہ بھی آسان نہیں۔۔ اور ایک نیکی یہ ہے کہ دنیا اس کی طرف لپکے اور وہ دونوں ہاتھوں سے اسے جھٹک دے۔
آقا ﷺ کا تیل ، سرمہ اور خوشبومبارک:
تیل اور سرمہ: سرکار کی عادت شریفہ تھی کہ تیل بہت استعمال فرماتے تھے، سرمبارک ترہو جاتا تھا لیکن نفاست کا یہ عالم تھا کہ سربند کا پورا پورا اہتمام رکھتے تھے جو عمامہ شریف کے نیچے بھی رہتا تھا۔ روزانہ سرمہ کی تین تین سلائیاں لگاتے ۔۔آپ نے فرمایا کہ سرمہ بینائی کو جلا دیتا ہے۔۔پلکیں بڑھاتا ہے اور دماغ کی ماءِ غلیظ کو خارج کرتا ہے۔ مگر یہ سنت بھی جوانوں میں معدوم ہوتی جارہی ہے۔
خوشبو: سرکارِدوعالم ﷺ کو خوشبو بہت ہی مرغوب تھی گو سراپا مہک تھے خوشبو کا ہدیہ کبھی واپس نہ فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ خوشبو، دودھ اور تکئے کا ہدیہ کبھی واپس نہ کرو۔ خوشبو کے بارے میں یہ بڑی لطیف بات فرمائی کہ خوشبو دوقسم کی ہے’’مردانی خوشبو وہ ہے جس کا رنگ ظاہر نہ ہو، خوشبو ظاہر ہو اور زنانی خوشبو وہ ہے جس کا رنگ ظاہر ہو خوشبو ظاہر نہ ہو‘‘۔
آقا ﷺ کا اخلاقِ حسنہ:سرکار ِ دوعالم ﷺ کے اخلاقِ کریمہ بہت عالی تھے، خود خالق کائنات فرمارہا ہے۔وان لک لاجرا غیر ممنون۔ وانک لعلی خلق عظیم آپ کے اخلاق حسنہ سے متعلق بہت سی آیات ہیں۔۔ آپ نرم طبیعت تھے، نہ کسی کی مذمت فرماتے اور نہ کسی کا عیب بیان فرماتے، اجنبی مسافر کی بد تمیزیوں کو برداشت فرماتے ، کوئی بھی کچھ مانگتا فوراً دیتے، ایک مرتبہ ایک صحابی نے چادر طلب کی، عنایت فرمادی ، دوسرے صحابی نے ان سے کہا کہ یہ کیا کیا۔۔ ’’ فرمایا اوڑھنے کے لیے نہیں لی، ارے یہ تو کفن کے لیے ہے‘‘ چنانچہ ان صحابی کو اسی چادر میں کفنایا گیا۔
اللہ اللہ! صحابہ (رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین) کو حضور ﷺ سے کیا عشق تھا!سرکار ِ دو عالم ﷺ آداب مجلس کا خیال رکھتے ، جیسی باتیں ہوتیں خود بھی اس میں شریک ہوجاتے۔۔ آخرت کی بات ہوتی تو آخرت کی باتیں فرماتے اور اگر کھانے کی باتیں ہوتیں تو کھانے کی باتیں فرماتے ۔ ہر ایک سے دلدہی اور رغبت سے باتیں فرماتے کہ اس کا جی خوش ہو جاتا ۔ ناگوار بات کا زبان سے اظہار نہ فرماتے بلکہ حاضرین چہرہ مبارک سے اندازہ لگالیتے یا دوسروں کو ہدایت فرماتے کہ وہ منع کردیں۔ سبحان اللہ غلط کاروں کے دل کا بھی اتنا خیال! حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں دس برس سرکار کی خدمت میں رہا لیکن کبھی’’ ہوں‘‘ تک نہ فرمایا اور نہ کسی بات پر بازپرس کی۔ نہ کسی خادم کو مارا اور نہ ازواج کو ، خلقِ سراپا تھے۔۔
آقا ﷺ کا طریقہ تواضع:حضور سرکار دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تواضع وانکساری کا یہ عالم تھا کہ اپنے کپڑے خود صاف کر لیا کرتے تھے، اپنی جوتیاں خود مرمت کر لیا کرتے تھے، بکری کا دودھ دوہ لیا کرتے تھے، اپنے کام خود کر لیا کرتے تھے، حتیٰ کہ دوسروں کے کام بھی کر دیتے تھے۔۔ یہ آپ کی شان تھی۔
حضور اکرم ﷺ مجلس شریف میں تشریف لاتے تو صحابہ کو احتراماً کھڑے نہ ہونے دیتے، صحابہ کے ساتھ چلتے، تو چلتے چلتےکبھی ان کو آگے کر دیتے ، سلام میں ہمیشہ پہل کرتے۔۔۔ افسوس اس سنت سے بھی ہم بہت دور ہو گئے۔۔ ہم کو آگے چلنے اور دوسروں کو پیچھے چلوانے میں مزا آنے لگاہے، خود سلام نہیں کرتے اور دوسروں سے سلام کی توقع رکھتےہیں۔ حضور ﷺ کے پاس گھوڑے تھے لیکن آپ گدھے پر لمبی سواری فرماتے تھے کہ یہ غریبوں کی سواری ہے، اللہ اللہ کیا دلداری ہے ! اور کیا تو اضع ہے۔۔۔ کیا دنیا کا کوئی حاکم وقت اور شیخِ وقت غریب پروری کا برسرِ عام اس طرح مظاہرہ کرسکتا ہے؟
آقا ﷺ کاطعامِ مبارک:حضور ﷺ کی گزراوقات بہت ہی سادہ تھی۔۔ پیٹ بھر کر کبھی کھجور بھی تناول نہ فرمائی۔۔۔ پورے پورے مہینے چولہے میں آگ نہ جلتی تھی۔۔ اور ابتداء اسلام میں تو ایسا کٹھن وقت بھی آیا کہ پورے پورےمہینے درخت کے پتوں کے سوا کچھ میسر نہ تھا، حضرت بلال حبشی ؓحضور ﷺ کے لیے اپنے بغل میں کچھ چھپا لاتے اور بس ۔۔ یہ حکایتِ خونچکاں خود سرکارِدوعالم ﷺ کی زبانِ مبارک سے سُنْیے!”ہاں اللہ کے راستے میں جتنا میں ڈرایا گیا ہوں، جتنی مجھے تکلیف دی گئی ہے کسی کو نہیں دی گئی اور ہاں(میری زندگی میں ) تیس دن رات ایسے بھی گزرگئے ہیں کہ کھانے کے لیے وہ بھی نہ تھا جو جانور کھا سکیں۔۔ بس بلال تھوڑا بہت بغل میں چھپا لاتے۔”
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ صبح وشام کے کھانے میں کبھی روٹی اور گوشت جمع نہیں ہوا۔ وصال مبارک تک گھر میں دو دن مسلسل ایسے نہ گزرے جس میں پیٹ بھر جو کی روٹی بھی تناول فرمائی ہو اتنی بھی نہ ہوتی کہ کھانے کے بعد بچ رہے۔۔ اور جو کا آٹا بھی چھنا ہوا نہ ہوتا جو غریب انسان بھی نہ کھا سکے۔۔ ہمیشہ زمین پر اور دستر خوان پر تناول فرمایا۔۔ رات کا کھانا نوش نہ فرماتے ، بس ایک وقت کھانا تناول فرماتے۔
سرکارِ دو عالم ﷺ کے وصال کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے ایک روز جناب مسروق ؓکو کھانا کھلایا ، اس دن دستر خوان پر روٹی سالن ساتھ تھا۔۔ سرکار یاد آگئے، رونے لگیں، روتی جاتیں اور فرماتیں۔۔ میں نے پیٹ بھر کر کبھی نہ کھایا، میرے سرکار نے بھی کبھی روٹی اور گوشت سیر ہو کر نہ کھایا، رونے کو جی چاہتا ہے تو خوب روتی ہوں۔ اللہ اکبر!
کل جہاں ملک اور جو کی روٹی غذا
اس شکم کی قناعت پہ لاکھوں سلام

حضر ت سلمیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے عرض کیا گیا کہ وہ کھانا تیار کریں جو سرکارِ دو عالم ﷺ تناول فرماتے تھے، فرمایا وہ کھانا کوئی نہ کھا سکے گا، اصرار کیا گیا تو آپ نے جو کا گندھا ہوا آٹا پتیلی میں ڈالا ، اوپر سے تھوڑا سا روغن ڈالا اور اس پر سیاہ مرچ اور زیرہ کوٹ کر چھڑک دیا، لیجئے سرکار کا کھانا تیار ہو گیا۔۔۔ اللہ اللہ سرکارِ دوعالم ﷺ کی یہ قناعت اور ہمارا یہ حال۔۔

سرکارِدوعالم ﷺ نے مختلف دعوتوں میں یہ چیزیں تناول فرمائیں، مرغی کا گوشت ، سرخاب کا گوشت، دنبےکا گوشت، خشک اور بھنا ہوا گوشت۔۔۔گوشت چھری سے کاٹ کر بھی کھایا اور دانتوں سے بھی تناول فرمایا۔۔۔ ترکاریوں میں کدو، زیتون، چقندر، ککڑی نوش فرمائی۔۔۔ کدو بہت ہی مرغوب تھا، دعوت میں پیش کیا جاتا تو قتلے نکال نکال کر نوش فرماتے ،لیکن آج عوام وخاص کی عیش پسندی ولذت اندوزی کا یہ عالم ہے کہ اس سادگی مبارک کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔
سرکار دوعالم ﷺ نے ککڑی ، تربوز، خربوزہ، تازہ کھجور کے ساتھ نوش فرمایا۔۔۔ ایک بارربیع بنت معوذ(رضی اللہ تعالیٰ عنھا) تازہ کھجوریں اور ککڑیاں لے کر حاضر خدمت ہوئیں۔ آپ نے خوش ہو کر قریب ہی رکھے ہوئے سونے کے زیورات مٹھی بھر کر عنایت فرمادیئے۔۔۔یہ زیورات اس وقت بحرین سے تحفتاً آئے تھے، اللہ اللہ۔۔
ہاتھ جس سمت اٹھا غنی کر دیا
موجِ بحرِ سماحت پہ لاکھوں سلام

آقا ﷺ کا فرشِ خواب:
فرشِ خواب: سرکار دوعالم ﷺ کا بچھونا بہت سادہ تھا چمڑے میں کھجور کی چھال، اسی کو تو شک سمجھ لیجئے، اس کوگدا سمجھ لیجئے اور عام بستر تو ایک ٹاٹ کا ٹکڑا تھا، دوھرا بچھا دیا جاتا، اس پر آرام فرماتے ایک روز چوہرا کر دیا گیا تو فرمایا:’’ اس بستر کی نرمی نے رات کی نماز میں رکاوٹ پیدا کردی‘‘
اللہ اکبر ! غور کیجئے اور اپنی حالت دیکھئے۔۔ دنیا والوں کی بات نہ کیجئے کہ انہوں نے دنیا کو آخرت پر ترجیح دی ہے۔۔ اور دنیا کو آخرت کے عوض خریدا ہے۔۔ دینداروں کی بات کیجئےجو آخرت کو دنیا پر ترجیح دینے کے دعویدار ہیں۔۔ ان کے نرم نرم بستر دیکھئے اور پھر معمولی ٹاٹ پر آرام کرنے والے اس آقا کا خیال کیجئے۔
سرکار جب آرام فرماتے داہنی کروٹ پر اور داہنا ہاتھ رخسار مبارک کے نیچے رکھ لیتے۔۔ سوتے وقت بھی دعا فرماتے اور بیدار ہو کر بھی دعا فرماتے۔اللہ اللہ!نیند میں بھی ہو شیاری کادرس دے گئے۔ جب بیٹھتے تو غرور ونخوت کے ساتھ نہیں بیٹھتے، انکسار کےساتھ ، بائیں جانب تکیہ پر ٹیک لگا لیت



This post first appeared on Islamic Society Magazine | Islamic Magazine Around The Family, please read the originial post: here

Share the post

سیرتِ رسولﷺ اور ہماری زندگی

×

Subscribe to Islamic Society Magazine | Islamic Magazine Around The Family

Get updates delivered right to your inbox!

Thank you for your subscription

×