Get Even More Visitors To Your Blog, Upgrade To A Business Listing >>

مشال خان قتل کیس: ایک مجرم کو سزائے موت اور 5 مجرموں کو 25 سال قید کی سزا

مشال خان قتل کیس: ایک مجرم کو سزائے موت اور 5 مجرموں کو 25 سال قید کی سزا

ہری پور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشال خان کے قتل کیس کا فیصلہ سنادیا، جس کے مطابق ایک مجرم کو سزائے موت، 5 مجرموں کو 25 سال قید اور 25 مجرموں کو 3 سال قید جبکہ عدالت نے 26 افراد کو بری کرنے کا حکم دے دیا۔

ہری پور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج فضل سبحان نے کیس کا فیصلہ سنایا، اس موقع پر عدالت کے اطراف میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔

اس موقع پر کیس میں گرفتار تمام ملزمان کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔

ابتدائی عدالتی فیصلے کے مطابق ایک مجرم کو سزائے موت، 5 مجرموں کو 25 سال قید، 25 مجرموں کو مختلف دفعات کے تحت ایک سال اور 3 سال قید کی سزا سنائی اور 26 افراد کو بری کرنے کا حکم دے دیا۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ جن افراد کو بری کیا گیا ہے ان کے حوالے سے شواہد نہیں ملے کہ وہ مشال خان قتل میں ملوث تھے۔

پولیس کے مطابق اس کیس کا مرکزی ملزم عارف تاحال لاپتہ ہے جبکہ اس کے بارے میں بیرون ملک فرار ہونے کی بھی اطلاعات تھیں۔

ڈان نیوز کو حاصل ہونے والے عدالتی فیصلے کے مطابق سزائے موت پانے والے مجرم عمران ولد سلطان محمد کو دو سزائیں دی گئی۔

مجرم عمران کو پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی دفعہ 302 (بی) کے تحت سزائے موت اور ایک لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنا ہوگا جبکہ انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) کی دفعہ 7 (ون) (اے) کے تحت 5 سال قید بامشقت اور 50 ہزار جرمانہ بھی ادا کرنا ہوگا۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق جن 5 ملزمان کو 25، 25 سال قید کی سزا سنائی گئی ان میں بلال بخش، فضل رازق، مجیب اللہ، اشفاق خان اور مدثر بشیر شامل ہیں جبکہ ان مجرمان کو جرمانہ بھی دینا ہوگا۔

بعد ازاں کیس کے وکیلِ دفاع نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ وہ عدالتی فیصلے کو چیلنج کریں گے۔

یاد رہے کہ مشال خان قتل کیس میں 25 سماعتوں میں 68 گواہوں کا بیان ریکارڈ کیا گیا تھا۔

کیس کا فیصلہ سامنے آنے سے قبل پولیس نے صوابی میں مشال خان کے گھر کے اطراف میں سخت سیکیورٹی کے انتظامات کرتے ہوئے بھاری نفری تعینات کردی تھی۔

اس کے علاوہ پولیس نے مشال خان کی قبر پر بھی اضافی نفری تعینات کی تھی۔

خیال رہے کہ 28 جنوری 2018 کو ایبٹ آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) نے مشال خان قتل کیس کی سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جو آج بروز 7 فروری کو سنادیا گیا۔

اے ٹی سی جج فضل سبحان خان نے ہری پور سینٹرل جیل میں مقدمے کی سماعت کی اور استغاثہ کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

تمام ملزمان کو سزا ہونی چاہیے، بھائی مشال خان

عدالتی فیصلے کے بعد مشال خان کے بھائی ایمل نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ مشال کیس میں تمام ملزمان کو سزا ہونی چاہیے، اس فیصلے پر وکلاء سے مشاورت کے بعد بتائیں گے کہ آیا ہم اس سے مطمئن ہیں یا نہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کا کوئی ناخوشگوار واقعہ اچانک ہوجائے تو وہ برداشت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے اور مشال خان کے قتل سے بہت تکلیف ہوئی اور والدہ اسے یاد کر کے بہت روتی ہیں۔

انہوں نے خیبرپختونخوا حکومت سے اپیل کی کہ اس کیس میں مفرور ملزمان کو گرفتار کیا جائے اور انہیں بھی قرار واقعی سزا دی جائے۔

عمران خان سے مطالبہ کرتے ہوئے مشال خان کے بھائی نے کہا کہ مشال خان کے نام سے یونیورسٹی کا نام منسوب کرنے کا وعدہ پورا کیا جائے۔

رہائی کے فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے، پرویز خٹک

بعد ازاں ڈان نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے کہا کہ یہ ایک تاریخی فیصلہ ہے لیکن ہم بری ہونے والے 26 افراد کی رہائی کے خلاف عدالت میں جائیں گے جبکہ انہوں نے زور دیا کہ اس کیس کا کریڈٹ پولیس کی تفتیش کو جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ صوبے کی پولیس پر فخر کرتا ہوں اور اس کیس میں پولیس نے مثالی کردار ادا کیا اور عدالت میں ثبوت فراہم کیے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کیس میں مفرور ملزمان کو پکڑنے کے لیے بھی کوشش کررہے ہیں اور انہیں جلد گرفتار کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان نے یونیورسٹی کے نام کی تبدیلی کے حوالے سے کسی قسم کا کوئی وعدہ نہیں کیا تھا۔

عدالتی فیصلہ تاریخی ہے، سینئر تجزیہ کار

بعد ازاں ڈان نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار مبشر زیدی نے کہا کہ اس کیس نے پورے پاکستان کو چونکا دیا تھا اور ایک جرنلزم کے طالبعلم کو توہین مذہب کا الزام لگا کر قتل کردیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا یہ ایک تاریخی فیصلہ ہوگا اور اس میں عدالتی تاریخ میں ایک نذیر قائم ہوگی جس سے مستقبل میں یہ بات بھی سامنے آئے گی کہ جو توہین مذہب کا الزام عائد کرے گا اسے اس الزام کو ثابت بھی کرنا ہوگا۔

اس حوالے سے سینئر تجزیہ کار زاہد حسین نے کہا کہ مشال کے فیصلے میں سزا ضرور ہونی چاہیے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ آئندہ اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے اقدامات کرنے چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ تعلیمی اداروں میں اس طرح کے واقعات روکنے کے لیے اقدامات ضروری ہیں اور اس طرح کا قانون بننا چاہیے کہ اگر کوئی کسی پر الزام لگائے اور وہ ثابت نہیں کرسکے تو اسے بھی سزا ملنی چاہیے۔

مشال خان قتل کیس

یاد رہے کہ 23 سالہ مشال خان کو 13 اپریل 2017 کو خیبر پختونخوا (کے پی) میں عبدالولی خان یونیورسٹی میں توہین رسالت کے الزام پر ہجوم نے تشدد کانشانہ بنا کر قتل کر دیا تھا۔

مشال کی قتل کی ویڈیو جب سوشل میڈیا پر جاری ہوئی تو پورے ملک میں غم و غصہ پیدا ہوا جس کے بعد پاکستان میں توہین کے قانون کے حوالے سے نئی بحث کا بھی آغاز ہوگیا تھا۔

پشاور ہائی کورٹ نے مشال خان کے والد کی جانب سے درخواست پر مقدمے کو مردان سے اے ٹی سی ایبٹ آباد منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔

اے ٹی سی نے مقدمے کی سماعت کا آغاز ستمبر میں کیا تھا جبکہ یونیورسٹی کے طلبا اور اسٹاف کے اراکین سمیت گرفتار 57 مشتبہ افراد پر فرد جرم عائد کی گئی تھی اور گرفتار ملزمان کی ضمانت کی درخواست بھی مسترد کی گئی تھی۔

مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت کے سامنے 50 گواہوں کے بیانات قلم بند کیے گئے اور وکلا کی جانب سے ویڈیو ریکارڈ بھی پیش کیا گیا جس میں گرفتار ملزمان کو مشال خان پر تشدد کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا تھا۔

مشال خان کے والد قیوم خان، ان کے دوست اور اساتذہ نے بھی اے ٹی سی کے سامنے اپنے بیانات ریکارڈ کروائے تھے۔

اے ٹی سی نے پانچ ماہ اور 10 دن کی سماعت کے بعد مقدمے کی کارروائی مکمل کی اور فیصلہ محفوظ کرلیا اور 7 فروری کو فیصلہ سنایا جائے گا۔

یاد رہے کہ مشعال خان قتل کیس کے حوالے سے تحقیقات کرنے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ قتل باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پی ایس ایف کے صدر صابر مایار اور یونیورسٹی ملازم نے واقعے سے ایک ماہ قبل مشعال کو قتل کرنے کی بات کی تھی، مخصوص سیاسی گروہ کو مشعال کی سرگرمیوں سے خطرہ تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ مشعال یونیورسٹی میں بے ضابطگيوں کے خلاف کھل کربولتا تھا جبکہ مشعال اور اس کے ساتھیوں کے خلاف توہین رسالت یا مذہب کے کوئی ثبوت موجود نہیں ملے۔

جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق مخصوص گروپ نے توہین رسالت کے نام پر لوگوں کو مشعال کے خلاف اکسایا تھا۔

اس میں بتایا گیا کہ تشدد اور فائرنگ کے بعد مشعال سے آخری بار ہاسٹل وارڈن کی بات ہوئی تھی، مشعال نے کہا میں مسلمان ہوں، کلمہ پڑھا اور ہسپتال پہنچانے کی التجا کی۔

جے آئی ٹی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ یونیورسٹی میں رجسٹرار سے لے کر سیکیورٹی افسر تک تمام عہدوں پرنااہل سفارشی افراد تعینات ہیں اور سیاسی بنیادوں پر نا اہل افراد کی بھرتی سے یونیورسٹی کا نظام درہم برہم ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ یونیورسٹی میں منشیات اور اسلحہ کا استعمال، طالبات کا استحصال عام ہے جبکہ یونیورسٹی کے بیشترملازمین کا مجرمانہ ریکارڈ بھی موجود ہے اور ان کی چھان بین ہونی جانی چاہیے۔

جے آئی ٹی رپورٹ میں واقعے کے دوران پولیس کردار پر بھی سوالات اٹھائے تھے، جس میں پوچھا گیا ہے کہ پولیس نے بروقت کارروائی کیوں نہیں کی جبکہ غفلت کے مرتکب افسران اور اہلکاروں کی نشاندہی کرکے کارروائی کی سفارش بھی کی گئی تھی۔

The post مشال خان قتل کیس: ایک مجرم کو سزائے موت اور 5 مجرموں کو 25 سال قید کی سزا appeared first on ماہنامہ میرے محسن.



This post first appeared on Islamic Society Magazine | Islamic Magazine Around The Family, please read the originial post: here

Share the post

مشال خان قتل کیس: ایک مجرم کو سزائے موت اور 5 مجرموں کو 25 سال قید کی سزا

×

Subscribe to Islamic Society Magazine | Islamic Magazine Around The Family

Get updates delivered right to your inbox!

Thank you for your subscription

×