خُدا ہم کو ایسی خدائی نہ دے
خُدا ہم کو ایسی خدائی نہ دے
کہ اپنے سوا کچھ دکھائی نہ دے
خطاوار سمجھے کی دنیا تجھے
اب اتنی ذیادہ صفائی نہ دے
ہنسو آج اتنا کہ اس شور میں
صدا سسکیوں کی سنائی نہ دے
غلامی کو برکت سمجھنے لگیں
اسیروں کو ایسی رہائی نہ دے
ابھی تو بدن میں لہو ہے بہت
قلم چھین کر روشنائی نہ دے
مجھے اپنی چادر میں یوں ڈھانپ لے
زمیں آسماں کچھ دکھائی نہ دے
خدا ایسے احساس کا نام ہے
رہے سامنے اور دکھائی نہ دے
بشیرؔ بدر