Get Even More Visitors To Your Blog, Upgrade To A Business Listing >>

عاشقوں کی عید

عاشقوں کی عید
از: علامہ محمد اکمل عطاری قادری مدظلہ العالی

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم  


آرہے ہیں باعث تخلیق عالم مومنو !
پلکیں راہوں میں بچھاؤ آمد محبوب ہے


سنّت رَبُ العُلٰی ہے جشن میلاد النبی
چپے چپے کو سجاؤ آمد محبوب ہے


نعمتیں کونین کی ہیں جس کا صدقہ بالیقیں
اس نبی کے گیت گاؤ آمد محبوب ہے


لینے آغوش کرم میں رَب کی رحمت چھا گئی
عاصیو! اب جھوم جاؤ آمد محبوب ہے


یاد آقا میں بہا کر دل سے اشک بے بہا
نار ، دوزخ کی بجھاؤ آمد محبوب ہے


خوش دلی سے خرچ کر کے مال و دولت چاہ میں
اپنی قسمت کو جگاؤ آمد محبوب ہے


محفلیں ذکر نبی کی جا بجا کر کے عطا
رابطہ حق سے ملاؤ آمد محبوب ہے

( علامہ محمد اکمل عطاقادری )


پیارے اسلامی بھائیو !
عقل مند سائل یقیناً اسے ہی کہا جائے گا کہ جو سخی کا دریائے کرم جوش میں دیکھ کر دست سوال دراز کرنے میں دیر نہ کرے ، کیونکہ ایسے موقع پر کریم کی بارگاہ سے ان انعامات کی بارش ہوتی ہے کہ جن کا عام حالات میں انسان تصور بھی نہیں کر سکتا ۔
عاشقوں کی عید یعنی عید میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم بھی ایسا ہی با برکت اور پر نور موقع ہے ، کہ جس کی آمد کی بناء پر تمام سخیوں کو سخاوت کی خیرات تقسیم فرمانے والے ربِ سرکار عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا دریائے سخاوت انتہائی جوش پر ہوتا ہے ، پس عقل مند و موقع شناس طالب کرم کو چاہیے کہ جشن ولادت کا اہتمام کرنے کے ذریعے ‘‘ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دست سوال دراز کرنے اور بارگاہ الہٰی عزوجل سے دنیوی اور اخروی نعمتوں اور حتمی فلاح و کامرانی کا مستحق بننے میں دیر نہ کرے اور اس سعادت عظمٰی کے حصول میں رکاوٹ بننے والے شیطانی وسوسوں کو دل میں جگہ بھی نہ دے کیونکہ جہاں اس مبارک ترین موقع پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کرم نوازی کے بہانے تلاش کر رہی ہوتی ہے وہیں شیطان بھی اپنے ‘‘ رفقاء‘‘ سمیت ، امّت سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو اس نعمت سے مکمل طور پر فیض یاب ہونے سے محروم و نامراد کرنے کیلئے مصروف عمل ہوتا ہے۔
الحمدللہ! “ سگ عطار “ نے بھی دلچسپ انداز میں بزرگان دین کی اتباع میں، اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حصول اور بارگاہ رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم میں سرخروئی، امید شفاعت اور سادہ لوح اسلامی بھائیوں اور بہنوں کو شیطانی دسترس سے محفوظ رکھنے کیلئے چند سطریں تحریر کرنے کی سعادت حاصل کی ہے امید واثق ہے کہ اس انداز دلچسپ کو نگاہ پسندیدگی سے دیکھا جائے گا “ اس رسالے کی تکمیل صرف بزرگوں کا فیض ہے، ہاں اس میں موجود اغلاط سگ عطار کا کارنامہ ہے۔“
اس رسالے میں موجود کرادر ایک اعتبار سے حقیقت اور ایک حیثیت سے فرضی ہیں، بہرحال مقصود کا حاصل ہو جانا دونوں صورتوں میں سے کسی کو بھی تسلیم کرلینے پر، اللہ تعالیٰ کی عطا سے متوقع ہے اس رسالے میں بارھویں شریف کے متعلق وسوسوں کا نہ صرف جواب دیا گیا بلکہ عید میلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم منانے کا طریقہ، اس کی فضیلت، رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و کمالات و معجزات اور آپ کی ولادت و رضاعت کے واقعات کو بھی مستند کتب تاریخ سے نقل کرنے کا شرف حاصل کیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس کوشش مختصر کو اپنی بارگاہ بےکس پناہ میں قبول و منظور فرمائے اور اسے امیر اہلسنت امیر دعوت اسلامی حضرت علامہ مولانا ابوالبلال محمد الیاس عطار قادری رضوی دامت برکاتہم العالیہ اور قبلہ سید عبدالقادر “ باپو شریف “ مدظلہ العالی سمیت تمام اہلسنت اور مشائخ عظام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کیلئے خصوصاً اور عوام اہلسنت کیلئے عموماً بلندیء درجات کا سبب بنائے۔
آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
(اے اللہ عزوجل قبول فرما امانت دار نبی کی عظمت اور بزرگی کے وسیلے سے ان پر اللہ تعالیٰ، رحمت اور سلام نازل فرمائے)
طالب مدینہ و بقیع و مغفرت
محمد اکمل عطار قادری
3 صفرالمظفر 1420ھ
ایک نوجوان نماز فجر باجماعت ادا کرنے کے بعد سر جھکائے، نگاہیں نیچی کئے، انتہائی عقیدت و محبت کے ساتھ اپنے محسن اعظم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں درود و سلام کے نذرانے پیش کرتا ہوا، چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا ہوا، مسجد سے گھر کی جانب رواں دواں تھا، ایک دینی ماحول سے وابستگی سے اللہ تعالیٰ کی رحمت نے اسے مکمل طور پر اپنی آغوش میں لیا ہوا تھا، چنانچہ اس کے سر پر عمامہ شریف اور زلفیں، چہرے پر داڑھی شریف، بدن پر سفید لباس، سینے پر بائیں جانب جیب میں نمایاں طور پر مسواک شریف اور چہرے پر “ عبادت پر استقامت اور گناہوں سے مکمل طور پر پرہیز کی برکت سے “ نورانیت کی جلوہ گری تھی۔ اس سنتوں کے چلتے پھرتے نمونے پر نظر پڑتے ہی جاں نثاران مصطفٰی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم یعنی صحابہءکرام علیہم الرضوان کی “ اتباع سنت میں دیوانگی کی یاد “ تازہ ہو رہی تھی جب یہ متقی و باعمل نوجوان ایک باغ کے پاس سے گزرا تو باغ میں موجود پانچ چھ فیشن ایبل نوجوانوں کی نگاہ اس پڑ گئی اس شرم و حیاء کے پیکر کو دیکھ کر انھیں دل میں عجب سکون و اطمینان اترتا ہوا محسوس ہوا، گناہوں بھری زندگی پر ندامت محسوس ہونے لگی اور اللہ تعالیٰ کے “ اس نوجوان کو اپنے انعامات کے لئے منتخب کر لینے پر “ رشک آنے لگا ان میں سے ایک نے اپنے دوستوں سے کہا “ یار دیکھو! اس کے چہرے پر کتنا نور ہے، داڑھی اس کے چہرے پر کتنی پیاری لگ رہی ہے۔“ دوسرا بولا “ ہاں واقعی بہت نورانی چہرہ ہے، بس یار یہ سب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی فرمانبرداری کا انعام ہے، ہماری طرح تھوڑا ہے کہ سارا سارا دن الٹے سیدھے کام کرتے پھرتے ہیں۔ “ اس کے خاموش ہونے پر تیسرا بولا “ یار! اگر تم پسند کرو تو اس سے بارہ وفات ( پنجاب سائیڈ پر بارھویں شریف کے لئے عوام الناس میں اکثر یہی اصطلاح معروف ہے ) کے بارے میں کچھ پوچھیں، کل ہم سوچ ہی رہے تھے کہ کسی دیندار آدمی سے اس کے بارے میں کچھ پوچھیں گے۔ “ سب نے اس کی رائے پر رضا مندی کا اظہار کیا، چنانچہ ایک بولا “ ہاں یہ بالکل ٹھیک ہے ویسے بھی آج چھٹی کا دن ہے، اپنے پاس ٹائم بھی کافی ہے، اس سے معلوم کرتے ہیں اگر یہ کچھ وقت دے دے تو مزہ آ جائے۔“ یہ طے کرنے کے بعد وہ سب اس نوجوان کے قریب پہنچ گئے ان میں سے ایک نے جھجکتے ہوئے کہا “ بھائی صاحب! ہمیں آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔“ نوجوان نے آواز سن کر پلٹ کر ان کی جانب اپنی سرمگیں آنکھیں اٹھائیں، ان پر نگاہ پڑتے ہی اس کا دل غم کے گہرے سمندر میں غوطے کھانے لگا، اسے “ امت کے غم میں رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے رونے، راتوں کو جاگ جاگ کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں امت کے گناہگاروں کے لئے مغفرت کا سوال کرنے اور اس کے جواب میں امت کا بےمروتی اور احسان فراموشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس معصوم و غمخوار آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی سنتوں نے منہ موڑ کر، ان کے دشمنوں کے طریقے اپنانے نے تڑپا دیا بہرحال اس نے دل کو سنبھالتے ہوئے اور سنت کے مطابق گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے، سب سے پہلے انھیں سلام کیا۔ سلام سنتے ہی وہ نوجوان شرمندہ ہو گئے، جھینپتے ہوئے فوراً جواب دیا، نوجوان نگاہیں نیچی کئے ملائمت سے گویا ہوا،
“ پیارے اسلامی بھائیو! الحمدللہ عزوجل، ہم مسلمان ہیں اور اللہ تعالیٰ کے سب سے محبوب ترین نبی ( علیہ الصوٰۃ و السلام ) کی امت میں پیدا کئے گئے ہیں، چنانچہ ہمیں اپنی گفتگو کا آغاز بھی اپنے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اور اسلامی طریقے کے مطابق کرنا چاہیے۔ حضور پرنور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے “ سلام بات چیت کرنے سے پہلے ہے “ (ترمذی) وہ “ اصل میں ہمیں خیال نہ رہا تھا، آئیندہ ضرور خیال رکھیں گے “ ایک نوجوان نے مذید شرمندگی محسوس کرتے ہوئے جلدی سے کہا۔ “ چلیں آئندہ ضرور خیال رکھئے گا، ان شاءاللہ عزوجل برکت ہوگی حکم فرمائیے میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں ؟“ نوجوان نے عذر قبول کرتے ہوئے حسب سابق شفقت سے کہا۔ ان میں سے ایک، سب کی طرف سے نمائندگی کرتے ہوئے بولا، “ وہ کل ہم سب بارہ وفات کے بارے میں آپس میں بحث کر رہے تھے اور اس کے متعلق بےشمار سوالات ہمارے ذہنوں میں موجود ہیں ہم چاہ رہے تھے کہ آپ ہمیں کچھ وقت دے کر اس کے بارے میں تفصیل سے بتائیں اور ہمارے سوالوں کے جواب دے کر ہمیں مطمئن کر دیں تو بہت مہربانی ہوگی، ویسے بھی آج چھٹی کا دن ہے، آپ کے پاس بھی کچھ نہ کچھ وقت ضرور ہو گا۔ “ ان کی درخواست سن کر، نوجوان کو دینی ماحول سے وابستہ رہتے ہوئے طویل عرصے تک سنتوں کی خدمت کرنے کے باعث، یہ نتیجہ اخذ کرنے میں دیر نہ لگی کہ ان نوجوانوں کا تعلق مسلمانوں کے اس گروہ سے ہے کہ جو گھروں میں دینی ماحول نہ ہونے کی بناء پر علوم دینیہ سے محروم رہتے ہیں اور پھر اس پیاس کو بجھانے کیلئے بعض اوقات ان لوگوں کے ہاتھ چڑھ جاتے ہیں کہ جن کا کام ہی یہ ہے کہ بھرپور کوشش کرکے کسی بھی طرح مسلمانوں کے دل سے عظمت مصطفٰی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نکال کر انھیں ذات نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اور دیگر بزرگان دین پر تنقید کا عادی بنا دیا جائے بلکہ ان کی سوچ کو اتنا ناپاک کر دیا جائے کہ وہ جب بھی اپنے نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس پر غور کریں تو صرف اور صرف کوئی عیب یا کمی ڈھونڈنے کیلئے۔“ یہ خیال آتے ہی اس نے تہیہ کر لیا کہ ان شاءاللہ عزوجل جتنا بھی ممکن ہو سکا وسوسوں کی کاٹ کرکے ان کے دلوں میں اپنے پیارے پیارے مدنی آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت اور بارھویں شریف کی محبت ہمیشہ ہمیشہ کیلئے راسخ کرنے کی کوشش کروں گا۔“ چنانچہ اس نے جواب دیتے ہوئے کہا،
“ پیارے اسلامی بھائیو! ویسے تو میری مصروفیات بہت زیادہ ہیں اور علمی دولت کی کثرت کا دعوٰی بھی نہیں کرتا، لیکن آپ کے جذبے کے پیش نظر کچھ نہ کچھ وقت ضرور نکالوں گا اور جتنا بھی ممکن ہو سکا آپ کے سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کروں گا، بہتر ہے کہ کہیں بیٹھ جائیں تاکہ اطمینان سے گفتگو ہو سکے “ وہ نوجوان مرضی کے عین مطابق نتیجہ نکلنے پر بہت خوش ہوئے بولے “ اندر باغ میں بیٹھتے ہیں ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا میں گفتگو کرنے کا بہت لطف آئے گا “ مشورے پر عمل پیرا ہوتے ہوئے سب ایک درخت کے نیچے پہنچے اور پھر تمام نوجوان، باعمل نوجوان سے کچھ فاصلہ پر حلقے کی شکل میں بیٹھ گئے “ میرے خیال میں گفتگو شروع کرنے سے پہلے آپس میں تعارف نہ کروا لیا جائے ؟“ ان میں سے ایک نوجوان بولا “ ہاں کیوں نہیں، سب سے پہلے میں ہی اپنا تعارف کرواتا ہوں، میرا نام احمدرضا ہے اور حال ہی میں، میں نے کیمیکل انجینئرنگ میں ڈپلومہ کیا ہے۔“ باعمل نوجوان نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ نوجوان یہ سن کر بہت حیران ہوئے، ان میں سے ایک گویا ہوا “ کیا آپ نے بھی دنیاوی تعلیم حاصل کی ہے ؟“
احمد رضا: جی ہاں، لیکن آپ یہ سن کر اتنے حیران کیوں ہو گئے ؟
نوجوان: اس لئے کہ ہمارا تو خیال تھا کہ جتنے بھی داڑھی عمامے والے ہوتے ہیں، سب کے سب دنیا سے بالکل الگ تھلگ رہتے ہیں، دنیاوی تعلیم سے نہ صرف نفرت رکھتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی اس کے حاصل کرنے سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں، صرف اور صرف دینی کتابیں ہی پڑھتے ہیں۔
احمدرضا: نہیں یہ بالکل غلط خیال ہے اور دین داروں سے بدظن اور دور رکھنے کیلئے شیطان کی طرف سے مشہور کی ہوئی بات ہے کیونکہ نہ تو دین اسلام ہمیں اس سے منع فرماتا ہے اور نہ کوئی مدنی ماحول اس کا مخالف ہے ہاں اتنا ضرور ہے کہ یہ علوم، شریعت کے دائرے میں رہ کر سیکھے جائیں اور نیت کو اچھا رکھا جائے اور ان کی وجہ سے دین اسلام کی پاکیزہ تعلیم کو حقیر و معمولی سمجھ کر نظر انداز نہیں کرنا چاہئیے۔ چنانچہ ہم بھی دنیاوی علوم پڑھتے ہیں، لیکن ساتھ ساتھ دین اسلام سے متعلق ضروری معلومات حاصل کرنے کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔
نوجوان: واہ، یہ تو بہت اچھی بات ہے، اچھا ہوا کہ آج آپ سے ملاقات کی برکت سے یہ مسئلہ بھی حل ہو گیا اچھا اب میں اپنا اور باقی دوستوں کا تعارف بھی کرادوں، میرا نام جاوید ہے، سب سے پہلے ٹونی ہے، پھر جانی ہے، پھر پرویز ہے، یہ شان ہے اور آخر میں ساگر ہے یہ نام سن کر احمدرضا کے چہرے پر افسردگی کے آثار نمایاں ہو گئے۔
جاوید: خیریت تو ہے آپ کچھ افسردہ دکھائی دینے لگے کیا ہماری کوئی بات ناگوار لگی ہے ؟
احمدرضا: غمگین ہونے کی وجہ انشاءاللہ عزوجل بعد میں عرض کروں گا، آپ ارشاد فرمائیے کیا پوچھنا چاہتے ہیں؟
جاوید: میں ان سب کی طرف سے سوالات کرتا جاؤں گا آپ جوابات عنایت فرماتے جائیے۔
سوال: بارہ وفات کیا ہے ؟ اور اسے یہ نام کیوں دیا گیا ہے ؟
احمدرضا: دراصل اسے بارہ وفات کہنا ہی نہیں چاہئیے بلکہ اسے عید میلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم“، “بارھویں شریف“، “عیدوں کی عید“ یا “عاشقوں کی عید“ کہنا چاہئیے  کیونکہ ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو محبوب کبریا سیدالانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم دنیا میں جلوہ افروز ہوئے تھے اس لئے اسے بارھویں شریف کہتے ہیں، اور چونکہ لغوی اعتبار سے عید وہ دن ہوتا ہے کہ جس میں کسی صاحب فضل یا کسی بڑے واقعے کی یادگار منائی جاتی ہو (مصباح اللغات) اور یقیناً ہمارے پیارے آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت سے زیادہ صاحب فضل شخصیت اور آپ کی ولادت مبارکہ سے زیادہ اہم واقعہ اور کون سا ہو گا ؟ لٰہذا اسے “عید میلادالنبی“ یا “عیدوں کی عید“ یا “عاشقوں کی عید“ بھی کہہ دیتے ہیں-
سوال: تو پھر اسے بارہ وفات کیوں کہتے ہیں ؟
احمدرضا: بعض لوگوں کا خیال ہے کہ رحمت عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا وصال شریف بارہ ربیع الاول کو ہوا چنانچہ اس اعتبار سے اسے بارہ وفات کہہ دیتے ہیں لیکن ص


This post first appeared on الجیلانی, please read the originial post: here

Share the post

عاشقوں کی عید

×

Subscribe to الجیلانی

Get updates delivered right to your inbox!

Thank you for your subscription

×