Get Even More Visitors To Your Blog, Upgrade To A Business Listing >>

زوال پذیر امریکی شہنشاہیت.......

امرہکھ کو اپنی اس معیشت پر ناز تھا جو دنیا کی معیشت 30 فیصد سے زیادہ تھا اور جس کا دفاعی بجٹ 20 بڑے ملکوں کے بجٹ سے بھی زیادہ تھا ۔ اس تصور کو امریکی قومی یکجہتی نے مہمیز دی اور اس نے طالبان کو شکست دینے کا عزم کیا اس سرزمین کے باشندوں پر حملہ کردیا جنہوں نے کبھی کسی غیر کی حکمرانی قبول نہیں کی۔امریکی دانشور، معیشت کے ماہر، تاریخ داں اور جنرل حضرات یہ کہتے تھے کہ تاریخ عالم میں اس قدر طاقت کا حامل کوئی اور ملک نہیں رہا جتنا کہ 9/11 سے پہلے امریکہ تھا۔اور اسی سوچ نے ”دہشت گردی کے خلاف جنگ“ کے نعرہ کو جنم دیا۔ یہ بالادستی کو دنیا سے قبول کرانے کا ایک اظہار تھا۔ ان دانشوروں کا اصرار تھا کہ اگر ہم 9/11 کے بعد کوئی عملی قدم نہیں اٹھاتے ہیں تو یہ ایک قسم کی ناکامی کا اظہار ہوگا جو ہمیں بالادستی سے دور کردے گا۔ انہوں نے نہ صرف افغانستان پر حملے کی سوچ کو ہوا دی بلکہ اسرائیل دشمن ملک عراق کو سرنگوں کرنے کا عزم کیا۔ اس کے لئے حکومتوں کی تبدیلی کا سلسلہ بھارت سے شروع کیا پھر پاکستان اور پھر عراق تک پہنچا۔ 9/11 کے بعد اُن کا افغانستان کے سلسلے میں ردعمل غیر منصفانہ اور غیر دانشورانہ تھا۔ امریکہ کا کوئی دشمن ہی اس قسم کا ردعمل کرکے افغانستان میں پھنسنے کا سوچ سکتا ہے اور روس کی مثال موجود تھی کہ جو یہاں پھنسا۔ رسوا ہو کر نکلا روسی جنرل کے وہ الفاظ سے بھی امریکہ رہنمائی حاصل نہ کرسکے جس نے کہا تھا کہ یہ سرزمین ناقابل تسخیر ہے۔ اگر امریکی صرف اسامہ بن لادن کو پکڑنے یا اُس کو سزا دینے کا ارادہ کرتے اور کسی بڑی جنگ میں نہ پھنستے تو آج امریکہ کا زوال شروع نہ ہوتا۔ یہی فیصلہ تھا جس نے امریکہ کی بالادستی کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ افغانی بجا طور پر کہتے ہیں کہ امریکہ کے ہاتھ میں گھڑی بندھی ہوئی ہے اور ہمارے پاس وقت ہے، زمین ہماری ہے، وقت ہمارے ساتھ ہے، امریکہ کب تک اس سرزمین پر قدم جمائے رکھ سکتا ہے، ہم اس کو تھکا کر بھگا دیں گے سو وہ ایسا کررہے ہیں۔ اُن سے مذاکرات کررہے ہیں اور پھر غائب بھی ہوجاتے ہیں۔ اصل مذاکرات کبھی شروع ہی نہیں ہوئے۔ کوئی طالع آزما اور کبھی پرانے طالبان رہنما یا رہنماؤں کے ساتھ رہنے والے امریکیوں سے مذاکرات کرنے آجاتے ہیں اور امریکیوں کو دھوکہ دے کر لوٹ کر چلے جاتے ہیں۔ امریکہ کو اب ہر ماہ 10 بلین ڈالر خرچ کرنا پڑ رہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں اس کی معیشت کا تیل نکل گیا ہے اور مظاہرے شروع ہوگئے ہیں۔ اس نے ملک میں بین الاقوامی حمایت بھی کھو دی ہے۔ جو اس نے 9/11 کے بعد حاصل کی تھی۔ ریٹائرڈ ہونے والے امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس یورپ میں جا کر شکایت کرتے ہیں کہ یورپین یہ تو چاہتے ہیں کہ یانکیز اُن کی حفاظت کریں مگر وہ یانکیز کی جنگ لڑنے کو تیار نہیں۔
عراق پر حملے میں علاقائی کونسل کی حمایت شامل حال نہیں رہی اور مسلمانوں نے یہ سمجھا کہ وہ مسلمانوں پر حملہ ہے۔ اس صورت حال میں اسامہ نے امریکہ کو افغانستان میں پھنسا کر سوویت یونین کی طرح امریکہ کو بھی افغانستان میں تباہ کرنے کا سوچا۔ دس سال میں سوویت یونین تباہ ہوگیا تھا اور دس سال میں امریکہ تباہی کے کنارے پر پہنچ گیا ہے۔ حالت یہ ہوگئی ہے کہ اگر دو مجاہدین ایک کپڑے کے ٹکڑے پر القاعدہ لکھ کر کھڑے ہوجائیں تو امریکہ کی بہترین فوج، طیارے، میزائل اس طرف چل پڑیں گے۔ کیا ہی اچھا طریقہ ہے جو اسامہ بن لادن نے امریکیوں کو تباہ کرنے کا بنایا۔وہ مار دیا گیا مگر امریکہ تباہی کے کنارے پر کھڑا ہے۔ ایسے وقت جب امریکہ کی حالت غیر ہے۔ وہ اس پاکستان سے جو اُس کی مدد کرسکتا ہے لڑنے اور اسے ڈرانے کے لئے قدم اٹھا رہا ہے پاکستان اٹھ کھڑا ہوا تو امریکہ کو دنیا کے ہر کونے میں القاعدہ کے دو مجاہدین ایک گز کپڑے پر القاعدہ لکھے ہوئے نظر آئیں گے۔ بن لادن نے درست ہی کہا تھا کہ وہ امریکہ سے اس وقت تک لڑتے رہیں گے جب تک وہ معاشی، فوجی اور ہر طرح سے تباہ نہ ہوجائے۔ اس وقت امریکہ افغانستان میں 4 ٹریلین ڈالر خرچ کر چکا ہے۔ امریکہ دراصل اپنے دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیلا اس نے وہی کیا جو اُس کے دشمنوں نے اس سے کروانا چاہا اور امریکہ کی عالمی بالادستی کی عمر کم کردی۔امریکہ اگر دانش کا دامن پکڑے تو پاکستان کے بارے میں یہ سوچ ختم کرے کہ وہ کسی طور پر امریکہ کے سانچہ میں ڈھل جائے گا یا وہ بھارت کے بارے میں امریکہ کے خیالات اپنا لےگا۔
امریکہ پاکستان کو چاہے دبانے کی کوشش یا لبھانے کے لئے اسے مالی امداد دے اس میں اُس کو ناکامی ہوگی کیونکہ پاکستان بھارت کی نفسیات اور اس کے عزائم کو سمجھتا ہے اور پاکستان یہ بھی جانتا ہے کہ امریکہ کی افغانستان میں جنگ پاکستان کی جنگ نہیں ہے۔ اسامہ نے مرنے سے پہلے امریکہ کی عالمی بالادستی کو ختم نہیں کیا تو کم از کم اُس کے زوال کے عمل کو تیز کردیا ہے۔ امریکہ کے امراء اقتدار اور نئے قدامت پسند دانشوروں نے امریکی صدر جارج بش کے ذہن پر قبضہ کرکے اُس کو حملوں کے سلسلے میں پھنسا کر امریکی کی بالادستی کا خاتمے کی ابتدا کی ۔ انہوں نے عظیم مشرق وسطیٰ اور دھماکہ اور ششدر کرنے کی پالیسی اختیار کرکے واحد قطبی دنیا بنانے کا فلسفہ دیا اور نئی امریکی صدی بنانے کی سعی کی۔ امریکہ نے قدامت پسند دانشوروں ولیم کرسٹول اور رابرٹ کاگن کے علاوہ برزنسکی نے اس بالادستی کو اس وقت تک قائم رکھنے کا عزم کیا جب تک ممکن ہوسکے مگر وہ اب صرف سراب ثابت ہوا اور امریکی شہنشاہیت زوال پذیر ہوگئی ہے۔


This post first appeared on Kot Kamboh, please read the originial post: here

Share the post

زوال پذیر امریکی شہنشاہیت.......

×

Subscribe to Kot Kamboh

Get updates delivered right to your inbox!

Thank you for your subscription

×