Get Even More Visitors To Your Blog, Upgrade To A Business Listing >>

پاکستان اسٹیل مل : ڈیڈ اثاثہ

پاکستان کے مالی بحران کی ایک بڑی وجہ حکومتی کنٹرول میں موجود خسارے والے ادارے ہیں۔ ان میں پاکستان ریلوے ، پی آئی اے، نیشنل ہائی وے اتھارٹی، پاکستان اسٹیل مل اور بجلی بنانے والی کمپنیاں سرفہرست ہیں۔ نگران وزیر نجکاری فواد حسن فواد نے ایک پریس کانفرنس میں حقائق سے پردہ اٹھایا ہے کہ 2020 تک ان اداروں کے نقصانات جی ڈی پی کے سات فیصد کے مساوی تھے جو اب کہیں زیادہ بڑھ چکے ہیں۔ پی آئی اے اورا سٹیل مل سمیت 15 بڑے اداروں کے ذمے ہزاروں ارب روپے کا قرضہ ہے۔ اس رقم سے 10 یونیورسٹیاں، بھاشا ڈیم اور ایم ایل ون کا پورا ٹریک بن سکتا تھا۔ اسٹیل مل ایک ایسا ادارہ ہے جس کی نجکاری چاہتے ہوئے بھی ممکن نہیں ہو رہی۔ وزیر نجکاری کا اسے ڈیڈ اثاثہ قرار دیتے ہوئے کہنا ہے کہ پاکستان اسٹیل مل کی نجکاری ہو سکتی ہے نہ ہی بحالی۔ ادارے کا خسارہ 230 ارب کے قریب ہے اور موجودہ کپیسٹی پر چلانے کیلئے 585 ملین ڈالر کی ضرورت ہے۔

اسٹیل مل پاکستان میں اسٹیل کی کمی اور ضروریات پوری کرنے اور غیر ملکی زرمبادلہ میں اضافہ کرنے کے ارادے سے بنائی گئی تھی جس کیلئے 1973 میں 19000 ایکڑ زمین الاٹ کی گئی اور اسٹاف کیلئے تقریباً 4500 گھر بنائے گئے۔ 55 میگا واٹس کے تین تھرمل پاور پلانٹس، دنیا کی تیسری بڑی لوڈنگ اور ان لوڈنگ کی سہولت، ڈھائی ایکڑ پر محیط انڈر گراؤنڈ سرنگیں ہیں۔ پاکستان اسٹیل کی موجودہ زمین کی مارکیٹ ویلیو بیسیوں کھرب بنتی ہے جسے اب بند کر کے ایکسپورٹ پروموشن زون بنانے کی تجویز سامنے آئی ہے۔ 1970 کے عشرے میں تمام بڑی صنعتوں کو قومیا لیا گیا جو معاشی تباہی کا باعث بنا۔ بعد میں نجکاری کے پروگرام بنائے گئے لیکن اس کی راہ میں رکاوٹیں حائل رہیں۔ اسٹیل مل کی نجکاری بھی سپریم کورٹ نے ایک سوموٹو ایکشن لے کر روک دی تھی۔ اب ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے شفافیت کے ساتھ نجکاری کاعمل ضروری ہو گیا ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ



This post first appeared on All About Pakistan, please read the originial post: here

Share the post

پاکستان اسٹیل مل : ڈیڈ اثاثہ

×

Subscribe to All About Pakistan

Get updates delivered right to your inbox!

Thank you for your subscription

×