Get Even More Visitors To Your Blog, Upgrade To A Business Listing >>

کورونا آزمائش : جذبہ ایثار کہاں ہے؟

مشاہدات ہیں کہ ملک بھر میں بسنے والے اہلِ ثروت کی طرف سے ضرورتمندوں کی مدد کے لیے جس ایثار اور قربانی کی مثالیں قائم کی جانی چاہئیں تھیں ، قائم نہیں کی جا سکی ہیں ۔ ایثار کے حوالے سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مسلمان دولتمندوں سے تو لا مذہب چین کا ایک دولتمند شخص (جیک ما) ہی عظیم ثابت ہُوا ہے جس نے اپنی محنت کی کمائی سے 5 ارب ڈالرز کی بھاری رقم کورونا وائرس کے متاثرین کی مدد کے لیے وقف کر دی ہے ۔ اس امداد سے پاکستان کے غریب عوام بھی مستفید ہو سکیں گے ۔ کاش ہمارے ہاں بھی کوئی ایسا شخص اُٹھتا!!
کورونا زدگان کی اعانت اور کورونا کی وبا میں ضرورتمندوں کی دستگیری کے لیے ’’فیس بک‘‘ کے ادارے نے بھی Solidarity Response Fund کو 10 ملین ڈالر کا عطیہ دیا ہے ۔ چین، بھارت اور امریکا میں دولتمند افراد اگر کورونا وائرس کی اس وبا کے دوران ایثار سے کام لینے اور انسانیت سے محبت کرنے کی مثالیں قائم کر رہے ہیں تو ایسی مثالیں برطانیہ میں بھی جنم لے رہی ہیں ۔ افسوس یہ ہے کہ عالمِ اسلام میں ابھی تک ایسی کوئی بڑی مثال سامنے نہیں آ سکی ہے ۔

حالانکہ چاہیے تو یہ تھا کہ دُنیا بھر کے لیے سلامتی کے پیامبر مذہب ِ اسلام کے پیروکار سب پر بازی اور سبقت لے جاتے ۔ اگر ایسا ہوتا تو ہم مسلمان ساری دُنیا کو انسانیت نوازی، امن اور سلامتی کا عملی پیغام دے سکتے تھے ۔ ایثار کی لاتعداد مثالیں ہماری اسلامی تاریخ میں جا بجا ملتی ہیں ۔ ہمارے پُر شکوہ اسلاف کی یہ مثالیں اب بھی ہماری طاقت بن سکتی ہیں۔ ان مثالوں کو آگے بھی بڑھایا جا سکتا تھا اور ان میں اضافے کے لیے ہمارے پاس نیا ماحول بھی پیدا ہُوا ہے۔ شائد ہم اس نئے ماحول سے بھرپور اسپرٹ کے ساتھ فائدہ نہیں اُٹھا سکے ہیں۔  پاکستان کے عوام دُنیا بھر میں فلاحی کام کرنے اور اپنے ذاتی خرچے پر غریب طبقات کی دستگیری کرنے میں سرِ فہرست مقام رکھتے ہیں۔ لاہور ، کراچی اور اسلام آباد میں بروئے کار ایسے کئی نجی اداروں اور افراد کو راقم ذاتی حیثیت میں جانتا ہے جو کم از کم دن میں دوبار ڈھونڈ ڈھونڈ کر تہی دستوں کو کھانا فراہم کرتے ہیں ۔ اسپتالوں میں جا کر غریب مریضوں اور اُن کے لواحقین کی دامے درمے اعانت کرتے ہیں ۔

حیرانی کی بات مگر یہ ہے کہ کورونا وائرس کی اس مہلک وبا کے دوران وسیع پیمانے پر امداد فراہم کرنے والے پاکستانی افراد ، گروہ اور ادارے کم کم سامنے آئے ہیں ۔ وطنِ عزیز کی سیاسی جماعتوں ، ان کے بے تحاشہ دولتمند سیاسی قائدین اور بے اَنت دولت کے مالک سیاستدانوں کی طرف سے نہ تو نجی حیثیت میں اور نہ ہی اجتماعی حیثیت میں کورونا وبا کے غریب متاثرین کی مدد امداد کے لیے کوئی اعلان کیا گیا ہے۔ نون لیگ کے صدر جناب شہباز شریف کی طرف سے البتہ یہ اعلان ضرور سامنے آیا ہے کہ اُن کے خاندان کی نجی ملکیت میں بروئے کار اسپتال کورونا وائرس کے متاثرین کے مفت علاج معالجے کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں ۔

نون لیگ کی عظمیٰ بخاری کی طرف سے بھی اعلان کیا گیا ہے کہ ہم کورونا فنڈ قائم کر رہے ہیں جس میں سب سے پہلے نون لیگی ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی اور نون لیگی سینیٹر حضرات فنڈ میں حصہ ڈالیں گے ۔ جماعتِ اسلامی بھی کورونا متاثرین کے غریب متاثرین کا ہاتھ تھامتے کہیں کہیں نظر آ رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کی دولتمند قیادت نجی حیثیت میں نجانے کیوں خاموش ہے ؟ واقعہ یہ ہے کہ آزمائش کی ان گھڑیوں میں ہمارے دولتمند سیاستدانوں کی جانب سے عوام کے لیے ایثار کی جو قابلِ تقلید مثالیں قائم کی جانی چاہئیں تھیں ، نہیں کی جا سکی ہیں کیا یہ المیہ نہیں ہے؟ عوام اُن سیاستدانوں کو خوب جانتے ہیں جو اربوں کے مالک ہیں۔ جو کروڑوں اربوں کے فارم ہاؤسز اور محلات میں رہتے ہیں۔ عوام انھیں بھی خوب جانتے پہچانتے ہیں جو پاکستان کو لُوٹ کھسوٹ کر دولت غیر ممالک میں لے گئے لیکن مصیبت کے اِن ایام میں بھی ضرورتمند عوام کی مدد کرنے کے لیے اپنی بند مُٹھی کھولنے پر تیار نہیں ہیں ۔ کیا یومِ حساب ابھی نہیں آیا ؟؟

تنویر قیصر شاہد  

بشکریہ ایکسپریس نیوز



This post first appeared on All About Pakistan, please read the originial post: here

Share the post

کورونا آزمائش : جذبہ ایثار کہاں ہے؟

×

Subscribe to All About Pakistan

Get updates delivered right to your inbox!

Thank you for your subscription

×