Get Even More Visitors To Your Blog, Upgrade To A Business Listing >>

قرضوں میں جکڑا ہوا ملک اور ہمارے حکمران

ہمارا ملک ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے بھاری قرضوں اور سود کی ادائیگی میں جکڑا ہوا ہے۔ اخبارات اور ٹی وی چینلز کی خبروں کے بارے میں تحقیق کے مطابق اب تک قرضہ 62 ہزار 880 ارب روپے ہو گیا ہے۔ رپورٹ بھی آئی ایم ایف کو پیش کر دی گئی ہے۔ ملکی قرضہ 38 ہزار 809 ارب جب کہ غیر ملکی قرض 24 ہزار 71 ارب ہو گیا ہے۔ گزشتہ مالی سال میں 13 ہزار 638 ارب اضافہ ہوا ہے جب کہ قرض پر سود کا حجم 3 ہزار 182 ارب سے بڑھ کر 5 ہزار 671 ڈالر تک بڑھ گیا ہے۔ وفاقی حکومت کے ذمے 72 ارب ڈالر واجب ہے۔ اس دوران پاکستان کی کرنسی کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں 204.4 سے گر کر 286.4 روپے تک ہو گئی ہے۔ وزارت خزانہ کے ڈائریکٹوریٹ جنرل ڈیٹ کی جانب سے تیارکردہ رپورٹ میں آئی ایم ایف کو بتایا گیا ہے کہ گزشتہ مالی سال میں ملکی قرض 7 ہزار 724 ارب روپے بڑھ کر 31 ہزار 685 ارب سے 38 ہزار 809 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ غیر ملکی قرض 5 ہزار 914 ارب سے بڑھ کر 18 ہزار 157 ارب سے 24 ہزار 71 ارب روپے ہو گیا ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں ملکی قرضہ جی ڈی پی کے 46.7 فی صد سے بڑھ کر 45.8 فیصد تک پہنچا ہے اور غیر ملکی قرض 27.3 فی صد سے بڑھ کر 28.4 فی صد پہنچا ہے، ملک پر واجب الادا قرض پر سود کی ادائیگی 3 ہزار 182 ارب سے بڑھ کر 5 ہزار 671 ارب ڈالر تک آگئی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سرکاری اداروں کے لیے ریاستی گارنٹی پر لگائے گئے قرض کا حجم 14 ارب 60 کروڑ ڈالر تک ہے۔ آئی ایم ایف سے لیا گیا قرض 37 ارب 91 کروڑ ڈالر اور دیگر ملکوں کا قرض 17 ارب 57 کروڑ ڈالر تک آگیا ہے جب کہ پنجاب کے لیے 5 ارب 95 کروڑ ڈالر، سندھ کے لیے 3 ارب 12 کروڑ ڈالر، کے پی کے لیے 2 ارب 5 کروڑ ڈالر، بلوچستان کے لیے 30 کروڑ ڈالر، گلگت بلتستان کے ذمے 5 کروڑ 93 لاکھ اور وفاقی حکومت کے ملکی قرضے کا حجم 72 ارب 34 کروڑ ڈالر۔ اس کا پریس کلب کا قرض ایک گورکھ دھندا جاری ہے۔ دوسری طرف ہمارے حکمران مرکزی ہوں یا صوبائی، سینیٹ چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین سابق ہوں یا موجودہ وزیر ہوں، سفیر ہوں، مشیر ہوں یا پھر اشرافیہ سب ہی مراعات یافتہ ہیں۔ ان کی تنخواہیں یا پھر الاؤنسز سب کچھ مفت ہے۔ پٹرول، ڈیزل، بجلی، گیس، اسپتال اور میڈیکل کی مفت سپلائی ساتھ بھی ملازمین کی بھاری تعداد بڑی گاڑیاں بڑے بڑے بنگلے مفت کی پروٹوکول سب کچھ فری اور مفت میں مل رہا ہے۔ بڑی بڑی جاگیریں ہیں زمینوں پر کاشت کاری سے لے کر شوگر مل مالکان، فیکٹری مالکان، بینکوں اور انشورنس کمپنی کے مالکان، دواؤں کی فیکٹریاں، بڑے شاپنگ مالزکے مالکان، شادی ہالوں کے مالکان، ہوائی جہاز اور فوکر طیاروں کے مالکان، بڑی بڑی گدی کے پیر اورسب ہی بلکہ ہمارے ملک اور صوبوں کے مالکان کہاں تک لکھوں بلکہ ہماری غربت، جہالت، بیماری اور اسپتالوں کے مالکان۔ 

اب تو ملک کے ہوائی اڈے فروخت ہو رہے ہیں۔ پی آئی اے، ریلوے، اسٹیل مل اور ہمارے ہائی ویز بھی گروی رکھ دیے گئے ہیں۔ سرکاری اور غیر سرکاری ملازمین کی کم ازکم تنخواہ جو کہ آپ کے اعلان کے مطابق 32 ہزار مقرر کی گئی کم ازکم اس پر تو عمل درآمد کرا دو۔ تمام ٹی ایل اے اور کچے ملازمین کو مستقل ملازمت دے دو سیلاب زدگان کے گھر تو بنا دو۔ تعلیمی ادارے ہی ٹھیک کر دو، اپنے اسپتالوں میں دوائیں تو دے دو۔ ایک ایک گھر تو انھیں دے دو۔ ملک کو بنے ہوئے 76 سال ہو گئے ہیں۔ 50 سال پہلے تو ایسا پاکستان نہیں تھا۔ اتنی غربت اتنی بھوک اور اتنی لوٹ مار اور کرپشن تو نہ تھی۔ قائد اعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان شہید تو ایسے نہیں تھے، ان کی اتنی جائیدادیں تو نہیں تھیں اتنی رشوت اور کرپشن تو نہیں تھی۔ ذوالفقارعلی بھٹو کے پاس اسلام آباد میں کوئی رہائشی پلاٹ تو نہیں تھا، صرف پاکستان کی قومی اسمبلی کی بنیاد ہی اسلام آباد میں رکھی تھی، بس کراچی میں ایک 70 کلفٹن کا بنگلہ تھا یا پھر گڑھی خدا بخش میں اپنی پہلی بیوی کی زمینیں ورثے میں ملی تھیں۔ خیر اب تو ایک طرف جاتی عمرہ رائے ونڈ ہے اور دوسری طرف بلاول ہاؤسز ہیں۔

بے چارے بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ عبدالمالک بلوچ کے پاس شاید اتنی جائیداد نہ ہو۔ خیر اب تو ایم کیو ایم سے لے کر پاکستان کی ہر سیاسی پارٹی کے پاس ایم این اے اور ایم پی اے بڑے مالدار ہیں لیکن غریب ہاری، کسان اور مزدور کو تو کوئی اسمبلی کا ٹکٹ بھی نہیں دیتا۔ وہ روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ سوشل ازم کا نعرہ طاقت کا سرچشمہ عوام اور اسلام ہمارا دین ہو گا، کیا ہوا؟ آج اسرائیل نے 11 ہزار فلسطینیوں کو غزہ کی پٹی پر گولیاں اور بم برسا کر تباہ اور برباد کر کے رکھ دیا ہے، یورپ سمیت دنیا بھر کے عوام سڑکوں پر نکل کر اسرائیل کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں، خود بعض یہودی بھی اس کی مذمت کر رہے ہیں مگر ہمارے 57 اسلامی ممالک کے سربراہ اور ڈھائی ارب مسلمان کیا کر رہے ہیں؟  ہمارے جیسے دکھی انسان خون کے آنسو رو رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں اب چار ایشوز پر ٹی وی اور اخبارات میں خبریں آ رہی ہیں، الیکشن 8 فروری کو ہو گا جلسے جلوس جاری ہیں۔ 

ملک بھر میں ورلڈ کرکٹ کا زور شور جاری ہے۔ کراچی، سکھر، لاہور، اسلام آباد میں ہسٹری فیسٹیول ہو رہے ہیں، گانے بجانے اور قوالیاں ہو رہی ہیں، قانون کے مطابق سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں کچھ اچھے فیصلے ہو رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن الیکشن کرانے کے انتظامات میں لگا ہوا ہے۔ خیر شکر ہے کہ الیکشن کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ ملک میں شفاف الیکشن کرا کے منتخب نمایندوں کے حوالے کیا جائے گا اور تمام سیاسی جماعتوں جن میں تحریک انصاف بھی شامل ہو، الیکشن لڑنے کا اختیار دیا جائے تو ہی اس الیکشن میں مزہ آئے گا۔ ہمیں امید ہے کہ ملک سے دہشت گردی کا جلد خاتمہ ہو سکے، ملک امن کی طرف روانہ ہو سکے ملک میں تھوڑی بہت بہتر جمہوریت آ سکے اور پاکستان کے عوام کو عدالتوں سے کچھ انصاف مل سکے۔ منظر بھوپالی کا اشعار یاد آگئے۔

اونچے اونچے ناموں کی تختیاں جلا دینا
ظلم کرنے والوں کی وردیاں جلا دینا

در بدر بھٹکنا کیا دفتروں کے جنگل میں
بیلچے اٹھا لینا ڈگریاں جلا دینا

پھر بہو جلانے کا حق تمہیں پہنچتا ہے
پہلے اپنے آنگن میں بیٹیاں جلا دینا

منظور رضی  

بشکریہ روزنامہ جنگ



This post first appeared on MY Pakistan, please read the originial post: here

Share the post

قرضوں میں جکڑا ہوا ملک اور ہمارے حکمران

×

Subscribe to My Pakistan

Get updates delivered right to your inbox!

Thank you for your subscription

×