Get Even More Visitors To Your Blog, Upgrade To A Business Listing >>

جماعت کہاں کھڑی ہے؟

سیاست اقتدار کے پجاریوں میں گھری ہوئی ہے اور عملاً کئی گروہوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ اپوزیشن کی ان جماعتوں نے بھی آپس میں اتحاد کر لیا ہے اور ایک دوسرے کے دشمن بھی منافقانہ دوستی میں ڈھل چکے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ یہ منافقانہ دوستی کب تک چلے گی اور کیسے چلے گی کیونکہ جیسے ہی اقتدار کے لیے طبل جنگ بجے گا آج کے یہ سیاسی دوست ایک دوسرے کے مقابل صف آراء نظر آئیں گے اور وہ وقت زیادہ دور نہیں ہے، بس دیر ہے تو الیکشن کے اعلان کی ہے۔ ماضی میں پاکستان کی سیاست دو حصوں میں تقسیم رہی ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز۔ عمران خان کی حکومت سے پہلے دس برس کی حکمرانی میں ان دونوں پارٹیوں نے ایک دوسرے کے اقتدار کو سہارا دینے کے لیے دوستانہ اپوزیشن کا کردار بخوبی نبھایا۔ پاکستانی عوام بھی صبر شکر کر کے ان دونوں کی اقتدار میں آنیاں جانیاں دیکھتے رہے۔

یہ سلسلہ آج تک جاری رہتا لیکن قوم کے سیاسی شعور کے دانشوروں نے اس مفاداتی گٹھ جوڑ کا حل یہ نکالا کہ وہ ایک تیسری سیاسی قوت میدان میں لے آئے اور یوں عمران خان کی جماعت تحریک انصاف نے رنگ میں بھنگ ڈال دی۔ عمران خان نے پاکستانی عوام کو تبدیلی کا خوش کن نعرہ دیا‘ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے برے طرز حکمرانی کو تختہ مشق بنایا اور یوں حکمرانی اپنی جھولی میں ڈال لی۔ عمران خان کی حکمرانی کو ان دونوں جماعتوں نے روز اول سے تسلیم کرنے انکار کیا لیکن مجبوری میں بڑوں کے ڈر سے خاموشی سے وقت گزارتے رہے تا آنکہ تان تحریک عدم اعتماد پر آکر ٹوٹی ہے جس کی بڑی وجہ ساڑھے تین برس کے دور اقتدار میں عمران خان اپنے وعدوں کے برعکس صاف ستھری سیاست اور عوام کی حقیقی نمایندگی سے قاصر رہے ہیں اور عوام کے دلوں میں اتر کر ان کی نمایندگی کا جو سہانا خواب دکھایا گیا ‘ سیاست اور عوام کی زندگی میں جس تبدیلی کا شہرہ تھا وہ کوئی بڑی تبدیلی تو کجا چھوٹی سی تبدیلی سے بھی دور رہے ہیں البتہ جماندروں سیاستدانو ں کو انھوں نے پریشان ضرور کیا لیکن وہ سیاسی میدان میں کسی واضح تبدیلی کا استعارہ نہ بن سکے۔

عمران خان کی تحریک انصاف کے علاوہ پاکستان کی ایک انتہائی منظم اور نظریاتی جماعت بھی پاکستانی سیاست میں ایک مدت سے ہمارے درمیان میں موجود ہے اور وہ ہے جماعت اسلامی جو سیاست میں تو موجود ہے لیکن آج کی سیاست میں فٹ نہیں بیٹھتی۔ اس جماعت کے لوگ خوف خدا سے سرشار اور خدمت گزار ہیں۔ یہ وہ گروہ ہے جو عوام کی خدمت کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ بلاشبہ اس وقت پاکستان میں اگر کوئی صاف ستھری اور پر عزم جماعت ہے تو وہ جماعت اسلامی ہے۔ بانی جماعت سید مودودی کی تربیت کے اثرات کے باوجود کچھ لوگوں نے جماعت کو بھی ایک روایتی سیاسی جماعت بنانے کی کوشش کی لیکن جماعت کا مضبوط ڈھانچہ اور جمہوری روایات اس کوشش سے مغلوب نہ ہو سکیں۔ جماعت اسلامی حیرت انگیز حد تک ایک جمہوری جماعت ہے جس کے امیر اور دیگر عہدیدداروں کا انتخاب صاف شفاف الیکشن کے ذریعے ہوتا ہے، جس میں آمریت کی ذرہ بھر گنجائش نہیں ہے۔

آج کے سیاسی منظر نامے میں جماعت خود ایک روشن حقیقت ہے، جسے کسی قسم کی تعریف کی ضرورت نہیں ہے۔ اسلامی اور دینی نظریات جماعت کی شناخت ہیں لیکن سیاسی میدان میں کامیابیاں جماعت کے حصے میں کم ہی آئی ہیں۔ قومی دھارے میں جماعت شامل تو رہی ہے لیکن اس کا کردار بجھا بجھا رہا ہے حالانکہ جماعت جیسی بھر پور سیاسی تنظیم کے ہوتے ہوئے پاکستان میں کسی اور نئی سیاسی جماعت کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے لیکن نجانے وہ کون سے اسباب ہیں جو جماعت کو اٹھنے نہیں دیتیں ۔ آج کی بے چین سیاست میں جماعت کو اٹھانے کے لیے یہ ایک موزوں ترین وقت ہے۔ قوم اس گردو غبار میں کسی شہہ سوار کی منتظر ہے، جماعت کے کار پردازوں کو سوچنا ہے ۔عوام اس کی طرف رجوع کیوں نہیں کرتے، کہیں تو خرابی ہے جو عوام کو جماعت اسلامی کے حق میں فیصلہ کرنے سے روکتی ہے، اس ابہام اور خرابی کی نشاندہی خدمت گزار لوگوں کے گروہ کو خود کرنی ہے اور عوام کو جگا کر بتانا ہے کہ جماعت بھی سیاسی میدان میں موجود ہے اور ڈٹ کر کھڑی ہوئی ہے۔

اطہر قادر حسن  

بشکریہ ایکسپریس نیوز



This post first appeared on MY Pakistan, please read the originial post: here

Share the post

جماعت کہاں کھڑی ہے؟

×

Subscribe to My Pakistan

Get updates delivered right to your inbox!

Thank you for your subscription

×