Get Even More Visitors To Your Blog, Upgrade To A Business Listing >>

امریکہ میں لابی صحیح معنوں میں کامیابی کی چابی ہے

امریکہ میں لابی صحیح معنوں میں کامیابی کی چابی ہے۔ کسی قانون کو منظور کروانے یا ختم کرانے میں Lobbyists کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ یہ مختلف تجارتی کمپنیوں، اداروں اور مفادات کی نگہداشت کرتے ہیں، ان کے پاس پیسہ بھی ہوتا ہے اور ٹیکنیک بھی۔ یہ جہاں رائے عامہ کو پریس اینڈ پبلسٹی کے ذریعے اپنا ہمنوا بناتے ہیں، وہاں قانون دانوں کی جیبیں بھی گرم رکھتے ہیں۔ وہاں بھی اگر کوئی وکیل ہے تو اسے مقدمات کی فیس ادا کی جاتی ہے۔ اگر کوئی چھوٹا موٹا رائٹر ہے تو ایک دن میں پانچ دس ہزار کتابیں اور اگر کوئی تاجر ہے تو اس کی پراڈکٹس تھوک کے حساب سے خرید لی جاتی ہیں۔
شرع و آئین پرمدار سہی
ایسے قاتل کا کیا کرے کوئی
کوئی مروجہ قانون انہیں پکڑ نہیں سکتا۔ لابی کرنے کے متعلق کئی قوانین بنے ہیں لیکن بے اثر ہیں۔ قانون بعد میں بنتا ہے، اس کو بے اثر کرنے کا توڑ پہلے تلاش کر لیا جاتا ہے۔ کیلیفورنیا میں ایک مشہور لابیسٹ سیمش نے کہا تھا ''میں مجلس قانون ساز کا گورنر ہوں، کیلیفورنیا کی گورنری بھاڑ میں جائے‘‘۔ 

دیگر کئی مغربی ریاستوں کی طرح کیلیفورنیا میں بھی Referendum & Recall Initiative ہیں۔ ضروری نہیں ہے کہ قانون اسمبلی میں ہی بنے، اسے کوئی شخص بھی تجویز کر سکتا ہے اور اگر ایک خاصی تعداد میں لوگ اس پر دستخط کر دیں تو وہ قانون بن جاتا ہے۔ لیکن یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ ایک لاکھ لوگوں کو Petition پر دستخط کرنے ہوتے ہیں۔ پھر سیکرٹری آف سٹیٹ سے اس بات کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنا ہوتا ہے کہ تمام دستخط اصلی ہیں اور کسی قسم کا فراڈ نہیں کیا گیا۔ برسہا برس سے کیلیفورنیا پر ری پبلکن پارٹی کا تسلط رہا۔ لیکن فرینکلن روز ویلٹ کی شخصیت نے اسے ڈیموکریٹ بنا دیا۔ اسے 1932ء، 1936، 1940 اور 1944 میں یہاں سے بھاری اکثریت سے ووٹ ملے۔ اسی طرح ٹرومین بھی 1948ء میں کامیاب ہو گیا۔ لیکن 1950ء میں ایک دفعہ پھر ری پبلکن چھا گئے۔ تیل اور زراعت کیلیفورنیا کی معیشت کی جان ہیں۔ اگر یہ نہ ہوتے تو اس کی سنہری دھوپ بےمعنی ہو کر رہ جاتی۔ 

سنٹرل ویلی کو ریاست میں وہی اہمیت حاصل ہے جو مصر میں وادی نیل کو ہے۔ دنیا میں کوئی وادی اس کی زرخیزی کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ دریائے سیکرے مینٹو کے پانیوں نے اس کی دھرتی کو گلزار بنا ڈالا ہے۔ لہلہاتے ہوئے کھیت، چہچہاتے ہوئے طیور اور سرسراتے ہوئے پھلوں کے پیڑ اس کی زرعی عظمت کے امین ہیں۔ پانی کو کنٹرول کیا گیا ہے۔ کھیتوں کو ایک تسلسل اور تواتر کے ساتھ سیراب کیا جاتا ہے پھلوں اور پھولوں کی فراوانی دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اورنج اور ایپل جوس بچے کو گھٹی میں ملتے ہیں۔ خالص دودھ پی کر اور صحت مند جانوروں کا گوشت کھا کر وہ جوانی سے پہلے ہی جوان ہو جاتا ہے۔ امارات کی رہی سہی کسر تیل نے پوری کر دی ہے۔ ٹیکساس کے بعد یہ دوسری ریاست ہے جہاں تیل بکثرت نکلتا ہے۔ تیل یہاں حکومت کی ملکیت نہیں ہوتا بلکہ اس پر افراد اور کمپنیوں کی اجارہ داری ہے۔

سارے ملک کا قریباً پچاس فیصد تیل صرف اس ریاست سے حاصل کیا جاتا ہے۔ بیس ہزار سے زائد کنویں ہیں۔ جتنا تیل ان سے نکلتا ہے وہ ٹینکرز کے ذریعے آئل ریفائنری میں چلا جاتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ تیس سال میں تیل کی قیمتیں ایک سطح پر قائم ہیں اور انہیں بڑھنے نہیں دیا گیا۔ ہماری معیشت کا تو یہ عالم ہے کہ اگر عربوں کو چھینک بھی آجائے تو یہاں کی معیشت میں زلزلہ آجاتا ہے۔ ایشیائی ملکوں میں ایک تاثر قائم ہو گیا ہے کہ امریکہ اپنے ملک سے تیل اس لئے نہیں نکالتا کہ پہلے عربوں کے ذخائر ختم کرنا چاہتا ہے۔ یہ خیال خام ہے، اول تو وہاں اس سلسلے میں حکومت کی اجارہ داری نہیں ہے دوسرے اگر اتنے دور سے تیل منگوایا جاتا تو پھر قیمتیں ضرور بڑھتیں۔ دراصل ساری دنیا میں امریکی جنگی بیڑے گشت کر رہے ہیں۔ ان کے لئے تیل نزدیک ممالک سے خریدا جاتا ہے۔ تیل کو انسانی زندگی میں بڑی اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔ 

کارخانے، جہاز، ٹرانسپورٹ سب اس کے مرہون منت ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے متعلق کہا گیا ہے (اگر آپ مشرق وسطیٰ کی سیاست کی گہرائی میں جائیں تو تہہ میں تیل صاف نظر آئے گا)۔ اس کی دریافت نے دنیا کو نہ صرف اس کا دست نگر کر دیا ہے بلکہ اس کے بغیر زندہ رہنے کا تصور بھی محال ہو گیا ہے۔ آخر یہ تیل ہے کیا چیز؟ یہ سوال اسی طرح ہے جیسے پوچھا جائے کہ محنت کیا شے ہے؟ عام فہم زبان میں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ Hydrocarbons کا مکسچر ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ لاکھوں برسوں کے کیمیائی عمل اور شکست و ریخت سے درخت، جانور، جمادات اور نباتات نے تہہ سمندر میں چٹانوں کی شکل اختیار کر لی اور انہیں میں سے یہ سیال مادہ نکلا۔ جس نے دنیا کی نظروں کو خیرہ بھی کر دیا ہے اور سارے جہان کو ہلا کر بھی رکھ دیا ہے۔ ہمارے سائنسدان، حکمران اور سیاستدان سوچتے ہیں کہ تیل ختم ہو گیا تو کیا ہو گا؟ تو ایک ہی سوچ انہیں لرزہ بر اندام کر دیتی ہے کہ ''کیا نہیں ہو گا!‘‘۔

سیّد شوکت علی شاہ

بشکریہ دنیا نیوز
 



This post first appeared on MY Pakistan, please read the originial post: here

Share the post

امریکہ میں لابی صحیح معنوں میں کامیابی کی چابی ہے

×

Subscribe to My Pakistan

Get updates delivered right to your inbox!

Thank you for your subscription

×