Get Even More Visitors To Your Blog, Upgrade To A Business Listing >>

کورونا وائرس : کیا کریں اور کیا نہ کریں؟

ہماری آدھی قوم کورونا وائرس کو سنجیدگی سے لے ہی نہیں رہی۔ مڈل کلاس اور اس سے نچلا طبقہ اسے افسانہ سمجھ رہا ہے جبکہ ترقی یافتہ دنیا اور ہماری ایلیٹ کلاس اسے ایک خطرناک وبائی مرض جان کر اس سے بچنے کی تدابیر اور حفاظتی اقدامات کر رہی ہے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ کورونا وائرس 6 فٹ کے اندر براہِ راست اثر انداز ہوتا ہے۔ اٹلی میں مریضوں کی تعداد بڑھ گئی تو انہوں نے طے کیا کہ 65 سال سے اوپر کے مریض کا علاج ہی نہیں کرتے۔ جرمنی میں ایک لاکھ افراد کیلئے 22 وینٹی لیٹرز ہیں، مگر پاکستان میں ایک لاکھ افراد کیلئے صرف 15 ہیں۔ 14 دن تک بظاہر صحتمند نظر آنے والا شخص کورونا کے جراثیم ہر طرف پھیلاتا رہتا ہے، اس کے بعد اس کی بیماری ظاہر ہوتی ہے۔ سائنسدانوں کو خدشہ ہے کہ یہ وائرس ہوا سے بھی پھیل رہا ہے۔ اللہ کا شکر ہے ہم کورونا وائرس کے پھیلائو میں دنیا سے 25 دن پیچھے ہیں، ہم اب بھی حفاظتی اقدامات کر سکتے ہیں۔ 

اکٹروں کا کہنا ہے کہ ہمار ے ہاں کورونا کے مریضوں کی تعداد کم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہم ٹیسٹ ہی کم کر رہے ہیں، پاکستان میں 2 ہزار وینٹی لیٹرز موجود ہیں مگر ان کو چلانے والے افراد ہی نہیں ہیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا یہ ہے کہ یہ مسئلہ 6 ماہ میں حل ہو گا۔ ان میں سے اگلے 12 ہفتے سب سے اہم ہیں۔ جبکہ یہ دو ہفتے فیصلہ کریں گے کہ ہمارا مستقبل کیا ہو گا ؟ اس لئے ابھی سے جو کرنا ہے کر لیں۔ پاکستان میں جہاں پوری قوم کو یہ سب کھیل تماشا لگ رہا ہے، کچھ چیخ رہے ہیں کہ یہ سب بند کیوں کیا گیا ہے تو کچھ شہر بند ہونے کی خوشی میں دعوتیں کر رہے ہیں۔ اصل خطرہ یہ ہے مرض جب بگڑتا ہے تو سوائے وینٹی لیٹر کے کوئی چارہ نہیں رہتا۔ وینٹی لیٹر نہ ملنے کا مطلب موت ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق پورے ملک میں کل ملا کر ڈھائی ہزار سے زیادہ وینٹی لیٹر نہیں ہیں۔ پنجاب میں سرکاری اور غیرسرکاری ملا کر کل 17 سو وینٹی لیٹرز ہیں، بلوچستان میں کل 49، کے پی میں 150، سندھ 215 ہیں۔

کراچی جیسے بڑے شہر میں جہاں ہزاروں پرائیویٹ اسپتال ہیں، ان اسپتالوں کے پاس وینٹی لیٹرز کی کل تعداد 175 ہے۔ اب اگر یہ وبا پھیلتی ہے، جو کہ پھیل رہی ہے، تادم تحریر مریضوں کی تعداد بارہ سو سے زائد ہے۔ یہ ڈھائی تین ہزار وینٹی لیٹر تو اس ملک کی اشرافیہ کی ضرورت کیلئے بھی ناکافی ہیں تو مڈل کلاس اور غریب طبقہ کہاں جائے گا ؟ لاک ڈاؤن کے بعد اگر اب بھی عوام نے سنجیدگی اختیار نہیں کی تو حکومت کرفیو لگانے کا سوچ رہی ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت پر دباؤ ڈال کر کاروبارِ زندگی بحال کر لیں گے وہ ذرا ہوش کے ناخن لیں۔ ایک لاکھ 75 ہزار وینٹی لیٹرز ہیں امریکہ کے پاس اور وہ بھی خوف سے لرز رہا ہے۔ آسٹریلیا سمیت پوری دنیا نے تقریباً اپنے ملک میں داخلہ بند کر دیا ہے۔ چین جیسے ٹیکنالوجی کے سپر پاور ملک نے اس جنگ میں فتح محض لاک ڈاؤن پر عمل کرکے ہی حاصل کی ہے۔ 

جنوبی کوریا وغیرہ نے لاک ڈاؤن کر کے ہی خود کو بچایا ہے۔ لہٰذا حکومت اور طبی ماہرین جو جو ہدایات دے رہے ہیں ان پر عمل کرنے میں ہی بہتری ہے۔ ہاتھ نہ ملائیں، اجتماعات نہ کریں، گھروں میں رہیں، بلاسبب گھر سے باہر نہ آئیں۔ یہ سب مذاق نہیں ہے، یہ ساری دنیا پاگل نہیں ہے جو اپنے کاروبار سمیٹ کر بیٹھ گئی ہے، آپ اللہ پر ہی توکل کریں لیکن اپنے انتظامات کرنے کے بعد۔ یہ وقت اپنے مخالفین سے لڑنے کا نہیں بلکہ ایک قوم بن کر اس بحران سے نمٹنے کا ہے۔ یہ وبا ہے، یہ تیسری عالمی جنگ کے درجے کی ایمرجنسی ہے، اسے سمجھیں، سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔ اگر آپ خود گھر میں نہیں بیٹھیں گے تو انتظامیہ سختی کرے گی۔ اگر آپ وبا کے معاملے میں اللہ پر ہی بھروسا کرنا چاہتے ہیں تو پھر رزق کے معاملے میں ہی کیوں ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جاتے؟ تنگی تو یقیناً ہو گی، غذائی قلت اس وقت سب سے بڑا خطرہ بن کر سامنے کھڑی ہے۔ ایسے حالات میں ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہمیں خوراک کے معاملے میں محتاط ہونا ہے، ضیاع کو روکیں، دعوتیں بند کر دیں۔

اب آجائیں ایک اور نکتے کی جانب! گزشتہ ایک ہفتے کے دوران سب سے زیادہ پوچھا جانے والا سوال یہ ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے تمام تعلیمی اداروں میں طلبہ اور طالبات کی طویل چھٹیاں ہیں۔ پورے ملک میں لاک ڈاؤن ہے۔ سب گھر میں محصور ہیں۔ ہم 24 گھنٹے کیا کریں؟ اس سوال کے جواب میں عرض ہے کہ گھر بیٹھے کوئی آن لائن کورس کیجئے۔ مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے عوام سے کہا ہے کہ ان اوقات کو اللہ تعالیٰ سے رجوع میں گزاریں، اس میں اللہ سے دعائیں کریں، اپنے گناہوں پر استغفار کریں، کسی وقت کو بھی ضائع نہ کریں بلکہ اللہ کے حضور تسبیحات میں صرف کریں۔ ہر مسلمان روزانہ ایک سو مرتبہ آیت کریمہ کا ورد کرے، اس ورد کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ یہ مصیبت مسلمانوں بلکہ تمام انسانیت سے ٹال دیں گے کیونکہ قرآن کریم میں جہاں یہ آیت کریمہ فرمایا گیا ہے، حضرت یونس علیہ السلام کا واقعہ بیان کرتے ہوئے، وہیں یہ بتلایا ہے کہ ’’جس طرح یونس علیہ السلام کو ہم نے نجات دی تھی اسی طرح ہم مومنین کو بھی نجات دیتے ہیں‘‘۔ 

ہمیں یقین ہے کہ اس آیت کریمہ کے ورد سے کورونا وائرس کی مصیبت ٹل جائے گی۔ دینِ اسلام نے ہمیں ہر قسم کی رہنمائی فراہم کی ہے۔ مسنون دعائوں اور مناجات کا بھی سہارا لینا چاہئے اور سخت حفاظتی اقدامات بھی کرنا چاہئیں۔ ہمارا دین جدید دور کے علاج معالجے کی سہولتوں کے استعمال کا مخالف نہیں ہے بلکہ ان سے استفادے کا حکم کرتا ہے، فرمانِ نبویؐ ہے کہ علم و حکمت مومن کی گم شدہ میراث ہے، اس کو جہاں ملے اس سے استفادہ کی کوشش کرے۔ استغفار سے قلب کو قوت اور قوتِ مدافعت حاصل ہوتی ہے۔ یہی وہ قوت ہے جو لاعلاج بیماریوں سے لڑنے میں قوتِ مدافعت کیلئے بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔

انور غازی

بشکریہ روزنامہ جنگ



This post first appeared on MY Pakistan, please read the originial post: here

Share the post

کورونا وائرس : کیا کریں اور کیا نہ کریں؟

×

Subscribe to My Pakistan

Get updates delivered right to your inbox!

Thank you for your subscription

×