Get Even More Visitors To Your Blog, Upgrade To A Business Listing >>

یہودیت کی مکمّل تاریخ حصّہ دوئم


 

مسجد اقصیٰ بیت المقدس کی ایک عمارت ہے، جو مسلمانوں کا قبلہ اول ہے۔ اس پر اسرائیلی حکومت نے جون 1947ء میں قبضہ کیا اور پھر اس کی دیواریں گرانے کا آغاز کیا۔ 21 اگست 1969ء کو یہودیوں نے مسجد اقصیٰ کو نذر آتش کرنے کی کوشش کی۔

مسجد اقصیٰ شہر کے مشرقی سمت ایک احاطہ میں واقع ہے، جسے مسلمان حرم شریف کے نام سے اور یہودی بیت اللحم کے نام سے پکارتے ہیں۔ قبتہ الصغریٰ اور دیگر مقدس مقامات بھی اسی میں واقع ہیں۔ یہ حرم 36 ایکڑ میں واقع ہے۔

جس جگہ مسجد اقصیٰ واقع ہے، یہودی روایات کے مطابق وہاں کبھی حضرت سلیمانؑ کا تعمیر کردہ ہیکل واقع تھا، جسے بابل کے بادشاہ نجکف نضر نے چھٹی صدی قبل مسیح میں تباہ کر دیا تھا۔ ہیرو واعظم نے اس ہیکل کو از سر نو تعمیر کروایا۔ لیکن 70ء میں رومی حکمران طیطس نے اسے بھی پیوند خاک کردیا۔

638ء میں جب حضرت عمرؓ فاروق بیت المقدس میں داخل ہوئے تو اس جگہ پر ملبے اور خلافت کے ڈھیر کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ حضرت عمرؓ نے وہ مقام تلاش کیا جہاں سے حضرت محمدؐ معراج کیلئے تشریف لے گئے تھے۔ گندگی کے اس ڈھیر کو اپنے ہاتھوں سے اٹھانا شروع کیا اور پھر فرمایا:

''آئو! اسے مسجد کی جگہ بنالیں۔ اس حکم پر حضرت بلالؓ نے یہاں پہلی اذان دی۔ اور حضرت عمرؓ نے نماز پڑھائی۔ آپ کی ہدایت پر یہاں ایک سادہ سی مستطیل شکل کی مسجد تعمیر ہوئی اور اس مقام پر جہاں سے حضرت محمدؐ معراج کیلئے تشریف لے گئے تھے، گنبد صغریٰ تعمیر ہوا۔ اکثر مغربی مصنفین گنبد صغریٰ ہی کو مسجد عمر کا نام دیتے ہیں۔

مسجد اقصیٰ کی موجودہ عمارت کی تعمیر پانچویں اموی خلیفہ عبدالمالک بن مروان نے 72ھ/690ء میں شروع کرائی۔ ان کے ادھورے کام کو ان کے بیٹے ولید نے مکمل کرایا، جس پر 7 سالہ محاصل خرچ ہوئے۔ اس کے چار مینار تھے۔

دروازوں پر سونے کی تختیاں تھیں اور یہاں 300 خدمت گار مقرر کئے گئے تھے۔ 742ء کے زلزلہ میں اس عمارت کو نقصان پہنچا۔ خلیفہ المنصور نے اسے دوبارہ کرایا۔ 771ء میں وہ یہاں آئے۔ ایک اور زلزلے سے ایک بار پھر عمارت زمیں بوس ہوئی تو منصور کے جانشین المہدی نے 780ء میں اسے واپس تعمیر کرایا۔

اکثر جغرافیہ دان مسجد اقصیٰ سے مراد پورا رقبہ حرم لیتے ہیں، جس میں مینار، گنبد قالان، قبۃ الصغریٰ اور مسجد شامل ہے۔ مقدسی لکھتا ہے کہ مسجد اقصیٰ بیت المقدس کے جنوب مشرقی گوشے میں واقع ہے۔ ایرانی مورخ ناصر خسرو لکھتا ہے کہ مسجد کی صدر عمارت بہت وسیع ہے۔ اس کی مغربی دیوار 120 گز اور عرض 150 گز ہے۔ 280 سنگی کمانیں قائم ہیں۔ سنگ مرمر سے مسجد کی زینت بڑھائی گئی ہے۔ مسجد کے طول یعنی مشرقی دیوار میں دس اور عرض یعنی شمالی دیوار میں پانچ دروازے ہیں۔ ان میں سے ایک دروازہ پیتل کا ہے۔

14 جولائی 1099ء کو جب بیت المقدس عیسائیوں کے قبضے میں چلا گیا تو انہوں نے صحن مسجد میں مسلمانوں اور یہودیوں کا یہودیوں کا بے تحاشا خون بہایا۔ انہوں نے مسجد اقصیٰ میں بہت سی تبدیلیاں کیں اور اسے اپنی رہائش گاہ کے طور پر استعمال کیا۔
صلاح الدین ایوبی نے 1187ء میں اسے عیسائیوں سے واگزار کرایا۔ انہوں نے عمارت کو پہلی حالت میں درست کرایا اور مسلمانوں نے اسے سات روز تک پانی اور عرق گلاب سے دھویا۔ 1938ء سے 1947ء تک مسجد کی مرمت ویسع پیمانے پر ہوئی لیکن اس سے نقشہ میں کوئی زیادہ فرق نہیں پڑا۔ موجودہ مسجد میں شمال کی طرف سات اور مشرق کی طرف ایک دروازہ ہے۔

1948ء تک فلسطین برطانیہ کے زیر انتداب رہا اور جب انگریز رخصت ہوئے تو یہودیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ ان کی گولہ باری سے مسجد کی چوبی چھت، کھڑکیوں اور شمالی دیوار کا ایک اہم حصہ شہید ہوگیا۔ نیز کئی غازی بھی شہید ہوئے۔ جنگ بندی کے بعد حکومت اردن نے مسجد کی تعمیر نو کا فیصلہ کیا۔

مختلف اسلامی حکومتوں کے چندے سے 1958ء میں مرمت کا آغاز ہوا۔ مسجد کے گنبد پر سیسے کی جگہ المونیم اور پیتل کی آمیزش سے تیار کردہ خول چڑھایا گیا۔ اور بھی کئی تبدیلیاں کی گئیں مگر یہ اہتمام رکھا گیا کہ رنگ، رقبے اور جائے وقوع میں کوئی فرق نہ آئے۔

جون 1967ء میں اسرائیل نے پورے بیت المقدس پر قبضہ کرلیا اور 27 جون کو اسے اسرائیل حکومت کا ایک جزو قرار دے دیا۔ 17 جولائی کو ان کے یہودی بریگیڈیئر شلومو غدریں نے اعلان کیا کہ مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکل سلیمان تعمیر کیا جائے گا۔ چنانچہ مسجد سے ملحقہ تمام عمارتوں کو مسمار کر دیا گیا۔ جبکہ 4 جولائی 1967ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے ایک قرارداد منظور کی تھی کہ بیت المقدس کی سابقہ حیثیت میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے۔

21 اگست 1969ء کو ایک المناک سانحہ پیش آیا۔ اس روز تقریباً 4 گھنٹوں تک مسجد اقصیٰ میں آگ بھڑکتی رہی۔ اس سے جنوب مشرقی جانب چھت کا ایک حصہ گر گیا۔

سلطان صلاح الدین ایوبی کا یادگار منبر جل کر راکھ ہوگیا۔ اسرائیل نے اپنا جرم چھپانے کیلئے ایک شخص روہن کو آتش زنی کے الزام

 میں گرفتار کیا۔ اس پر مقدمہ چلا اور معمولی سزا دی گئی۔ لیکن اس سے یہودیوں کے ان عزائم کو نہیں چھپایا جاسکتا، جو ہیکل کی تعمیر نو

 سے تعلق رکھتے ہیں۔جاری ہے۔۔۔۔

 




This post first appeared on , please read the originial post: here

Share the post

یہودیت کی مکمّل تاریخ حصّہ دوئم

×

Subscribe to

Get updates delivered right to your inbox!

Thank you for your subscription

×