Get Even More Visitors To Your Blog, Upgrade To A Business Listing >>

ٹیلی پیتھی کیا ہے اور سائنس کیا کہتی ہے

ٹیلی پیتھی کیا ہے اور سائنس کیا کہتی ہے 



 مصر کی قدیم سرزمین سے، جہاں عظیم الشان اہرام مصریوں کی غیر معمولی ذہانت کے ثبوت کے طور پر کھڑے ہیں، یونان کے سورج کو چومتے ہوئے ساحلوں تک، جہاں دیوتاؤں اور ہیروز کی پیدائش ہوئی، اور ہندوستان کی قدیم تہزیب جہاں گنگا ندی بہتی ہے اور جہاں تاج محل، اپنے پیچیدہ نقش و نگار، شاندار فن تعمیر، اور چمکتے سفید سنگ مرمر کے ساتھ محبت کی یادگار کے طور پر کھڑا ہے،وہاں ٹیلی پیتھی جیسے سحر انگیز علم کو کبھی ایک روحانی صلاحیت سمجھا جاتا تھا۔

مصر میں، ٹیلی پیتھی کو دیوتاؤں کی طرف سے ایک تحفہ سمجھا جاتا تھا، یونان میں اس کا تعلق اولمپس کے دیوتاؤں سے تھا، جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ ٹیلی پیتھی کے ذریعے ایک دوسرے سے اور انسانوں کے ساتھ بات چیت کرتے تھے،ہندوستان میں یہ ایک ہنر تھا جسے یوگیوں اور صوفیاء نے متعارف کروایا۔ صرف اپنے خیالات کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کرنے کا تصور انسانیت کا ایک طویل خواب رہا ہے۔ یہ ان گنت کتابوں، فلموں اور افسانوں کا موضوع رہا ہے ایک ایسا موضوع جو طویل عرصے سے اسرار کی دھند میں چھپا ہو ا ہے ،ایک ایسا تصور جو لوک داستانوں، ادب اور پاپ کلچر میں یکساں طور پر اپنی جگہ بناتا رہا، لیکن جیسے جیسے دنیا ترقی کرتی گئی ، ٹیلی پیتھی ایک روحانی صلاحیت کم اور سائنسی تجسس زیادہ بن گیا۔ تاہم، صرف سوچ کے ذریعے دوسروں کے ساتھ بات چیت کرنے کا فن ایک دلچسپ اور پائیدار خیال ہے، اوریہ آج تک ہمارے تخیلات کو اپنی گرفت میں لے رہا ہے۔

ایک ایسا سفر جو تخیل سے شروع ہوتا ہے اور حقیقت پر ختم ہوتا ہے۔ سائنس آج اس مقام تک کیسے پہنچی؟ ٹیلی پیتھی کا کٹھن سفر کہانیوں سے حقیقت کی دنیا تک کیسے پہنچا؟ برسوں سے ایسا لگتا تھا کہ یہ ایک خیال سے زیادہ کچھ نہیں لیکن پھر، کچھ بدل گیا یہ مضمون اسی کے بارے میں ہے۔
سائنس دانوں نے نیورو سائنس اور فزکس میں ایسی کامیابیاں حاصل کرنا شروع کیں جو مواصلات کے بارے میں ہماری سمجھ کو ہمیشہ کے لیے بدل دیں گی۔ انہوں نے دماغ کے رازوں کو کھولنا شروع کیا، اور ایسا کرتے ہوئے، کسی ناقابل یقین چیز کی صلاحیت کو دریافت کیا: ایک دماغ سے دوسرے دماغ تک پیغام پہنچانا! جی ہاں یہ حیرت انگیز خیال اب حقیقت بننے جارہا ہے۔

یہ اب صرف سائنس فکشن کا حصہ نہیں ہے۔ ٹیکنالوجی میں حالیہ ترقی کے ساتھ، سائنسدان دو دماغوں کے درمیان رابطہ بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور اب ہم الفاظ یا جسمانی اشاروں کی ضرورت کے بغیر خیالات اور جذبات کو منتقل کرنے کے قابل ہیں۔
یہ ایک ایسا کارنامہ ہے جو کبھی ناممکن سمجھا جاتا تھا، لیکن اب ہماری آنکھوں کے سامنے حقیقت بن رہا ہے۔ ہم اس منزل تک کیسے پہنچے آئیے
اس سفر کی حیرت انگیز داستان کو شروع کرتے ہیں۔



ٹیلی پیتھی کیسے وجود میں آئی؟ سائنس ہمیں اس کے بارے میں کیا بتاتی ہے؟ مزید برآں، ہم ٹیلی پیتھی اور اسلام کے درمیان دلچسپ تعلق کو تلاش کریں گے۔ دنیا کے قدیم مذاہب اور معاشرے اس تصور کو کس نظر سے دیکھتے ہے۔ ہم انسانی ذہن کی پیچیدگیوں اور اپنے شعور کی لامحدود صلاحیتوں کی کھوج شروع کرتے ہیں۔
"ٹیلی پیتھی" دو یونانی الفاظ سے ماخوذ ہے: "ٹیلی،" جس کا مطلب ہے "دور" اور "پیتھیا،" جس کا مطلب ہے "احساس"۔

یہ لفظ 1800 کی دہائی کے آخر میں فریڈرک ڈبلیو ایچ نے وضع کیا تھا۔ٹیلی پیتھی کا مطلب دو افراد کے درمیان اپنے خیالات، احساسات کو کسی جسمانی یا زبانی رابطے کی ضرورت کے بغیر منتقل کرنے کی صلاحیت ہے۔
یہ کون سی صلاحیت ہے جو اکثر فطری دائرے کی حدود سے باہر کے ادراکات کو جنم دیتی ہے؟ کیا یہ محض انسانی صلاحیت کی پیداوار ہے یا کچھ اور؟ لیکن اس کا مطالعہ نفسیات اور نیورو سائنس جیسے سائنسی شعبوں میں بھی کیا جاتا ہے۔ ٹیلی پیتھی صرف ایک کائناتی زبان نہیں ہے، یہ ایک کائناتی کنکشن ہے جو ہمیں بغیر الفاظ کے ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کرنے کے قابل بناتی ہے یہ قوت ایک ایسی حقیقت کا مظہر ہے جو طبعی دائرے سے باہر، معلوم کائنات سے دور، وقت اور فاصلے کے تانے بانے سےآزاد ہے۔یہ ایک ایسا تحفہ ہے جو ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح جڑنے کی اجازت دیتا ہے کہ کوئی بھی حدود انہیں ایک دوسرے سے بات چیت کرنے کے لیے روک نہیں سکتیں۔

ناقدین کا استدلال ہے کہ ٹیلی پیتھی محض انسانی خواہش کی پیداوار ہے، جس کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے۔ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ٹیلی پیتھی کی جانچ کے لیے استعمال کیے جانے والے تجربات ناقص ہیں، اور یہ کہ کسی بھی مثبت نتائج کو اتفاقیہ طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔دوسری طرف، ٹیلی پیتھی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ ٹیلی پیتھک کمیونیکیشن حقیقی ہے اور ہمارے پاس اس کے اعدادوشمار موجود ہیں۔ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ٹیلی پیتھی ایک قدرتی انسانی صلاحیت ہے جسے جدید معاشرے نے دبا دیا ہے اور اسے تربیت اور مشق کے ذریعے سیکھا جا سکتا ہے۔

کئی سالوں میں ٹیلی پیتھی پر کئی سائنسی تجربات کیے گئے ہیں، لیکن ان میں سے زیادہ ترتجربات حتمی ثبوت فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکےتھے کہ ٹیلی پیتھی ایک حقیقی علم ہے۔کچھ تجربات جسے "جڑواں ٹیلی پیتھی" کہا گیا ہے۔ یہ تجربات جڑواں بہن بھائیوں پر کیے گئے ہیں، جس میں انہیں سوالیہ پرچے دیے گئے یا ریکارڈ کیے جانے کے دوران کچھ فاصلے پر رکھا گیا۔ ان تجربات کا مقصد یہ طے کرنا تھا کہ آیا ایک جڑواں بیمار ہوا تو دوسرا بھی بیمار ہوا۔ تاہم، ان تجربات کے نتائج امید افزا نہیں تھے، کامیابی کی شرح 60% سے زیادہ نہیں تھی۔




اس طرح کہ اگر ایک کو چوٹ پہنچتی ہے، تو دوسرے کو اپنے جڑواں کی تکلیف کا احساس ہوتا ہے۔ ان تجربات کو کرنے کی بارہا کوششوں کے باوجود، وہ حتمی نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہے، اور سائنسی برادری نے انہیں قبول کرنے سے انکار کردیا۔ جینیاتی عمل اور ماحول پر اس کے مضبوط انحصار کی وجہ سے جڑواں ٹیلی پیتھی کو ایک افسانہ سمجھا جاتا تھا، کیونکہ یہ بہن بھائی ایک ساتھ رہتے ہیں اور ایک جیسے تجربات کا اشتراک کرتے ہیں، جس سے ایک شخص کی حالت دوسرے کی حالت کو متاثر کرنا ممکن بناتی ہے۔اور اس کے بارے میں یہ کہا گیا کہ جڑواں ٹیلی پیتھی مائنڈ کنڈیشنگ کی ایک شکل ہے۔

Michio Kaku کے الفاظ پر غور کریں، کیونکہ وہ ٹیلی پیتھی کے دلچسپ تصور پر اپنی رائے پیش کرتے ہیں۔ ان کے مطابق، ہمارے پاس ایم آر آئی اسکین اور اس معلومات کو کسی دوسرے شخص کے دماغ میں منتقل کرنے کی ٹیکنالوجی ہے، جسے ریڈیو ٹیلی پیتھی کہا جاسکتا ہے۔


تاہم، اس کا دعویٰ ہے کہ روایتی ٹیلی پیتھی، کسی بھی گیجٹ یا contraptions سے مبرا، کوانٹم الجھن کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دو ایٹموں کا باہمی ربط قائم ہونا ضروری ہے تاکہ دو دماغوں کے درمیان بات چیت ہو سکے۔ اگرچہ سائنسی برادری نے اس میدان میں کافی ترقی کی ہے، لیکن دو دماغوں میں موجود لاکھوں اور اربوں ایٹموں کو بغیر کسی آلے کے کامل ہم آہنگی میں لانا فلحال ناممکن لگتا ہے۔




برازیل کی ایک تجربہ گاہ میں کیے گئے ایک تجربے میں، محققین نے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے بین البراعظمی مواصلات کے دلچسپ امکانات کو تلاش کرنے کا آغاز کیا۔ اس تجربے میں دو چوہے شامل تھے، ایک برازیل میں اور دوسرا ریاستہائے متحدہ میں، ہر ایک کے دماغ میں جدید ترین سینسر لگائے گئے تھے۔
سائنسدانوں نے برازیل کے چوہے کو کھانا پیش کرنے اور اسے حاصل کرنے کی کوششوں کی نگرانی سے آغاز کیا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایک بار کامیاب ہونے کے بعد یہ معلومات بحر اوقیانوس کے وسیع و عریض علاقے میں امریکی چوہے تک پہنچائی گئیں۔ یہ برازیل کے چوہے نے اپنے دماغ میں موجود سینسر کے ذریعے ایک بٹن دبانے سے حاصل کیا، جسے پھر امریکی چوہے کے دماغ میں متعلقہ سینسر سے جوڑ دیا گیا، جس سے وہ تیزی سے مطلوبہ خوراک حاصل کر سکتا ہے۔

اس تجربے کے مضمرات حیران کن ہیں، جو یہ بتاتے ہیں کہ جانداروں کے درمیان بین البراعظمی رابطے کی صلاحیت نہ صرف ممکن ہے بلکہ قابل فہم ہے۔ دماغی سینسرز اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال نے امکانات کی ایک دنیا کھول دی ہے، جس میں انسانی تخیل کے دائروں سے باہر مواصلات کی صلاحیت موجود ہے۔ جیسے جیسے سائنسی تحقیقات کی حدود کو نئی حدوں تک دھکیلنا جاری ہے، انسانی دماغ اور اس سے آگے کے اسرار سے پردہ اٹھانے کے امکانات انتہائی قابل رسائی ہیں۔

اس تجربے کی ویڈیو آپ میرے یوٹیوب پر دیکھ سکتے ہے آپ سرچ بار پر " aamirpatni telepathy " لکھیں اس پر تصاویر اورمختلف تجربات کی ویڈیو کے ساتھ میری بنائی گئی ٹیلی پیتھی پر تفصیلی ویڈیو موجود ہے۔





ٹیلی پیتھی کے مزید تجربات

Rhine Experiment
1930 اور 1940 کی دہائیوں میں، ڈیوک یونیورسٹی میں جے بی رائن اور ان کے ساتھیوں نے ٹیلی پیتھی کی جانچ کے لیے تجربات کا آغاز کیا ۔
ان تجربات میں تاش کھیلنا اور شرکاء سے ہر کارڈ کے نمبر کا اندازہ لگانے کو کہا گیا۔ کچھ نتائج ٹیلی پیتھی کے وجود کی حمایت کرتے نظر آئے اور اس کو کافی تسلی بخش سمجھا گیا البتہ کچھ ماہرین اس کے نتائج سے مطمئن نہیں تھے۔
Ganzfeld Experiment
اس تجربے میں، ایک وصول کنندہ کوکسی بھی حس سےمحروم حالت میں رکھا جاتا ہے اور اسے کسی دوسرے مقام سےبھیجنے والے میسج کو موصول کرنے کی پریکٹس کروائی جاتی۔ اگرچہ کچھ تجربات نے گانزفیلڈ کے تجربے سے مثبت نتائج کی اطلاع دی ہے، لیکن ان نتائج کو دہرانے پر وہ کامیابی مستقل بنیاد پر نا مل سکی۔
PEAR Experiment
پرنسٹن یونیورسٹی کے سائنسدانوں کی طرف منعقد کیا گیا ایک تجربہ تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ کیا لوگ اپنے دماغ کو بے ترتیب واقعات پر اثر انداز کرنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں، جیسے سکے کو پلٹنا۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ کیا آپ کے خیالات کی طاقت کچھ ایسا کر سکتی ہے جو بے ترتیب اشیاء کو ترتیب میں لاسکے۔
سائنس دانوں نے ایک ایسی مشین بنائی ہے جو ایک سکے کو کئی بار پلٹتی ہے اور ریکارڈ کرتی ہے کہ آیا یہ ہیڈ یا ٹیل کے آنے کا تناسب کیا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے لوگوں سے کہا کہ وہ مشین کے سامنے بیٹھیں اور صرف اس کے بارے میں سوچ کر اسے ٹیل سے زیادہ بار ہیڈ پرلانے کی کوشش کریں۔انہوں نے مختلف لوگوں کے ساتھ کئی بار ایسا کیا، اور انہوں نے محسوس کیا کہ بعض اوقات جب لوگ اس پر توجہ مرکوز کر رہے ہوتے ہیں تو سکہ ہیڈ پر رک جاتا تھا,اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ لوگ واقعی بے ترتیب واقعات کو اپنے خیالات سے متاثر کر سکتے ہیں!
یہ اب بھی ایک بڑا معمہ ہے کہ آیا لوگ واقعی اپنے ارد گرد کی دنیا پر اثر انداز ہونے کے لیے اپنے دماغ کا استعمال کر سکتے ہیں، لیکن PEAR تجربہ اس کا پتہ لگانے کی کوشش میں ایک اہم قدم تھا۔



میٹا تجزیہ: 2010 میں، پیرا سائیکولوجسٹ ڈین ریڈن نے ٹیلی پیتھی اور دیگر نفسیاتی مظاہر پر 1,000 سے زیادتجربات کا میٹا تجزیہ کیا۔
اس نے اعدادوشمار کے لحاظ سے اہم نتائج کی اطلاع دی جس سے پتہ چلتا ہے کہ ٹیلی پیتھی حقیقی ہو سکتی ہے۔
میٹا تجزیہ اس طرح ہے جیسے بہت سے چھوٹے ٹکڑوں کے ساتھ ایک پزل کو اکٹھا کرنا۔اس کے بارے میں اس طرح سوچیں کہ آپ اور آپ کے دوست یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کون سا آئس کریم کا ذائقہ بہترین ہے۔
آپ میں سے ہر ایک مختلف ذائقہ آزماتا ہے اور گروپ کو بتاتا ہے کہ آپ کیا سوچتے ہیں لیکن آپ سب ایک رائے کے ساتھ صرف ایک شخص ہیں۔ایک میٹا تجزیہ ایسا ہوگا جیسے 100 بچے آئس کریم کے تمام ذائقے آزمائیں اور پھر اپنی تمام آراء کو ایک ساتھ ڈال کر دیکھیں کہ کون سی آئس کرہم سب سے زیادہ مقبول ہے۔اس طرح، آپ کو صرف ایک شخص کی رائے پر بھروسہ کرنے کے بجائے، زیادہ تر لوگ کیا سوچتے اور پسند کرتے ہیں اس کا بہتر اندازہ ہوجاتا ہے۔
بہت سے سائنس دانوں کا خیال ہے کہ کچھ تجربات میں رپورٹ کیے گئے مثبت نتائج ممکنہ طور پر حقیقی ہونےکی بجائے طریقہ کار کی خامیوں کی وجہ سے ہیں۔
اب ہم ان نظریات کے بارے میں بات کرینگے جو اس بارے میں مختلف سائنس دان رکھتے ہیں۔
جن میں کوانٹم اینٹینگلمنٹ، انفارمیشن تھیوری، مورفک ریزوننس اور اجتماعی شعور شامل ہیں۔
کوانٹم اینٹینگلمنٹ، کے حامیوں کا خیال ہے کہ ٹیلی پیتھی دو افراد کے دماغ میں کنکشن قائم کئے ہوئے ایٹموں کا نتیجہ ہو سکتا ہے، جبکہ انفارمیشن تھیوری بتاتی ہے کہ ٹیلی پیتھی ESP جیسی چھٹی حس کے استعمال سے ممکن ہو سکتی ہے۔ مورفک ریزوننس تھیوری بتاتی ہے کہ ٹیلی پیتھی ایک گروپ کی اجتماعی یادداشت کا نتیجہ ہے، اور شعور کا نظریہ بتاتا ہے کہ ٹیلی پیتھی باہم مربوط شعور کا نتیجہ ہے۔ تاہم، ان نظریات کو سائنسی برادری نے قبول نہیں کیا ہےجس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کی حمایت کے لیے بہت کم تجرباتی ثبوت موجود ہیں۔



Quantum Entanglement
ایسا اس وقت ہوتا ہے جب دو چھوٹی چیزیں جنہیں پارٹیکلز کہتے ہیں ایک خاص طریقے سے آپس میں جڑے ہوتے ہیں، تاکہ اگر ایک ایٹم کو کچھ ہوتا ہے تو وہ دوسرے ایٹم پر اثر انداز ہوتا ہے، چاہے وہ کتنے ہی فاصلے پر ہوں۔ جو لوگ اس خیال پر یقین رکھتے ہیں ان کا خیال ہے کہ ٹیلی پیتھی اس وقت ہو سکتی ہے جب دو لوگوں کے دماغوں کے ایٹم آپس میں جڑے ہوں، جس سے وہ بغیر بولے خیالات کا تبادلہ کر سکیں۔
Electromagnetic Theory
برقی مقناطیسی نظریہ بتاتا ہے کہ ٹیلی پیتھی دماغ کے ذریعہ تخلیق کردہ ایک خاص توانائی کے میدان کی طرح ہے۔ یہ فیلڈ دوسرے لوگوں کے برقی سگنل کے ساتھ تعامل کر سکتی ہے، جس سے ان کے درمیان معلومات کا اشتراک کیا جا سکتا ہے۔ کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ خیالات اور احساسات اس توانائی کی طاقت کو بدل سکتے ہیں، اور یہ کہ یہ بات کرنے یا لکھنے کی ضرورت کے بغیر بہت طویل فاصلے پر بھی کام کر سکتا ہے۔ تاہم، بہت سے سائنس دان اس نظریہ پر یقین نہیں رکھتے کیونکہ یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ثبوت موجود نہیں ہیں کہ ہمارے دماغوں کے ذریعے بنائے گئے توانائی کےسگنل واقعی ایسا کر سکتے ہیں۔
Morphic Resonance Theory
مورفک ریزوننس تھیوری ایک سائنسی نظریہ ہے جو کہتا ہے کہ ایک غیر مرئی توانائی ہے جو دنیا کی ہر چیز کو جوڑتی ہے۔ روپرٹ شیلڈریک نامی ایک سائنس دان نے یہ خیال اس لیے پیش کیا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ یہ توانائی یہ فیصلہ کرنے میں مدد کرتی ہے کہ جاندار کیسے بڑھتے اور برتاؤ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ توانائی کا میدان، جسے وہ "مورفک فیلڈز" کہتے ہیں، نہ صرف جینز یا ماحولیات کو متاثر کرسکتی ہے بلکہ دنیا کی دیگر چیزوں کو بھی متاثر کرسکتی ہے۔
پاپولر کلچر میں ٹیلی پیتھی، بشمول کتابیں، فلمیں، ٹی وی شوز، اور ویڈیو گیمز میں بھی نظر آتی ہے جیسے پاکستان میں دیوتا جیسے مشہور ناول میں فرہاد علی تیمور کا کردار جس کو پڑھ کر اکثر لوگ اپنے گھر میں شمع بینی اور آئینہ بینی کرنے لگے تھے کہ اس طرح وہ بھی تیلی پیتھی سیکھ جائینگے
X-Men: X-Men فرنچائز میں ٹیلی پیتھک صلاحیتوں کے حامل مختلف کردار ہیں جن میں پروفیسر X اور Jean Grey شامل ہیں۔
مشہور ٹی وی سیریز Stranger Things میں، کردارeleven میں ٹیلی پیتھک اور ٹیلی کینیٹک طاقتیں ہیں۔
کلاسک سائنس فائی ٹی وی شو The Twilight Zone ٹیلی پیتھی کے بارے میں کئی اقساط پیش کرتا ہے، بشمول "Nick of Time" اور "A Penny for Your Thoughts."
سٹار ٹریک فرنچائز میں ٹیلی پیتھک صلاحیتوں کے حامل کئی کردار ہیں جن میں ولکنز اور بیٹازائڈز شامل ہیں۔
دی ڈیڈ زون: اسٹیفن کنگ کی ٹی وی سیریز اور کتاب میں جانی اسمتھ نامی ایک کردار پیش کیا گیا ہے، جو کوما کے بعد ٹیلی پیتھک صلاحیتوں کا مالک بن جاتا ہے ۔
اکیرا: مقبول مانگا اور اینیمی سیریز اکیرا میں ٹیلی پیتھک اور ٹیلی کینیٹک صلاحیتوں کے حامل کردار ہیں۔
مارول کامکس: مارول کامکس کے مختلف کردار ٹیلی پیتھک صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں، جن میں سائلاک اور ایما فراسٹ شامل ہیں۔
فائر اسٹارٹر اسٹیفن کنگ کی کتاب اور فلم میں پائروکائنیٹک اور ٹیلی پیتھک صلاحیتوں والی ایک نوجوان لڑکی کو دکھایا گیا ہے۔
ٹی وی سیریز ہیروز میں ٹیلی پیتھک صلاحیتوں کے حامل کئی کردار ہیں، جن میں میٹ پارک مین اور چارلس ڈیویکس شامل ہیں۔



روحانی اور مذہبی روایات میں جو مراقبہ کی مشق کو فروغ دیتے ہیں، جیسے بدھ مت اور ہندو مت، کا خیال ہے کہ یہ مشق کسی کی توج


This post first appeared on SMART AI KNOWLEDGE, please read the originial post: here

Share the post

ٹیلی پیتھی کیا ہے اور سائنس کیا کہتی ہے

×

Subscribe to Smart Ai Knowledge

Get updates delivered right to your inbox!

Thank you for your subscription

×