Get Even More Visitors To Your Blog, Upgrade To A Business Listing >>

Lost IslamicHistory urdu translation Part 20 Mughals مغل سلطنت






Lost Islamic History
Urdu Translation 

قسط نمبر 28 

مغل 

تیسری عظیم مسلمان سلطنت ہندوستان کے مشرق میں شروع ہوئی۔ یہاں دہلی سلطنت نے 1200 کی دہائی کے اوائل سے ہی برصغیر پاک و ہند کے شمالی حصے پر حکمرانی کی تھی۔مقامی ہندوستانی ثقافتوں کے ساتھ عرب ، فارسی اور ترک ثقافتوں کے ملاپ نے آہستہ آہستہ ایک نئی اور انوکھی ہندوستانی مسلم تہذیب کی تشکیل کی تھی ۔ 

1500 کی دہائی کے اوائل تک ، ہندوستان میں مسلم سیاسی طاقت ختم ہوتی جارہی تھی ، لیکن کافی تعداد میں آبادی مسلمان ہوگئی تھی اور وہ مسلم ثقافت کی عادی ہوچکی تھی کہ ایک نیا مسلم خاندان برصغیر میں آسانی سے حکومت میں آنے والا ہے۔مغل سلطنت کی بنیاد وسطی ایشیا میں ظہیر الدین محمد بابر (1483–1530) نے رکھی ۔ 

ظہیر الدین محمد بابر پیدائش: 1483ء - وفات: 1530ء) ہندوستان میں مغل سلطنت کا بانی تھا۔ انہیں ماں پیار سے بابر -شیر)کہتی تھی۔ 

اس کاباپ عمر شیخ مرزا فرغانہ ترکستان کا حاکم تھا۔ باپ کی طرف سے تیمور اور ماں قتلغ نگار خانم کی طرف سے چنگیز خان کی نسل سے تھا۔ 

اس طرح اس کی رگوں میں دو بڑے فاتحین کا خون تھا۔ 

تاہم ، آج کے دور ازبکستان میں اپنے والد کی چھوٹی سی ریاست کے حاکم کی حیثیت سے ان کے ابتدائی سال نسبتا ناکام ثابت ہوئے۔ 

اس نے وادی فرغانہ میں اپنے آبائی وطن سمیت سمرقند کے بڑے شہر کا کنٹرول کھودیا تھا اور ااپنے پیروکاروں کے ایک چھوٹے سے گروہ کے ساتھ اس کو جلاوطنی پر مجبور کردیا گیا۔۔ بارہ برس کا تھا کہ باپ کا انتقال ہو گیا۔ چچا اور ماموں نے شورش برپا کردی جس کی وجہ سے گیارہ برس تک پریشان رہا۔ کبھی تخت پر قابض ہوتا اور کبھی بھاگ کر جنگلوں میں روپوش ہوجاتا۔ بالآخر 1504ء میں بلخ اور کابل کا حاکم بن گیا۔ 

اس جگہ سے اس نے متعدد مواقع پر صفوی کی مدد سے وسطی ایشیاء میں اپنا وطن فتح کرنے کی کوشش کی لیکن بالآخر ناکام رہا۔اس کے بجائے ، اس نے اپنی توجہ ہندوکش پہاڑوں کے پار اور ہندوستان کی طرف موڑ دی۔ 

مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر اور سلطان ابراہیم لودھی شاہ دہلی کے درمیان میں 1526ء میں پانی پت کے میدان میں ہوئی۔ سلطان ابراہیم لودھی کی فوج ایک لاکھ جوانوں پر مشتمل تھی۔ اور بابر کے ساتھ صرف بارہ ہزار آدمی تھے۔ مگر بابر خود ایک تجربہ کار سپہ سالار اور فن حرب سے اچھی طرح واقف تھا۔ 

سلطان ابراہیم لودھی کی فوج نے زبردست مقابلہ کیا۔ مگر شکست کھائی۔ سلطان ابراہیم لودھی اپنے امرا اور فوج میں مقبول نہ تھا۔ وہ ایک شکی مزاج انسان تھا، لاتعداد امرا اس کے ہاتھوں قتل ہوچکے تھے، یہی وجہ ہے کہ دولت خان لودھی حاکم پنجاب نے بابر کو ہندوستان پر حملہ کررنے کی دعوت دی اور مالی وفوجی مدد کا یقین دلایا۔ 

بابراور ابراہیم لودھی کا آمناسامنا ہوا تو لودھی فوج بہت جلدتتر بتر ہو گئی۔ سلطان ابراہیم لودھی مارا گیا اور بابر فاتح رہا۔ پانی پت کی جنگ میں فتح پانے کے بعد بابر نے ہندوستان میں مغل سلطنت کی بنیاد رکھی۔ 

اس کے آباؤ اجداد کے برعکس ، برصغیر میں بابر کی ریاست صدیوں تک قائم رہنے والی تھی۔مغل سلطنت کو منگول سلطنت کی توسیع مانا جاتا ہے مگر منگول ثقافت اور روایت نے اس دور میں نسبتا چھوٹا سا کردار ادا کیا۔ 

اس کے بجائے مغل سلطنت نے عربوں ، ترکوں ، پارسیوں اور ہندوستانیوں کے ملاپ کے طور پر کام کیا۔ 

عصری سلطنت عثمانیہ کی طرح مغل سلطنت نے بھی مختلف لوگوں اور روایات کو اکٹھا کیا۔ 

مغلیہ سلطنت کے کسی ہندو کے لئے فارسی میں مسلم دنیا کی بیشتر ادبی زبان کو پڑھنا یا لکھنا غیر معمولی بات نہیں تھی یا کسی فارسی مسلمان معمار کے لئے مقامی ہندو عمارتوں سے متاثر ہو کر تعمیر کرنا بھی کوئی عجب نہ تھا ۔ 

بابر کی وفات کے بعد نصیر الدین ہمایوں 29 دسمبر 1530ء کو تخت نشین ہوا۔ بابر کی آخری علالت کے دوران وزیر اعظم نظام الدین خلیفہ نے سازش کی کہ مہدی خواجہ، جو ہمایوں کا بہنوئی اور تجربہ کار سپہ سالار تھا، کو تخت پر بٹھادیا جائے لیکن یہ سازش ناکام رہی اور بابر نے پہلے ہی امرا کو وصیت کی کہ وہ ہمایوں کو تخت نشین کریں اور اس سے وفاداری نبھائیں۔ اس طرح بابر کی وفات پر ہمایوں تخت نشین ہوا۔ 

1530ء تا 1540ء اور پھر 1555ء تا 1556ء مغلیہ سلطنت کا حکمران۔ بانئ سلطنت ظہیر الدین بابر کا بیٹا تھا۔ اس کے تین اور بھائی کامران، عسکری اور ہندالی تھے۔ 17 مارچ، 1508ء میں کابل میں پیدا ہوا۔ اس کی والدہ کا نام ماہم بیگم تھا۔ ہمایوں نے ترک، فارسی اور عربی کی تعلیم حاصل کی۔ اسے حساب، فلسفہ، علم نجوم اور علم فلکیات سے خصوصی دلچسپی تھی۔ سپہ گری اور نظم و نسق کی اعلیٰ تربیت حاصل کی اور صرف 20 سال کی عمر میں بدخشاں کا گورنر مقرر ہوا۔ اس نے پانی پت اور کنواہہ کی لڑائیوں میں شمولیت اختیار کی۔ اس کی خدمات کے صلے میں اسے حصار فیروزہ کا علاقہ دے دیا گیا۔ 1527ء کے بعد اسے دوبارہ بدخشاں بھیج دیا گیا۔ 1529ء جب وہ آگرہ واپس لوٹا تو اسے سنبھل کی جاگیر کے انتظامات سونپے گئے۔ 

ورثے میں ملا ہوا تخت ہمایوں کے لیے پھولوں کی سیج ثابت نہ ہوا۔ بابر کو اتنی فرصت ہی نہ ملی کہ وہ اپنی پوزیشن اور حکومت کو مجتمع و مستحکم کرتا اور یہی غیر مستحکم حکومت ہمایوں کی مشکلات کا باعث بنی۔بہت سے مورخین کی رائے میں ہمایوں نے خود متعدد فاش غلطیوں کا ارتکاب کیا اور اپنے کردار کی خامیوں کے باعث اسے مشکلات سے دوچار ہونا پڑا اور اپنی سلطنت سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔ 

ہندوستان کی حکومت دوبارہ حاصل کرنے کے بعد ہمایوں طویل عرصہ زندہ نہ رہاوہ ایک شام کو اپنے کتب خانہ کی سیڑھیاں اتر رہاتھا کہ اذان مغرب کی آواز سنی وہ سیڑھیوں پر ہی رک گیا مگر بدقسمتی سے اس کی لاٹھی پھسل گئی اور وہ سیڑھیوں سے گر کر شدید زخمی ہو گیا اور انہیں زخموں سے اس کا انتقال ہو گیا۔ مشہور یورپی مؤرخ لین پول کے مطابق “اس نے تما م عمر ٹھوکریں کھائیں اور بالآخر ٹھوکر کھاکر مرا“Babar, Rulers of India series (1899) Stanley Lane-Poole 

جلال الدین اکبر :
 سلطنت مغلیہ کے تیسرے فرماں رواظہیر الدین محمد بابر اور ہمایوں کے بعد،ہمایوں کابیٹا تھا۔ ہمایوں نے اپنی جلاوطنی کے زمانے میں سندھ کے تاریخی شہر دادو کے قصبے "پاٹ" کی عورت حمیدہ بانو سے شادی کی تھی۔ اکبر اُسی کے بطن سے 1542ء میں سندھ میں عمر کوٹ کے مقام پر پیدا ہوا۔ ہمایوں کی وفات کے وقت اکبر کی عمر تقریباً چودہ برس تھی اور وہ اس وقت اپنے اتالیق بیرم خان کے ساتھ کوہ شوالک میں سکندر سوری کے تعاقب میں مصروف تھا۔ باپ کی موت کی خبر اسے کلانور ضلع گروداسپورمشرقی پنجاب میں ملی۔ بیرم خان نے وہیں اینٹوں کا ایک چبوترا بنوا کر اکبر کی رسم تخت نشینی ادا کی اور خود اس کا سرپرست بنا۔ تخت نشین ہوتے ہی چاروں طرف سے دشمن کھڑے ہو گئے۔ ہیموں بقال کو پانی پت کی دوسری لڑائی میں شکست دی۔ مشرق میں عادل شاہ سوری کو کھدیڑا۔ پھر اس نے اپنی سلطنت کو وسعت دینی شروع کی۔ 

مغل ہندوستان نے ایک مستحکم اور مستحکم معیشت تیار کی ، جس کے نتیجے میں تجارتی توسیع اور ثقافت کی زیادہ تر سرپرستی ہوئی۔ اکبر خود آرٹ اور ثقافت کا سرپرست تھا۔ انہیں ادب کا شوق تھا ، اور سنسکرت ، اردو ، فارسی ، یونانی ، لاطینی ، عربی اور کشمیری میں لکھی گئی 24،000 سے زیادہ جلدوں کی لائبریری تشکیل دی ، جس کے عملے میں بہت سارے اسکالرز ، مترجم ، آرٹسٹ ، خطاط ، مصنفین ، کتاب ساز اور قارئین موجود تھے۔ 

اس نے خود کو تین اہم گروہوں کے ذریعے خود کیٹلاگ میں شامل کیا۔ اکبر نے فتح پور سیکری کی لائبریری کو خصوصی طور پر خواتین کے لئے بھی قائم کیا ، اور اس نے فیصلہ دیا کہ مسلمانوں اور ہندوؤں دونوں کی تعلیم کے لئے اسکول پورے دائرے میں قائم کیے جانے چاہئیں۔ 

انہوں نے کتاب سازی کو بھی ایک اعلی فن بننے کی ترغیب دی۔ بہت سارے عقائد ، شاعروں ، معماروں اور کاریگروں کے مقدس انسانوں نے مطالعہ اور گفتگو کے لئے پوری دنیا سے اس کے دربار کو آراستہ کیا۔ 

دہلی ، آگرہ ، اور فتح پور سیکری میں اکبر کی عدالتیں فنون ، خطوط اور سیکھنے کے مراکز بن گئیں۔ اسلامی ثقافت نے مقامی ہندوستانی عناصر کے ساتھ مل جانا شروع کیا ، اور مغل طرز کے فنون ، مصوری اور فن تعمیر کے ذریعہ ایک الگ ہند فارسی ثقافت ابھری۔ آرتھوڈوکس اسلام سے مایوسی اور شاید اپنی سلطنت کے اندر مذہبی اتحاد کو قائم کرنے کی امید میں ، اکبر نے دین الہٰی کو جنم دیا ، جو ایک ہم آہنگی مذہب ہے جو بنیادی طور پر اسلام اور ہندو مذہب کے ساتھ ساتھ زرتشت پسندی اور عیسائیت کے کچھ حصوں سے اخذ کیا گیا ہے۔ 

اکبر نے نہایت اعلیٰ دماغ پایا تھا۔ ابوالفضل اور فیضی جیسے عالموں کی صحبت نے اس کی ذہنی صلاحیتوں کو مزید جلا بخشی۔ اس نے اس حقیقت کا ادراک کر لیا تھا کہ ایک اقلیت کسی اکثریت پر اس کی مرضی کے بغیر زیادہ عرصے تک حکومت نہیں کر سکتی۔ 

اس نے ہندوؤں کی تالیف قلوب کی خاطر انہیں زیادہ سے زیادہ مراعات دیں اور ان کے ساتھ ازدواجی رشتے قائم کیے۔ اکبر نے ایک ہندو عورت جودھا بائی سے بھی شادی کی جو اس کے بیٹے جہانگیر کی ماں تھی۔ جودھا بائی نے مرتے دم تک اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ 

نیز دین الہٰی کے نام سے ایک نیا مذہب بھی جاری کیا۔ جو ایک انتہا پسندانہ اقدام تھا اور اکبر کے ہندو رتنوں کی مسلسل کوششوں کا نتیجہ تھا۔ دین الہًی کی وجہ سے اکبر مسلمان امرا اور بزرگان دین کی نظروں میں ایک ناپسندیدہ شخصیت قرار پایا۔ وہ خود ان پڑھ تھا۔ لیکن اس نے دربار میں ایسے لوگ جمع کر لیے تھے جو علم و فن میں نابغہ روزگار تھے۔ انہی کی بدولت اس نے بچاس سال بڑی شان و شوکت سے حکومت کی اور مرنے کے بعد اپنے جانشینوں کے لیے ایک عظیم و مستحکم سلطنت چھوڑ گیا۔ 



اکبر کے نو رتن 



شہنشاہ اکبر ِاعظم کے اہم درباریوں میں وہ "نورتن"بھی شامل تھے جن میں سے ہر ایک اپنی جگہ باکمال تھا اور اُن سب کی زندگی کے چند اہم پہلو ہی اُنکی وہ پہچان بنے جس کی وجہ سے آج بھی اُنکا ذکر مختلف شعبوں میں اہم سمجھا جاتا ہے۔ راجا ٹو ڈرمل اور عبد الرحیم خان خاناں کے علاوہ کوئی بھی منصب وزارت پر فائز نہ تھا لیکن یہ سب بادشاہ کے جلوت و خلوت کے شریک اور مشیر کار تھے۔ 

( 1) راجا بیربل 

اکبر کی تخت نشینی پردربار میں حاضر ہوا اور اپنی لطیفہ گوئی اور سخن سنجی سے بادشاہ کے مصاحبوں میں شامل ہو گیا۔ اکبر نے ایک دانشور‘شاعر اور گلوکار کی حیثیت سے بیربل کو1556میں اپنے دربار میں جگہ دی تھی۔ بیربل نے راجا سے بہت قربت حاصل کی۔ اہم معاملات میں اکبر مشاورت کے لیے اس کو اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ بیربل کو کئی مقامی دیہی کہانیاں یاد تھیں وہ انتہائی چالاک بھی تھا۔ اکبر نے اس کو راجا کا خطاب دے کر اپنے 9رتن میں شامل کر لیا۔ اکبر نے اس کو اپنا مذہبی مشیر بھی بنایا تھا اور وہ دین الہی ٰ قبول کرنیوالا واحد ہندو تھا 

( 2) ابو الفضل فیضی 

انہوں نے عربی زبان میں تعلیم حاصل کی۔ 5برس کی عمر میں ہی وہ لکھنے اور پڑھنے کے قابل ہو گئے تھے۔ اکبر کے دربار میں شاعر اور ادیب کی حیثیت سے موجود تھے۔ بہت اچھا ہونے کی وجہ سے اکبر نے انہیں ’’ ملکہ الشعراء‘‘ کا خطاب عطا کیا اور انہیں شہزادہ مراد کا اتالیق مقرر کیا۔ تین شہزادوں کے استاد رہے۔ تاریخ، فلسفہ اور طب وادبیات کے ماہرتھے۔ ابو الفضل کے تعلق سے جو منفی بات مشہور ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے اکبر کو دین الہیٰ رائج کرنے کے لیے کافی ترغیب دی۔ عقائد کے معاملے میں وہ اکبر کے خیالات پر حاوی تھے۔ 

عام طور پر کہا جاتا ہے کہ اس کی تصنیفات 101 تھیں چند مشہور کتابیں یہ ہیں 

سواطع الالہام بے نقط تفسیرہیں،مرکز ادوار،سلیمان وبلقیس،اکبر نامہ (اکبر کی سوانح حیات پر مشتمل تحریرجس کی تین جلدیں ہیں، 

بیجاگڑنت،لیلاوتی اورمہابھارت کا ترجمہ (مہا بھارت کے ایک حصہ کا ترجمہ سنسکرت میں کیا)،دیوان طباشیر الصبح، 

(3) ابو الفضل علامی 

1572ء میں اپنے بھائی فیضی کے ساتھ دربار اکبری میں باریاب ہوا۔ آہستہ آہستہ تقرب شاہی حاصل کر لیا۔ یہاں تک کہ صدر الصدور کے عہدے پر فائز ہوا۔ 1600ء میں منصب چار ہزاری پر فائز ہوا۔ شہزادہ سلیم جہانگیر کا خیال تھا کہ ابوالفضل اس کے بیٹے خسرو کو ولی عہد بنانا چاہتا ہے۔ 

چنانچہ اس کے اشارے پر راجا نرسنگھ دیو نے اسے اس وقت قتل کر دیا جب وہ دکن لوٹ رہا تھا۔ 

اپنے وقت کا علامہ اور بلند پایہ مصنف تھا۔ علامی تخلص رکھتا تھا۔ آزاد خیال فلسفی تھا۔ علما اسے دہریہ سمجھتے تھے۔ 

اکبر کے دین الٰہی کے اجرا کا سبب اسی کو گردانا جاتا ہے۔ اکبر نامہ اور آئین اکبری مشہور تصانیف ہیں۔ اس کے خطوط کا مجموعہ مکتوب علامی فارسی ادب کا شاہکار سمجھا جاتا ہے۔ 



(4) تان سین 

تان سین کا اصلی نام رمتانو پانڈے تھا۔ وہ گوالیار میں ایک مندر کے پجاری کے گھر پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے جوانی میں اسلام قبول کر لیا تھا۔ 

اکبر کے نورتن میں شامل کیے جانے کے بعد لوگ ادب سے ان کو میاں تان سین کہتے تھے اکبر خاص موقعوں پر ان سے راگ اور آلاپ کی فرمائش کرتا تھا۔ تان سین کے تمام بچے بھی موسیقار ہوئے 

رصغیر کی کلاسیکی موسیقی تان سین کے راگوں پر ہی زندہ ہے۔ اس کے بعد آنے والے استادوں نے راگ ودیا میں تبدیلی یا نئے تجربے کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور عملاً یہ راگ اسی حالت میں ہیں جس میں تان سین نے ان کی تکمیل کی تھی۔ تان سین کی برسی گوالیار میں ہر سال منائی جاتی ہے۔ جہاں فن موسیقی کے شائقین کا بہت بڑا اجتماع ہوتا ہے۔ 

6برس کی عمر سے ہی انہوں نے موسیقی میں اپنی مہارت دکھانا شروع کر دیا تھا۔ وہ سوامی ہری داس کے بھگت تھے۔ بے شمار راگوں کو موجودہ فنی شکل تان سین ہی نے دی۔ درباری کانپڑا، میاں کی ٹوڈی اور میاں کا سارنگ جیسے راگ بھی انھیں کی کوششوں کا نتیجہ ہیں۔ 

(5) عبد الرحیم خان خاناں 

20سال کی عمر میں شہزادہ سلیم (جہانگیر)کے اتالیق مقرر ہوئے۔ عبد الرحیم نے مغل سلطنت میں اچھا کردار ادا کیا۔ نہایت حسین تھے۔ مختلف معرکوں میں سپاہیانہ جوہر دکھائے اور کئی بغاوتوں کو ناکام کیا۔ بہادر سپاہی ،عالم فاضل اور عربی،فارسی،ترکی ،سنسکرت کے ماہر تھے۔ ہندی میں شعر کہتے تھے۔ ان سب خوبیوں کی وجہ سے اہم نورتن رہے۔ 

ہ ایک اچھے شاعر اور قصہ گو بھی تھے۔ وہ علم نجوم میں مہارت رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ اردو زبان کے ایک فصیح و بلیغ شاعر تھے۔ انہیں سنسکرت پر بھی عبور حاصل تھا۔ پنجاب کے نو شہر ضلع میں ایک دیہات کو ان کے نام خان خانخانہ سے موسوم کیا گیا ہے۔ 

(6) راجہ مان سنگھ 

راجا مان سنگھ برہمن ہندو تھا۔ اُسکی وفاداری اور ملنساری اکبر بادشاہ کے دل پر نقش ہو گئی۔ جس کی رفاقت نے بادشاہ کو اپنائیت اور محبت سکھائی۔ بلکہ کہا جاتا ہے کہ اُنکی وجہ سے اکبر بادشاہ کو ہندوستان میں پزیرائی حاصل ہوئی اور تیموری خاندان کی بنیاد بھی مضبوط ہوئی۔ بہادری اور جوانمردی میں اپنی مثال آپ تھا لہذا سپہ سالار بھی مقرر ہوا۔ اُسکی بہن کی شادی جہانگیر سے ہوئی اور پھر جہانگیر کے بیٹے خسرو کے اتالیق بھی مقرر ہوئے۔ 

جبکہ ایک روایت کے مطابق اکبر نے اپنی سلطنت کو مضبوط کرنے کے لیے راجا مان سنگھ کی بہن مریم الزمانی سے شادی کی تھی یہ ملکہ ہو کر بھی ہندو دھرم پر قائم تھی۔ 



( 7) ملا دو پیازہ 

اصل نام ابوالحسن بن ابو المحاسن بن ابو المکارم تھا۔ ایک تاریخ داں حافظ محمد شیرانی کہتے ہیں کہ ملادوپیازہ کا اصل نام عبد المومن تھا۔ 

اپنی خوش خلقی اور لطیفہ گوئی سے شہر میں شہرت ہوئی تو ایک دعوت پر مدعو ہونے پر کھانا بہت پسند آیا۔ کھانے کا نام پوچھا تو جواب ملا کہ" دوپیازہ پلاؤ"۔ اُنھوں نے کہا کہ آئندہ کسی بھی دعوت میں شرکت پر اس کھانے کی تمنا ہو گی۔ 

بس وہاں سے ہی اس نام سے مشہور ہو گیا۔ بیربل کی طرح ملا دو پیازہ کے بھی کئی واقعات نے تاریخ میں کہانیوں کی شکل لے لی ہے ان کو ہمیشہ بیربل کے حریف کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور ان دونوں کی نوک جھونک سے اکبر کے دربار میں کافی تفریح کا سامان مہیا رہتا تھا۔ کئی اسکالرس ان کو ایک افسانوی کردار مانتے ہیں۔ ایک تاریخ داں کا کہنا ہے کہ ملا دوپیازہ عرف ابو الحسن ایران سے ہمایوں کے ساتھ ہندوستان آئے تھے۔ اور اکبر کے دوست ہو گئے۔ ان کو دوپیازہ بہت پسند تھا اور وہ اس کو سید الطوام کہتے تھے۔ اسی لیے ان کا نام ملا دوپیازہ پڑ گیا۔ وہ کسی دعوت اسی وقت قبول کرتے جب کھانے میں دوپیازہ ہوتا تھا۔ 

(8) راجہ ٹوڈرمل 

ٹوڈرمل پہلے شیر شاہ سوری کے دربار میں کام کرتے تھے جب مغلوں نے سوری خاندان کی حکومت کا خاتمہ کر دیا تو ٹو ڈرمل مغلیہ خاندان کے وفادار بن گئے۔ اکبر نے ان کو آگرہ کے انتظام کی ذمہ داری سونپی تھی۔ 

دربار اکبری سے منسلک ہوئے تو بادشاہ کے نور نظر بن گئے اور اپنی اعلٰی قابلیت اور اپنی ہنر مندی کی بدولت یہاں تک ترقی کی کہ سارے ہندوستان میں 22 صوبوں کے دیوان کل اور وزیرباتدبیر کا رتبہ پایا۔ مہابلی سفر حضر دونوں میں اپنے ساتھ رکھنے لگے۔ بالآخر اپنے نورتنوں میں شامل کر کے راجا ٹوڈرمل کو موتمن الدولہ (سلطنت کا امین) اورعندۃالملک (معتبرسردار یا امیر) کے خطابات دیے۔ 

بہت سی جنگی مہمات خصوصاً بنگال کی لڑائیوں میں راجا توڈرمل نے کمال بہادری کا ثبوت دیااور فتح سے ہمکنار ہوئے۔ اس پر چارہزاری کا منصب بھی عطا ہوا۔ برصغیر پاک و ہند میں زمین کی مال گزاری، خرید و فروخت اور دیگر حساب کے کاغذات میں راجا توڈرمل کی ہی اصطلاحات اور الفاظ آج بھی استعمال ہو رہے ہیں۔ ٹو ڈرمل کا ایک کارنامہ یہ ہے کہ اس نے بھگوت گیتا کا ترجمہ فارسی زبان میں کیا تھا۔ 

(9) مرزا عزیز کوکلتاش


آپ کی والدہ نے اکبر کو دودھ پلایا تھا لہذا وہ اکبر بادشاہ کے رضاعی بھائی کہلائے اور اس وجہ سے اُنکا حترام بھی بہت تھا۔ خان اعظم کا خطاب بھی حاصل ہوا۔ بادشاہ ہر وقت اُنہیں اپنے ساتھ رکھتے تھے اور ہاتھی پر سواری کے وقت اُنہیں خواصی پربٹھاتے تھے۔ ایک طرف سخاوت و شجاعت کی وجہ سے درباری پسند کرتے تھے تو دوسری طرف غصے و سخت مزاج کی وجہ سے چند اچھے انسان اُن سے نالاں بھی تھے۔ طبیعت میں زمانہ سازی بالکل نہ تھی۔ سپاہی کمال کے تھے۔ علمی وعملی صلاحیتوں میں عالمانہ مقام تھا۔ فارسی کے ماہر تھے۔ طبعی موت پائی. 

اکبر اعظم کے تین لڑکے تھے۔ سلیم، مراد اور دانیال مغل خاندان۔ مراد اور دانیال باپ کی زندگی ہی میں شراب نوشی کی وجہ سے مر چکے تھے۔ اکبر اعظم کی 1605ء میں وفات کے بعد شہزادہ سلیم نور الدین جہانگیر کے لقب سے تخت نشین ہوا۔ اس نے کئی مفید اصلاحات نافذ کیں: 

1. کان اور ناک اور ہاتھ وغیرہ کاٹنے کی سزائیں منسوخ کیں۔ 

2. شراب اور دیگر نشہ آور اشیا کا استعمال حکماً بند کیا۔ 

3. کئی ناجائز محصولات ہٹا دیے۔ 

4. خاص خاص دنوں میں جانوروں کا ذبیحہ بند کر دیا۔ 



This post first appeared on SMART AI KNOWLEDGE, please read the originial post: here

Share the post

Lost IslamicHistory urdu translation Part 20 Mughals مغل سلطنت

×

Subscribe to Smart Ai Knowledge

Get updates delivered right to your inbox!

Thank you for your subscription

×