Get Even More Visitors To Your Blog, Upgrade To A Business Listing >>

تمہاری شاعری کیا ہے بھلا

دیکھیے، ایک بات تو آپ مانیں گے کہ برسوں سے مشاعرہ سننے جانے والوں، وی سی آر پر مشاعروں کی کیسٹ لا کر مشاعرہ سننے والوں اور آج گوگل/ یوٹیوب پر ’’دل شاعری، محبت شاعری، عشق شاعری، اردو سیڈ پوئٹری‘‘ لکھ کر ’’سرچ‘‘ کرنے والوں میں کچھ تو فرق ہو گا؟ ہمیں یہ دعویٰ ہرگز نہیں کہ ہم شاعری کو بہتر سمجھتے ہیں، نہ ہی آپ پر یہ الزام ہے کہ آپ شاعری کی سمجھ نہیں رکھتے۔ ہماری اپنی پسند ہے۔ مثلاً ہم اداسی، دکھ یا تکلیف کو ایسے دیکھتے ہیں جیسے جون بھائی نے بیان کیا:

تمہاری شاعری کیا ہے بھلا، بھلا کیا ہے؟
تم اپنے دل کی اداسی کو گانے لگتے ہو

یا ہم میر کے رنج و اداسی کے قائل ہیں، جنہوں نے بتایا:

ان نے کھینچا ہے مرے ہاتھ سے داماں اپنا
کیا کروں گر نہ کروں چاک گریباں اپنا

یا پھر:
رات گزرے ہے مجھے نزع میں روتے روتے
آنکھیں پھر جائیں گی اب صبح کے ہوتے ہوتے

جم گیا خوں کف قاتل پہ طرح میرؔ زبس
ان نے رو رو دیا کل ہاتھ کو دھوتے دھوتے

اب آپ کے ہاں اداسی کا تصور بدل چلا ہے۔ آپ کے نزدیک اداسی اس حسینہ کی کیفیت ہے جس نے دل پر پتھر رکھا، پھر منہ پر میک اپ کیا اور ناچ ناچ کے سب کو بتایا کہ میرے سیّاں جی سے آج میرا بریک اپ ہو گیا! آپ کے نزدیک ترکِ تعلق کی اداسی یہ ہے، ہمارے نزدیک یہ درد محسن نقوی نے یوں بیان کیا ہے:

وہ شخص شہر کے لوگوں میں ڈھلتا جاتا ہے
کہ اس کی بات کا لہجہ بدلتا جاتا ہے

اسے بھی دکھ ہے تعلق کے ٹوٹ جانے کا
وہ جا رہا ہے مگر ہاتھ ملتا جاتا ہے

ہاتھ ملنے اور منہ پر میک اپ ملنے کا یہ جو فرق ہے، بس یہی ہمارے اور آپ کے درمیان کا فرق ہے۔ ہم کو اگر میر، غالب یا جون کی اداسی مائل کرتی ہے تو آپ کو یہ قلق رہتا ہے کہ:

تیرے ہوتے ہوئے موم بتی بجھائی کسی اور نے
کیا خوشی رہ گئی تھی جنم دن کی میں کیک کیا کاٹتا

اب اگر آپ اس کیفیت پر جھوم رہے ہیں تو جون نے بلاوجہ ہی اتنی محنت کی اور یہ شاہکار تخلیق کیا:
اے وصل کچھ یہاں نہ ہوا، کچھ نہیں ہوا
اس جسم کی میں جاں نہ ہوا، کچھ نہیں ہوا

تو آج میرے گھر میں جو مہماں ہے، عید ہے!
تو گھر کا میزباں نہ ہوا، کچھ نہیں ہوا

کیا یہ ستم کم ہے کہ آپ کسی شاعر کو دورِ حاضر کا جون ایلیا قرار دے دیں، وہ بھی صرف اس بنیاد پر کہ وہ چھوٹی بحر میں کچھ تُک بندی کرنے پر قادر ہے؟ یہ ظلم تو اشتیاق احمد کے چاہنے والوں نے انہیں دور حاضر کا ابن صفی قرار دے کر بھی نہیں کیا تھا۔ شاعری سمجھنا کچھ دشوار نہیں، تھوڑی محنت اور دلچسپی کی ضرورت ہے۔ شاعر کو اس کے کام سے جج کیجیے۔ ملنگ بنے، ہاتھ میں انگوٹھیاں پہنے، بال بڑھائے اور خلا میں گھورتے لوگ تو مزاروں پر بھی بہت مل جاتے ہوں گے۔ شاعر کا اپنا رنگ دیکھیے، کسی اور کے رنگ میں رنگا شخص اپنی انفرادی حیثیت میں کیا ہے؟ آپ کو کس نے روک رکھا ہے کہ آپ بڑے بڑے شعراء کو نہ پڑھیں؟

کتنی آسانی سے آپ احباب کہہ دیتے ہیں کہ غالب اور میر ہماری سمجھ میں نہیں آتے۔ سمجھ میں کہاں سے آئیں گے؟ آپ کوشش کرتے ہی نہیں۔ پڑھیے! اور اگر وہ سمجھ میں نہ آئیں تو لغت سے رجوع کیجیے، صاحب علم احباب سے پوچھیے۔ آج کے نامور شعراء کو پڑھیے، گئے زمانوں کے لوگوں کو پڑھیے۔ یہ باتیں لغو ہیں کہ آج کی شاعری الگ ہے یا آج کا مزاج یہی ہے۔ غالب یا میر دو سو سال بعد بھی اثر رکھتے ہیں، شیکسپیئر کو چار سو سال بعد بھی لوگوں نے یاد رکھا ہے… چار ہزار سال بعد بھی رکھیں گے۔ تہذیب حافی ہوں یا علی زریون، مجھے ان سے کوئی ذاتی مسئلہ نہیں۔ میں تو علی کی پنجابی نظم ’’چوڑا‘‘ سن کر جھوم اٹھا تھا۔ ایک دوست سے گزارش بھی کی تھی کہ علی سے کہیے کہ فیس بک پر میری دوستی کی درخواست قبول کر لیں۔ 

ان احباب کی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ اگر لوگ انہیں سنتے اور پسند کرتے ہیں تو یہ معیاری کام کریں۔ دور گزشتہ کے بڑے بڑے ناموں کو بھی اپنے صفحات کی زینت بنائیں اور اپنی فین بیس کو دور حاضر کے اچھے ناموں سے بھی روشناس کرائیں، زبان کی خدمت کریں۔ اچھا شعر کہیں، کمرشل شاعری نہ کریں۔ مشاعرے کو مشاعرہ سمجھیں، کنسرٹ نہ بنائیں۔ سب سے اہم یہ ہے کہ اساتذہ کو عزت دیجیے اور عزت دلوائیے بھی۔ مقبولیت خدا کی عطا ہے، انہیں عزت الله نے دلوائی ہے۔ اب ان کا کام ہے کہ زبان کو عزت دلوائیں، اس کا حق ادا کریں! میں نے شروع میں ویڈیو کیسٹ کے مشاعرے کا حوالہ دیا تھا، ہمارے اور آپ کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔ بس ایک معمولی فرق ہے، ہم ویڈیو کیسٹ لگا کر بھی ٹی وی پر بھی مشاعرہ ’’سنا‘‘ کرتے تھے، آپ محفل مشاعرہ میں شرکت بھی مشاعرہ ’’دیکھنے‘‘ کےلیے کرتے ہیں۔

احمد اشفاق  



This post first appeared on Urdu Classic, please read the originial post: here

Share the post

تمہاری شاعری کیا ہے بھلا

×

Subscribe to Urdu Classic

Get updates delivered right to your inbox!

Thank you for your subscription

×