Get Even More Visitors To Your Blog, Upgrade To A Business Listing >>

بیماری اور تیمارداری : مشتاق احمد یوسفی

تو کوئی نہ ہو تیمار دار؟جی نہیں ! بھلا کوئی تیمار دار نہ ہو تو بیمار پڑنے سے فائدہ؟ اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو؟ توبہ کیجئے ! مرنے کا یہ اکل کھرا دقیانوسی انداز مجھے کبھی پسند نہ آیا۔ ہو سکتا ہے غالب کے طرفدار یہ کہیں کہ مغرب کو محض جینے کا قرینہ آتا ہے، مرنے کا سلیقہ نہیں آتا۔ اور سچ پوچھئے تو مرنے کا سلیقہ کچھ مشرق ہی کا حصہ ہے۔ اسی بنا پر غالب کی نفاست پسند طبیعت نے حج میں وبائے عام میں مرنا اپنے لائق نہ سمجھا کہ اس میں ان کی کسر شان تھی۔ حالانکہ اپنی پیش گوئی کو صحیح ثابت کرنے کی غرض سے وہ اسی سال مرنے کے آرزو مند تھے۔ اس میں شک نہیں کہ ہمارے ہاں با عزت طریقے سے مرنا ایک حادثہ نہیں، ہنر ہے جس کے لیے عمر بھر ریاض کرنا پڑتا ہے۔ 

اور اللہ اگر توفیق نہ دے تو یہ ہر ایک کے بس کا روگ نہیں۔ بالخصوص پیشہ ور سیاستدان اس کے فنی آداب سے واقف نہیں ہوتے۔ بہت کم لیڈر ایسے گزرے ہیں جنھیں صحیح وقت پر مرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ میرا خیال ہے کہ ہر لیڈر کی زندگی میں، خواہ کتنا ہی گیا گزرا کیوں نہ ہو، ایک وقت ضرور آتا ہے جب وہ ذرا جی کڑا کر کے مر جائے یا اپنے سیاسی دشمنوں کو رشوت دے کر اپنے آپ کو شہید کرا لے تو وہ لوگ سال کے سال نہ سہی، ہر الیکشن پر ضرور دھوم دھام سے اس کا عرس منایا کریں۔ البتہ وقت یہ ہے کہ اس قسم کی سعادت دوسرے کے زور بازو پر منحصر ہے۔ اورسعدیؒ کہہ گئے ہیں کہ دوسرے کے بل بوتے پر جنت میں جانا عقوبت دوزخ کے برابر ہے۔ پھراس کا کیا علاج کہ انسان کو موت ہمیشہ قبل از وقت اور شادی بعد از وقت معلوم ہوتی ہے۔

بات کہاں سے کہاں جا پہنچی۔ ورنہ سردست مجھے ان خوش نصیب جواں مرگوں سے سروکار نہیں جو جینے کے قرینے اور مرنے کے آداب سے واقف ہیں۔ میرا تعلق تو اس مظلوم اکثریت سے ہے جس کو بقول شاعر جینے کی ادا یاد ، نہ مرنے کی ادا یاد چنانچہ اس وقت میں اس بے زبان طبقہ کی ترجمانی کرنا چاہتا ہوں جو اس درمیانی کیفیت سے گزر رہا ہے جو موت اور زندگی دونوں سے زیادہ تکلیف دہ اور صبر آزما ہے۔ یعنی بیماری! میرا اشارہ اس طبقہ کی طرف ہے جسے سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے صحت کے سوامیں اس جسمانی تکلیف سے بالکل نہیں گھبراتا جو لازمہ علالت ہے۔ اسپرین کی صرف ایک گولی یا مارفیا کا ایک انجکشن اس سے نجات دلانے کے لیے کافی ہے۔ لیکن اس روحانی اذیت کا کوئی علاج نہیں جو عیادت کرنے والوں سے مسلسل پہنچتی رہتی ہے۔ 

ایک دائم المرض کی حیثیت سے جو اس درد لادوا کی لذت سے آشنا ہے، میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ مارفیا کے انجکشن مریض کے بجائے مزاج پرسی کرنے والوں کے لگائے جائیں تو مریض کو بہت جلد سکون آ جائے۔ اردو شاعری کے بیان کو باور کیا جائے تو پچھلے زمانے میں علالت کی غایت ’’تقریب بہر ملاقات‘‘ کے سوا کچھ نہ تھی۔ محبوب عیادت کے بہانے غیر کے گھر جاتا اور ہر سمجھ دار آدمی اسی امید میں بیمار پڑتا تھا کہ شاید کوئی بھولا بھٹکا مزاج پرسی کو آ نکلے۔علالت بے عیادت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی اس زمانے کے انداز عیادت میں کوئی دل نوازی ہو تو ہو، میں تو ان لوگوں سے ہوں جو محض عیادت کے خوف سے تندرست رہنا چاہتے ہیں۔

ایک حساس دائم المرض کے لیے ’’مزاج اچھا ہے ؟‘‘ایک رسمی یا دعائیہ جملہ نہیں بلکہ ذاتی حملہ ہے جو ہر بار اسے احساس کمتری میں مبتلا کر دیتا ہے۔ میں تو آئے دن کی پرسش حال سے اس قدر بے زار ہو چکا ہوں کہ احباب کو آگاہ کر دیا ہے کہ جب تک میں بقلم خود یہ اطلاع نہ کر دوں کہ آج اچھا ہوں۔ مجھے حسب معمول بیمار ہی سمجھیں اور مزاج پرسی کر کے شرمندہ ہونے کا موقع نہ دیں۔ سنا ہے کہ شائستہ آدمی کی یہ پہچان ہے کہ اگر آپ اس سے کہیں کہ مجھے فلاں بیماری ہے تو وہ کوئی آزمودہ دوا نہ بتائے۔ شائستگی کا یہ سخت معیار تسلیم کر لیا جائے تو ہمارے ملک میں سوائے ڈاکٹروں کے کوئی اللہ کا بندہ شائستہ کہلانے کا مستحق نہ نکلے۔ 

یقین نہ آئے تو جھوٹ موٹ کسی سے کہہ دیجئے گا کہ مجھے زکام ہو گیا ہے۔ پھر دیکھئے، کیسے کیسے مجرب نسخے، خاندانی چٹکلے اور فقیری ٹوٹکے آپ کو بتائے جاتے ہیں۔ میں آج تک یہ فیصلہ نہ کر سکا کہ اس کی اصل وجہ طبی معلومات کی زیادتی ہے یا مذاق سلیم کی کمی۔ بہرحال بیمار کو مشورہ دینا ہر تندرست آدمی اپنا خوش گوار فرض سمجھتا ہے اور انصاف کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں ننانوے فی صد لوگ ایک دوسرے کو مشورے کے علاوہ اور دے بھی کیا سکتے ہیں ؟بعض اوقات احباب اس بات سے بہت آزردہ ہوتے ہیں کہ میں ان کے مشوروں پر عمل نہیں کرتا۔ حالانکہ ان پر عمل پیرا نہ ہونے کا واحد سبب یہ ہے کہ میں نہیں چاہتا کہ میرا خون کسی عزیز دوست کی گردن پر ہو۔ 

اس وقت میرا منشا صلاح و مشورہ کے نقصانات گنوانا نہیں (اس لیے کہ میں دماغی صحت کے لیے یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ انسان کو پابندی سے صحیح غذا اور غلط مشورہ ملتا رہے۔ اسی سے ذہنی توازن قائم رہتا ہے) نہ یہاں ستم ہائے عزیزاں کا شکوہ مقصود ہے۔ مدعا صرف اپنے ان بہی خواہوں کو متعارف کرانا ہے جو میرے مزمن امراض کے اسباب و علل پر غور کرتے اور اپنے مشورے سے وقتاً فوقتاً مجھے مستفید فرماتے رہتے ہیں۔ اگراس غول میں آپ کو کچھ جانی پہچانی صورتیں نظر آئیں تو میری خستگی کی داد دینے کی کوشش نہ کیجئے، آپ خود لائق ہمدردی ہیں۔

مشتاق احمد یوسفی

بشکریہ دنیا نیوز
 



This post first appeared on Urdu Classic, please read the originial post: here

Share the post

بیماری اور تیمارداری : مشتاق احمد یوسفی

×

Subscribe to Urdu Classic

Get updates delivered right to your inbox!

Thank you for your subscription

×