Get Even More Visitors To Your Blog, Upgrade To A Business Listing >>

پاکستان میں دم توڑتی کتب بینی

ویسے تو قدرت کا بنایا ہوا ہر موسم ہی اپنی مثال آپ ہے ‘مگر جاڑے کی بات ہی الگ ہے۔ شاعر ہوں یا ادیب‘ موسم سرما ہمیشہ خاص اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اگر دسمبر اور جنوری کے مہینے نکال دیے جائیں تو کئی شاعر اشعار کی دنیا سے غائب ہو جائیں۔ سرد راتیں ہمارے لیے بھی انتہائی کشش رکھتی ہیں۔ ان راتوں کے سناٹوں میں جب لہو کو منجمد کرتی ہوائیں کھڑکیوں پر دستک دے رہیں ہوں‘ گرم لحاف اوڑھے بستر پر نیم دراز‘ اپنی من پسند کتاب ہاتھ میں تھامے ‘ شعور کی بھوک مٹانا‘ سب سے پسندیدہ عمل ہے۔ سرد ہوائوں کی سرسراہٹ اور انگلیوں سے پلٹتے اوراق کی کھڑکھڑاہٹ‘ دھیمے سروں کی موسیقی پیدا کرتی ہے تو سائیڈ ٹیبل پر کافی کے مگ سے اُڑتی بھاپ ماحول کو اپنی خوشبو سے معطر کرتی ہے۔ ایسا طلسمی ماحول پیدا ہوتا ہے کہ پھر اس سے کوئی کم ظرف ہی نکلنے کا تصور کر سکتا ہے۔ یہ ماحول کسی جنت سے کم نہیں ہوتا‘ مرشد اقبال فرما گئے ہیں ‘

علم میں بھی سرور ہے لیکن
یہ وہ جنت ہے جس میں حور نہیں

یہ ماحول‘ یہ جنت ‘ کتاب دوستوں کی واحد تفریح و خوشی ہوتی ہیں۔ اساتذہ سکھا گئے ہیں کہ کتابوں کے ساتھ کی جانے والی شب بیداری رائیگاں نہیں جاتی‘ بلکہ اس کا اجر ملتا ہے۔ یہ اجر علم میں اضافے ‘ خیالات کی وسعت ‘ تخیل کی اونچی اڑان کی صورت میں ہوتا ہے۔ ایسی شب بیداریاں فکری نشوونما کے ساتھ ساتھ سماجی مسائل سے نبرد آزما ہونے کا درس بھی دیتی ہیں۔ شعور و آگاہی کی آبیاری ہوتی ہے اور روشن خیالات کا ایسا بہائو پیدا ہوتا ہے جو تخلیق کے نئے در وا کرتا ہے۔ کتب بینی کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ کسی بھی قوم کو تباہ کرنے کے لیے سب سے پہلا وار اس کے علمی ذخائر پر کیا جاتا ہے۔ 

سقوطِ بغداد کے دوران بھی مسلمانوں کی علمی میراث فرات میں بہا دی گئی تھی اور نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمان آج تک اپنا کھویا ہوا عروج دوبارہ حاصل نہ کر سکے آباء کے ورثے سے منہ موڑنے کے رجحان کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا میں جن 28 ممالک میں سب سے زیادہ کتب پڑھی جاتی ہیں‘ ان کی فہرست میں ایک بھی مسلمان ملک شامل نہیں ہے‘ حالانکہ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ جو قومیں دنیا میں اپنی جگہ بنانا چاہتی ہیں وہ کتاب سے رشتہ استوار رکھتی ہیں‘ ان کی ترویج و اشاعت پر خصوصی توجہ دینے کے ساتھ ساتھ عام عوام تک آسان رسائی کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرتی ہیں۔

بامقصد کتب بینی کے فروغ کی انفرادی و اجتماعی ضرورت کو سمجھا جائے اور اسے پورا کرنے کے لیے تگ و دو کی جائے۔ اگرچہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمیں جو بھی حکمران میسر آئے انہوں نے کبھی اس حوالے سے اقدامات نہیں کیے‘ بلکہ شاید کتب بینی کا فروغ ان کی ترجیحات میں کبھی شامل ہی نہیں رہا۔ اب ''نئے پاکستان‘‘ میں تو صورتحال مزید ابتر ہو چکی ہے۔ لائبریریاں قبرستانوں کا منظر پیش کر ہی ہیں تو کتب خانوں پر قفل پڑنے لگے ہیں۔ مہنگائی کے براہ راست اثرات سے کتابیں بھی محفوظ نہ رہ سکیں اس کا مشاہدہ چند روز قبل ہوا۔ 

ہوا کچھ یوں کہ ایک نجی جامعہ میں ڈرامہ رائٹر خلیل الرحمان کے ساتھ ناشتے پر نشست ختم ہوئی تو دوستوں نے ایکسپو سینٹر میں منعقدہ کتب میلے میں شرکت کا پروگرام بنا لیا۔ ایکسپو سینٹر پہنچے تو میلہ سجا ہوا تھا۔ صبح صبح چونکہ رش کم تھا اس لیے کتابیں چھانٹنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی‘ بلکہ اس عمل کے دوران پبلشرز اور آرگنائزرز سے گپ شپ کا موقع بھی مل گیا۔ اگر دیکھا جائے تو ایسے ماحول میں کہ جہاں ''ادب‘‘ زوال کا شکار ہو‘ یہ کتب میلے‘ دم توڑتی کتب بینی کی سانسیں بحال رکھتے ہوئے کسی بھی درجہ پر سہی ادب کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔عمومی طور پر ان کتب میلوں کا انعقاد علم دوست تنظیمیں اور پبلشر حضرات مشترکہ طور پر کرتے ہیں۔

ان کتب میلوں میں ایک جانب تو کتاب دوست افراد کو ایک چھت تلے مختلف پبلشرز کی کتابیں بہترین رعایتی نرخوں پر دستیاب ہوتی ہیں تو دوسری جانب مصنفین اور اشاعتی ادارے بھی اپنی کتب کی تشہیر و فروخت پر مطمئن دکھائی دیتے ہیں۔ اس بار جب کتب میلے کا مشاہدہ کیا تو صورتحال پہلے جیسی ہر گز نہ تھی۔ ایکسپو میں بوڑھوں‘ جوانوں‘ خواتین اور بچوں پر مشتمل بھیڑ موجود تھی‘ مگر کتاب دوست کم نظر آرہے تھے۔ ہفتہ وار چھٹی گزارنے کا بہترین ذریعہ بھی کتب میلے کو سمجھنے والوں کی بڑی تعداد سیلفیاں لینے اور ٹک ٹاک ویڈیوز بنانے میں مصروف تھی۔ اندازہ ہوا کہ دم توڑتی کتب بینی کی ایک اہم وجہ سوشل میڈیا کا غیر ضروری استعمال بھی ہے۔

سٹالز کا دورہ کیا تو اندازہ ہوا کہ کتاب سے دوری کا ذمہ دار صرف سوشل میڈیا کو ٹھہرانا بھی زیادتی ہو گی۔ سٹالز پر کتابوں کے نرخوں میں رعایت کے حوالے سے بڑے بڑے بینرز تو آویزاں تھے مگر جب رعایتی نرخوں کے باوجود کتابوں کی قیمتوں پر نگاہ ڈالی تو بس دیکھتے ہی رہ گئے۔ نئے پاکستان کی مہنگائی نے کتاب کو بھی نہ چھوڑا تھا۔ ہم سے رہا نہ گیا تو چند پبلشر حضرات سے شکوہ کر ہی ڈالا ۔ جوابِ شکوہ سے انکشاف ہوا کہ گزشتہ دو سالوں میں کتب کے نرخوں میں اوسط پندرہ سے تیس فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ اشاعتی مواد کے نرخوں میں تیس فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔

انتہائی ناقص معیار کا کاغذ بھی اب مہنگے داموں ملتا ہے جس کی وجہ سے کتاب کی ظاہری حالت بھی ردی ہوتی ہے۔ پھر ایسے ادبی پروگرام میں شرکت کرنے والوں کی اکثریت کا عمومی طور پر 35 سال سے زائد عمر ہونا نوجوانوں میں مطالعے سے بیزاری کا مظہر ہے۔ اقدار سے دوری کی طرح کتاب سے دوری کا رجحان بھی نوجوانوں میں پہلے ہی تیزی سے پھیل رہا تھا‘ مگر کتابوں کے نرخوں میں اضافے نے اس پھیلائو کو مزید تیز کر دیا ہے ۔ اربابِ اختیار ہوں یا اساتذہ ‘ کوئی اس کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ درس گاہوں میں بھی اس کے تدارک کے لیے اقدامات نظر نہیں آتے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اساتذہ کتب بینی سے گریز کو فروغ دے رہے ہیں تو غلط نہ ہو گا۔

طالب علموں کا نصابی کتب کے بجائے نوٹس کے رٹے لگا کر امتحان میں کامیابی کی کوششیں کتب بینی سے بیزاری کا ہی شاخسانہ ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ تمام درس گاہوں سے ''نوٹس سسٹم‘‘ کا خاتمہ کر کے طلبا کو مطالعہ کا عادی بنانے کے لیے بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں کی جائیں۔ کتاب دوست ماحول کو فروغ دینے کے لیے کتب میلے سرکاری طور پر منعقد ہونے چاہیے‘ جس میں ملکی اشاعتی اداروں کے ساتھ ساتھ غیر ملکی اشاعتی اداروں کو بھی سٹالز لگانے کی دعوت دی جانی چاہیے اور ایسے میلوں میں کتابوں کے نرخوں میں ہر ممکن حد تک کمی کی جانی چاہیے ۔ 

اشاعتی مواد پر درآمدی ڈیوٹی کم یا ختم کر کے اشاعتی اداروں کو سہولت دینی چاہیے۔ علمی و ادبی پروگرامز اور محفلوں کا علاقائی و قومی سطح پر انعقاد یقینی بنانا چاہیے ۔ ارباب ِاختیار نے اگر اس جانب توجہ نہ دی تو نتائج بھیانک ہوں گے۔ کہا جاتا ہے کہ کتاب سے دور رہنے والے نوجوان نہ تو ماضی سے آشنا ہوتے ہیں اور نہ ہی مستقبل کے لیے کارآمد۔ اب جس تیزی سے مطالعۂ کتب سے بیزاری میں اضافہ ہو رہا ہے اور اربابِ اختیار کا اس جانب سے بھی نظریں چرائے رکھنا‘ اس سے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ شاید نئے پاکستان کے حکمران چاہتے ہیں کہ ''نئے پاکستان‘‘ کی باگ ڈور مستقبل میں بھی نااہل اور ناکارہ افراد کے ہاتھوں میں رہے۔

طارق حبیب

بشکریہ دنیا نیوز



This post first appeared on Urdu Classic, please read the originial post: here

Share the post

پاکستان میں دم توڑتی کتب بینی

×

Subscribe to Urdu Classic

Get updates delivered right to your inbox!

Thank you for your subscription

×