Get Even More Visitors To Your Blog, Upgrade To A Business Listing >>

ذاتی مفادات کی جنگ میں

ہمارے موجودہ زوال و انحطاط کے سبب ایک سے زیادہ بتائے جاتے ہیں لیکن ایک سبب ایسا ہے جو بہت سے زمینی گھمبیر اسباب کو جنم دیتا ہے۔ مسلمانوں کو درپیش مسائل کے بہت سے حل گنوائے جاتے ہیں لیکن ایک حل ایسا ہے جو بہت سے پیچیدہ مسائل حل کر سکتا ہے اور بہت سے بند تالوں کی کنجی، بہت سی مہلک معاشرتی بیماریوں کے لیے تریاق ہے۔ یہ حل دراصل انبیاء و اولیاء اور حکماء و عقلاء کا ایسا وصف ہے اور ایسی بابرکت عادت ہے کہ اس سے نہایت اعلیٰ انسانی اخلاق پھوٹتے اور نہایت مثبت نتائج جنم لیتے ہیں۔ فاتحین اسلام کو اسی سے ترقی ملی ہے اور ترقی یافتہ اقوام اسی کی بدولت عروج پاتی ہیں۔ انسان جب ذاتی مفاد پر اجتماعی مفاد کو ترجیح دیتا ہے تو یہ اِس کے خلوص و ایثار کی علامت ہوتی ہے اور یہ ایسی قربانی اور وسعت ظرفی پر مشتمل ہوتی ہے جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور تائید نازل ہوتی ہے۔ اور جب وہ ذاتی مفاد کی خاطر اجتماعی مفادات کو پامال کر دیتا ہے تو یہ نہ صرف اس کی کم ظرفی اور خبث باطن کی دلیل ہوتی ہے، بلکہ یہ ایسی خود غرضی اور خواہش پرستی ہوتی ہے جس کی پاداش میں انسان تائید و توفیقِ الٰہی سے محروم ہو جاتا ہے۔

پھر اسے اس کے نفس کے حوالے کر دیا جاتا ہے اور سب جانتے ہیں کہ نصرتِ الٰہی سے محروم انسان کا نفس اسے کس کے حوالے کرتا اور کیسے انجام تک پہنچاتا ہے؟ ذاتی مفاد پر اجتماعی مفادات کو ترجیح دینے سے کیسے خوش گوار نتائج سامنے آتے ہیں اور اجتماعی مفادات کو ذاتی مفاد پر قربان کرنے سے معاشرے پر کیسے بھیانک اثرات پڑتے ہیں، اس کی ایک بہت واضح اور عام فہم مثال موجودہ ذرائع ابلاغ، پرنٹ میڈیا، الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا ہے۔ ہمارے کئی خبررساں صحافی اور تبصرہ و تجزیہ کار دانش ور حضرات، اینکر پرسن قطعاً نہیں دیکھتے کہ کسی خبر کے جملے یا کسی نشست کے موضوع سے ناظرین و سامعین پر کیسے کیسے منفی اثرات پڑ رہے ہیں؟ اُنہیں بس اپنی ملازمت یا مراعات کی اور اپنے اخبار یا چینل کی شہرت کی فکر ہوتی ہے۔ اِس سوچ کے تحت وہ رائی کا پہاڑ بنانے، بلاوجہ سنسنی پھیلانے، رتّی کا پائو دکھانے غرض کسی چیز سے باز نہیں آتے۔ اُنہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اپنے اخبار کا پیٹ یا چینل کا جہنم بھرنے کے لئے وہ جس طرح کم کو زیادہ اور صفر کو سو بتاتے ہیں، اِس سے عوام میں جن کو جاننے اور آگاہی کا جمہوری حق دینے کے لئے یہ وجود میں آئے تھے، اِنہی عوام میں بےچینی اور مایوسی پھیلتی ہے۔ ملک و ملت کے حال و مستقبل سے یہ مایوسی ذاتی مفاد کو ہر قیمت پر حاصل کرنے اور اجتماعی مفاد کی خاطر قربانی دینے کو حماقت قرار دینے پر اُکساتی ہے۔

عدم اطمینان کی یہ کیفیت لوٹ و کھسوٹ، بدنظمی و بدعنوانی اور ایسے حوصلہ کش نفسیاتی بحران کو جنم دیتی ہے جس سے معاشرہ طرح طرح کے اِن عوارض و امراض میں مبتلا ہوتا ہے جو آج ہماری پہچان بن چکے ہیں۔ ہمارے ہاں یومیہ خدا جانے کتنے ضرورت مندوں کی مدد کی جاتی ہے، اسے کوئی نشر نہیں کرتا، لیکن ایک خاتون کا پرس چھن جائے تو ’’بریکنگ نیوز‘‘ جاری ہو جاتی ہے۔ ایک صاحب خیر نے مشہور اسپتالوں کے قریب میڈیکل اسٹور والوں کو کہہ رکھا ہے کہ ضرورت مند مریض کا بل مجھ سے لیا کرو۔ دوائی دینے سے انکار نہ کرو۔ کئی ڈاکٹر حضرات ایسے ہیں جو دو کلینک چلاتے ہیں۔ ایک متمول علاقے میں وہ مناسب فیس لیتے ہیں اور ایک غریب یا سفید پوش علاقے میں جہاں وہ واجبی سی فیس لیتے ہیں لیکن اس طرح کی مثبت باتوں کو کوئی چینل خبروں کی ماری قوم کے سامنے نہیں چلاتا، ہر وقت ڈاکٹروں کو قصاب کہہ کر اس میدان میں نووارد ڈاکٹروں کو منفی ردّعمل اور بےرحمی پر اُکساتا ہے۔ ہمارے ذرائع ابلاغ اِن اداروں کے سروے نشر کرتے ہیں جو ہر وقت بدعنوانی میں پاکستان کی تازہ ترین رینکنگ جاری کرنے کی فکر میں گھل رہے ہیں۔ اِس سے رشوت ستانی اور چوربازاری مزید بڑھتی ہے۔

دہشت گردی ہر گز یہ نہیں ہے کہ دس آدمی مارے جائیں۔ یہ محض دہشت ہے۔ اصل دہشت گردی اس مقامی اور وقتی دہشت کو اتنا پھیلانا، اور اس کی اتنی گرد اُڑانا ہے کہ وہ قومی دائمی بن جائے اور پورے ملک کو دہشت زدہ مریض بنا چھوڑے۔ ملک و قوم کو درپیش مسائل کے اسباب بہت سے ہیں، لیکن فرد یا ادارے کے مفاد کی خاطر ملّی مفاد کو روند ڈالنا ایک بہت بڑا سبب ہے۔ وطن اور اہلِ وطن جن بحرانوں میں مبتلا ہیں ان کے حل ایک سے زیادہ ہو سکتے ہیں لیکن ایک کارآمد حل یہ ہے کہ ہم لوگ من حیث القوم خلوص و ایثار کا مظاہرہ کرتے ہوئے اجتماعی مفاد کو ذاتی مفاد پر مقدم رکھنے کی عادت ڈال لیں۔ یہ کام اپنی ذات سے ہو اور نہایت چھوٹے پیمانے پر ہو لیکن دنیا و آخرت میں اپنی جگہ اتنی اہمیت رکھتا ہے جتنی بارش کے پہلے قطرے کی ہوتی ہے کہ بالآخر خوشحالی کی فصلیں اسی سے لہلہاتی ہیں اور جتنی سیپی کے منہ میں آنے والے اوّلین قطرے کی ہوتی ہے کہ نایاب موتیوں کی لڑی اسی سے وجود پاتی ہے۔ کیا آج کل پاکستانی سیاست میں یہی کچھ نہیں ہو رہا؟

انور غازی 

بشکریہ روزنامہ جنگ



This post first appeared on Pakistan Mirror, please read the originial post: here

Share the post

ذاتی مفادات کی جنگ میں

×

Subscribe to Pakistan Mirror

Get updates delivered right to your inbox!

Thank you for your subscription

×