Get Even More Visitors To Your Blog, Upgrade To A Business Listing >>

افغانستان ۔ جادہِ امن پر

کابل میں قائم افغان حکومت روزِ اول سے ہی پاکستان کے بارے میں مخاصمانہ اور معاندانہ جذبات رکھتی رہی ہے۔ ہمارے مغرب میں واقع اس برادر اسلامی ملک نے ہمارے ساتھ ہمیشہ علانیہ اور غیرعلانیہ ضرر رساں رویہ اپنائے رکھا ہے جبکہ ہم نے اس کے برعکس ہمیشہ برداشت، درگزر اور حسنِ سلوک کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہر چند اس میں ہمیں نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پاکستان میں اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد جنرل محمد ضیاء الحق نے افغانستان کی جانب دوستی اور بھائی چارے کا ہاتھ بڑھایا اور اس کے لئے مخلصانہ کوششوں کا آغاز کیا۔ انہوں نے سردار دائود کو پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت دی جسے افغان صدر نے خوش دلی سے قبول کرتے ہوئے 1978 میں پاکستان کا دو روزہ دورہ کیا۔ اس دورے سے وہ بہت خوش اور متاثر ہوئے۔ اُن پر عیاں ہو گیا کہ کمیونزم کا طوق پہنے رکھنے سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ اسلامی اخوت اور بھائی چارے کی اسلامی روایات کی طرف توجہ دی جائے۔ دونوں صدور نے پورے خلوص کے ساتھ برادرانہ برابری پر مبنی تعلقات استوار کرنے کی بنیاد رکھی۔

دسمبر 1979 میں سوویت یونین نے فوج کشی کرتے ہوئے تقریباً ایک لاکھ فوج افغانستان میں داخل کر دی۔ ایک کٹھ پتلی حکومت قائم کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ یہ فوجی قبضہ فروری 1989 تک جاری رہا۔ اس قبضے کے خلاف افغان عوام نے مسلح مزاحمت شروع کر دی جو جلد ہی ایک مکمل جنگ کی صورت اختیار کر گئی۔ اس صورتِ حال نے پاکستان اور ایران بلکہ ساری آزاد دنیا کے امن کو خدشات سے دو چار کر دیا بالخصوص پاکستان کی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہو گئے۔ کئی ممالک خصوصاً اسلامی ممالک اور پاکستان نے افغان عوام کی جدوجہد کی بھر پور حمایت اور امداد کا اعلان کر دیا۔ مسئلہ افغانستان جب ایک عالمی مسئلے کے طور پر دنیا کے سامنے آیا تو آزاد دنیا نے اس مسلح جدوجہد میں افغان عوام کا  بھرپور ساتھ دیا، خصوصاً امریکہ نے اسلحہ اور گولہ بارود کی مد میں کھل کر افغان مجاہدین کو فوجی امداد فراہم کی۔ اس سارے کھیل میں روسی افواج کا بے پناہ جانی اور مالی نقصان ہوا۔ سوویت یونین شکست سے دو چار ہوا۔ سوویت یونین کے صدر گوربا چوف نے افغان مسئلے کو ’’پیپ زدہ زخم‘‘ قرار دیا اور فوجی انخلا پر راضی ہو گیا۔

پاکستان کو ایک فرنٹ لائن اسٹیٹ کی حیثیت سے بے پناہ جانی و مالی نقصان اور سفارتی دبائو کا سامنا کرنا پڑا۔ سوویت یونین نے پاکستان کو ایک دشمن ملک گردانتے ہوئے انتہائی برے نتائج بھگتنے کی دھمکیاں دیں اور پاکستان کو سلامتی کے خدشات سے دو چار کر دیا گیا جس کی وجہ سے پاکستان اور سوویت یونین کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہو گئے۔ سوویت یونین کسی طرح کے بھی کسی سفارتی تعلقات قائم کرنے اور افغان مسئلہ کے حل پر تیار نہ تھا۔ ایسی کسی بھی کوشش کو وہ ہمیشہ مسترد کر دیتا او ر اُس کا مؤقف تھا افغانستان کی صورتِ حال کو زیرِ بحث نہیں لایا جا سکتا اور اس بات پر زور دیتا ا کہ اگر بات چیت ہو سکتی ہے تو صرف ’’ افغانستان کے ارد گرد کی صورتِ حال‘‘ پر کوئی بات چیت ہو سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ پاکستان اور ایران کو مجاہدین کی امداد سے باز رکھنا اور افغانستان میں اپنا فوجی تسلط مستحکم کرنے کا خواہاں تھا۔

اس عرصہ میں پاکستان میں جونیجو حکومت قائم ہو چکی تھی۔ افغانستان میں سوویت یونین افواج کی کمر ٹوٹ چکی تھی اور وہ افغانستان سے مکمل انخلا کے لئے جلد سے جلد بے تاب تھیں جس کے لئے کسی امن معاہدہ کی ضرورت تھی۔ اسی طرح واشنگٹن بھی جلد سے جلد سوویت یونین افواج کا انخلا چاہتا تھا۔ تاہم پاکستان کے صدر جنرل ضیاء الحق ایسے کسی فوری معاہدے کو روبہ عمل لانے میں متامل تھے جس سے افغانستان میں مزید خونریزی اور عدمِ استحکام سے بچنے کے لئے کوئی دیرپا اور مؤثر ضمانت نہ ہو۔ ورنہ پاکستان میں بھی خون ریزی، افغان مہاجرین کی آمد اور اقتصادی نقصان کا اندیشہ تھا۔ انہوں نے حکومت کو صبر سے کام لینے اور کسی جلد بازی سے گریز کا مشورہ دیا مگر افسوس کہ اُن کے ایسے مشوروں کو سنجیدہ نہیں لیا گیا۔ یہ تزویراتی گہرائی کی حکمتِ عملی کے برعکس ایک فاش غلطی تھی جس کے برے اثرات ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ 

ستمبر گیارہ کے بعد سے اب تک ہم تقریباً 80 ہزار جانیں قربان کر چکے ہیں اور لاکھوں کروڑوں ڈالر کا اقتصادی نقصان برداشت کر چکے ہیں۔ شکست خوردہ روسی فوج کے نقشِ قدم پر اب امریکی فوج اور اس کے اتحادی شکست سے دو چار ہو چکے ہیں۔ امریکی افواج بھی جلد بازی میں ستمبر تک افغانستان سے مکمل انحلاء چاہتی ہیں۔ کابل میں کسی متبادل حکومت سازی کا کٹھن مرحلہ طے کرنا ابھی باقی ہے۔ ایسی مستحکم وسیع البنیاد اکثریتی حکومت جو اس خلا کو پر کر سکے اورجو اس انخلا کا لازمی نتیجہ ہے اور جس کی تکمیل کے لئے نہایت قلیل عرصہ باقی رہ گیا ہے، نہایت ضروری ہے۔ تاریخ ہمیں ایک بار پھراُسی دوراہے پر لے آئی ہے جب جنیوا معاہدے میں ہم سے گہری تزویراتی غلطی سر زرد ہوئی اور ہم بے پناہ مسائل اور مصائب میں گھِر گئے۔ اب ایسی غلطی کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ایسے میں ہمیں بلکہ پوری دنیا کو دور اندیشانہ فیصلوں کی ضرورت ہے۔

اس وقت کیے گئے فیصلوں کے اثرات بہت دیر اور بہت دور تک بھگتنا ہوں گے۔ ہمیں اپنے رہنمائوں کی اہلیت، بالغ نظری اور دور اندیشی کی صلاحیت پر مکمل اعتماد ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اس وقت قومی مفاد میں کئے گئے اقدامات اور فیصلے ہمارے بنیادی مفادات کا مکمل تحفظ کریں گے اور ہمیں وہ فوائد حاصل ہوں گے جن سے ہم جنیوا معاہدے کے وقت محروم کر دیے گئے تھے۔ پاکستان اپنے دائیں اور بائیں بیٹھے دو دشمنوں سے نہ ہی صَرفِ نظر کر سکتا ہے نہ ہی اپنے بنیادی قومی مفادات سے دستبردار ہو سکتا ہے اور نہ ہی کوئی ایسا سمجھوتہ کر سکتا ہے۔ ’’تزویراتی گہرائی‘‘ یا Strategic Depth کی بامعنی تشریح جس کی ہمیں اس وقت از حد اور اشد ضرورت ہے۔

محمد اعجاز الحق
(صاحبِ تحریر پاکستان مسلم لیگ ضیاء الحق (شہید) کےصدر ہیں)

بشکریہ روزنامہ جنگ




This post first appeared on Focus Pakistan, please read the originial post: here

Share the post

افغانستان ۔ جادہِ امن پر

×

Subscribe to Focus Pakistan

Get updates delivered right to your inbox!

Thank you for your subscription

×