Get Even More Visitors To Your Blog, Upgrade To A Business Listing >>

پاک امریکہ تعلقات

پاکستان کی جانب سے امریکہ کے ساتھ فوجی تعاون کی تاریخ 70 برس پر محیط ہے۔ پاکستان نے سرد جنگ کے زمانے میں پشاور کے نواحی علاقے بڈھ بیر کا فضائی اڈہ مبینہ طور پر امریکہ کو استعمال کے لئے دیا تھا۔ نائن الیون کے بعد پاکستان کی طرف سے امریکہ کے ساتھ تعاون کیلئے مختلف بیسز امریکی فوج کے زیر استعمال رہیں جن میں بلوچستان میں قائم شمسی ائیر بیس سب سے زیادہ استعمال ہوتی رہی۔ اس بیس سے افغانستان میں مختلف حملوں کیلئے امریکی جنگی طیارے اڑان بھرتے تھے۔ اس کے علاوہ جیکب آباد کا شہباز ائیر بیس بھی امریکہ کے استعمال میں تھا۔ بعض اطلاعات کے مطابق راولپنڈی کے چکلالہ ائیر بیس پر بھی پاک فوج کا انتظامی امور کے حوالے سے امریکی حکام کے ساتھ تعاون جاری رہا۔ سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے بعد امریکہ سے شمسی ایئر بیس خالی کروا لیا گیا تھا۔

پاکستان امریکہ تعلقات مختلف مسائل کی وجہ سے اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ خواہ پاکستان کے چین کے ساتھ تعلقات ہوں یا افغان امن عمل میں پاکستان کا کردار، جوبائیڈن انتظامیہ کی طرف سے پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے کوئی باضابطہ پالیسی سامنے نہیں آئی لیکن دوسری طرف امریکہ کی موجودہ انتظامیہ افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار کو سراہتی نظر آ رہی ہے۔ ایک بار پھر پاکستان اور امریکہ کے مابین سرکاری اور بیک ڈور رابطے بڑھ گئے ہیں۔ بعض حلقے اسے افغان امن عمل میں بہترین کردار ادا کرنے کی وجہ قرار دے رہے ہیں تو کسی کے نزدیک امریکہ افغانستان سے انخلا کے بعد پاکستان میں فوجی اڈے بنانا چاہتا ہے۔ امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان اسے زمینی اور فضائی رسائی دے گا۔ 

امریکی وزیر دفاع برائے انڈو پیسفک ڈیوڈ ہیلوے نے سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کو بتایا کہ افغانستان کے لئے پاکستان امریکہ کی ہر طرح سے تعاون اور مدد جاری رکھے گا تاہم پاکستانی حکام اس دعوے کو مسترد کرتے نظر آرہے ہیں۔ صدر عارف علوی نے ایک انٹرویو میں کسی بھی طرح کے فوجی اڈے دینے سے انکار کیا۔  میڈیا پر بحث کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی سختی سے تردید کر دی کہ ہم امریکہ کو اڈے دینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد نان اسٹیٹ ایکٹرز اور افغانستان میں موجود طالبان پاکستان میں گھس سکتے ہیں جس سے پاکستان کو سیکورٹی خطرات لاحق ہیں۔ ایسے میں پاکستان کو سیکورٹی کے لئے امریکہ کی مدد درکار ہو گی۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان کے لئے مشکل صورت حال ہے کیونکہ پاکستان کو دہشت گردی کے خطرات سے بھی ڈرایا جارہا ہے جبکہ چین پاکستان اقتصادی راہداری پروگرام میں بھی مشکلات پیش آسکتی ہیں۔

بائیڈن انتظامیہ فیصلہ کر چکی کہ 11 ستمبر تک تمام امریکی فوجیوں کو واپس بلا لیا جائے گا۔ ممکنہ طور پر یہ عمل مقررہ تاریخ سے قبل مکمل ہو جائے گا لیکن پینٹا گون و امریکی سی آئی اے جو افغانستان سے انخلا نہیں چاہتے، انہیں چین، ایران، وسط ایشیائی مسلم اکثریتی ممالک اور روس کی نگرانی کے لئے ائیر بیس و فوجی اڈوں کی ضرورت ہے، گو کہ ملکی مفاد کا کہہ کر اس سے قبل کی حکومتوں نے امریکی مفاد کا خیال رکھا، تاہم فی الوقت تو موجودہ حکومت ’سختی‘ سے اپنے ارادے پر قائم ہے کہ ائیر بیس دینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے اور نہ ایسا فیصلہ کیا جائے گا۔ تاہم خدشات تو بہرحال موجود ہیں کہ ایسی پالیسیاں خفیہ طور پر نافذ کی جاتی رہیں، جن کا علم کئی برسوں بعد قوم کو ہوا۔ قبائلی علاقوں میں امریکی ڈورن حملوں کیلئے ملکی ائیر بیس کے استعمال سے عوام اُس وقت تک لاعلم رہے جب تک ایک واقعے میں پاکستانی فورسز کو نشانہ بنایا گیا اور ریاست نے سخت ردعمل کے بعد شمسی ائیر بیس خالی کرا لیا۔ 

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہم امریکہ کے ساتھ افغانستان میں امن کے شراکت دار تو ہو سکتے ہیں لیکن جنگ میں شامل نہیں ہو سکتے۔ امریکی جنگ میں شامل ہونا ہماری حماقت تھی۔ ضروری ہے کہ عالمی قوتیں کمزور حکومتوں کے معاملات میں دخل اندازی سے گریز کریں، ہر ملک کا معاملہ اس کا اپنا ہوتا ہے، کسی عالمی قوت کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ اپنی تیار کردہ رپورٹس کی بنیاد پر کسی بھی ملک پر چڑھائی کرتا پھرے، معاملات میں بگاڑ اُسی وقت پیدا ہوتے ہیں جب طاقت ور کمزور کو نگلنے کی کوشش کرتا ہے۔ افغانستان میں سوویت یونین کا آنا اور قبضے کی خواہش نے اُ ن سیاسی لیڈروں کو افغان قوم کے سامنے شرمندہ کیا جن کی وجہ سے سوویت یونین کو جارحیت کا موقع ملا لیکن اس سے ہوا کیا؟ بالآخر سوویت یونین ایسا فرار ہوا کہ اس کا وجود ہی مٹ گیا۔ 

امریکہ سوویت یونین کے خلاف یہ جنگ جیت تو گیا لیکن اُس نے بھی وہی غلطی کردی، جو سوویت یونین کر چکا تھا، اس کا خمیازہ بھی امریکہ کو بھاری مالی نقصان کی صورت میں اٹھانا پڑا۔ اس کے کون سے عالمی مفادات پورے ہوئے، اس پر یقینی طور پر خود امریکی انتظامیہ بھی فخر نہیں کر سکتی، اسامہ کی گرفتاری کے چکر میں کھربوں ڈالرز جنگ میں جھونک ڈالے اور اب بھی پریشان ہے کہ اگر افغانستان میں ایسا ہو گیا تو کیا ہو گا، ویسا ہو گیا تو کیا ہو گا۔ لے دے کہ اس خطے میں پاکستان امریکہ کا نان نیٹو اتحادی بنا اور پھر عالمی قوتوں کی غلط پالیسیوں کے مضمرات کی وجہ سے وطنِ عزیز کو بھی شدید مالی و جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ آخر میں وزیراعظم عمران خان کو بتاتا چلوں کہ امریکہ کی ناراضی ہمیشہ نقصان دہ رہی ہے۔ بھٹو کے بعد عمران خان دوسرے سیاست دان ہیں جنہوں نے امریکہ کو آنکھیں دکھا کر انکار کیا ہے، میرا اشارہ قوم سمجھ گئی ہو گی۔

خلیل احمد نینی تا ل والا

بشکریہ روزنامہ جنگ



This post first appeared on Focus Pakistan, please read the originial post: here

Share the post

پاک امریکہ تعلقات

×

Subscribe to Focus Pakistan

Get updates delivered right to your inbox!

Thank you for your subscription

×