Get Even More Visitors To Your Blog, Upgrade To A Business Listing >>

ہوئے مر کے ہم جو رسوا



اب تو معمول سا بن گیا ہے کہ کہیں تعزیت یا تجہیزوتکفین میں شریک ہونا پڑے تو مرزا کوضرورساتھ لیتا ہوں۔ ایسے موقعوں پرہرشخص اظہارِہمدردی کے طور پر کچھ نہ کچھ ضرور کہتا ہے۔ قطۂ تاریخِ وفات ہی سہی۔ مگر مجھے نہ جانے کیوں چُپ لگ جاتی ہے، جس سے بعض اوقات نہ صِرف پس ماندگان کوبلکہ خُود مجھے بھی بڑا دکھ ہوتا ہے۔لیکن مرزا نے چپ ہونا سِیکھا ہی نہیں۔بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ صحیح بات کوغلَط موقع پربے دغدغہ کہنے کی جو خداداد صلاحیّت اُنہیں ودیعت ہوئی ہے وہ کچھ ایسی ہی تقریبوں میں گل کھلاتی ہے۔ وہ گھپ اندھیرے میں سرِرہگزر چراغ نہیں جلاتے، پھلجھڑی چھوڑتے ہیں،جس سے بس ان کا اپنا چہرہ رات کے سیاہ فریم میں جگ مگ جگ مگ کرنے لگتا ہے۔ اور پھلجھڑی کا لفظ تو یونہی مروّت میں قلم سے نکل گیا، ورنہ ہوتا یہ ہے کہ
جس جگہ بیٹھ گئےآگ لگا کراُٹھے
اس کے باوصف، وہ خدا کے ان حاضرو ناظر بندوں میں سے ہیں جو محلّے کی ہرچھوٹی بڑی تقریب میں،شادی ہویاغمی،موجود ہوتے ہیں۔ بالخصوص دعوتوں میں سب سے پہلے پہنچتےاورسب کے بعد اٹھتے ہیں۔ اِس اندازِ نشست وبرخاست میں ایک کُھلا فائدہ یہ ہے کہ وہ باری باری سب کی غیبت کرڈالتے ہیں۔ان کی کوئی نہیں کرپاتا۔
چنانچہ اس سنیچر کی شام کو بھی میوہ شاہ قبرستان میں وہ میرے ساتھ تھے۔ سورج اس شہر خمُوشاں کو جسے ہزاروں بندگانِ خُدا نے مرمر کے بسایا تھا، لال انگارہ سی آنکھ سے دیکھتادیکھتا انگریزوں کے اقبال کی طرح غُروب ہورہا تھا۔ سامنے بیری کے درخت کے نیچے ایک ڈھانچہ قبربدرپڑا تھا۔ چاروں طرف موت کی عمل داری تھی اور ساراقبرستان ایسا اداس اوراجاڑ تھا جیسے کسی بڑے شہر کا بازار اتوار کو۔ سبھی رنجیدہ تھے۔(بقول مرزا، دفن کے وقت میّت کے سوا سب رنجیدہ ہوتے ہیں۔) مگر مرزا سب سے الگ تھلگ ایک پُرانے کتبے پر نظریں گاڑے مسکرا رہے تھے۔ چند لمحوں بعد میرے پاس آئے اور میری پسلیوں میں اپنی کُہنی سے آنکس لگاتے ہوئے اُس کتبے تک لے گئے، جس پر منجملہ تاریخِ پیدائش و پنشن، مولد و مسکن،ولدیّت وعہدہ(اعزازی مجسٹریٹ درجہ سوم)آسُودہ لحد کی تمام ڈگریاں مع ڈویژن اوریونیورسٹی کے نام کے کندہ تھیں اورآخرمیں، نہایت جلی حروف میں، مُنہ پھیر کر جانے والے کو بذریعہ قطعہ بشارت دی گئی تھی کہ اللہ نے چاہا تو بہت جلد اُس کا بھی یہی حشر ہونے والا ہے۔
میں نےمرزاسے کہا ‘‘یہ لوحِ مرزا ہے یا ملازمت کی درخواست؟بھلا ڈگریاں،عہدہ اورولدیت وغیرہ لکھنے کا کیا تُک تھا؟’’
انھوں نے حسبِ عادت بس ایک لفظ پکڑ لیا۔ کہنے لگے‘‘ٹھیک کہتے ہو۔ جس طرح آج کل کسی کی عمر یا تنخواہ دریافت کرنا بُری بات سمجھی جاتی ہے، اِسی طرح، بالکل اِسی طرح بیس سال بعد کسی کی ولدیّت پُوچھنا بداَخلاقی سمجھی جائے گی!’’
اب مجھے مرزا کی چونچال طبیعت سے خطرہ محسوس ہونے لگا۔ لہٰذا انھیں ولدیّت کے مستقبل پر مسکراتا چھوڑ کر میں آٹھ دس قبردُور ایک ٹکڑی میں شامل ہوگیا، جہاں ایک صاحب جنّت مکانی کے حالاتِ زندگی مزے لے لے کربیان کررہےتھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ خُداغریقِ رحمت کرے، مرحُوم نے اِتنی لمبی عُمر پائی کہ ان کے قریبی اعزّہ دس پندرہ سال سے ان کی اِنشورنس پالیسی کی امّید میں جی رہے تھے۔ ان امّیدواروں میں سے بیشتر کو مرحُوم خود اپنے ہاتھ سے مٹیّ دے چکے تھے۔ بقیہ کو یقین ہوگیا تھا کہ مرحُوم نے آبِ حیات نہ صرف چکھا ہے بلکہ ڈگڈگا کے پی چکے ھیں۔ راوی نے تو یہاں تک بیان کیا کہ ازبسکہ مرحُوم شروع سے رکھ رکھاؤ کے حد درجہ قائل تھے، لہٰذا آخر تک اس صحّت بخش عقیدے پر قائم رہے کہ چھوٹوں کو تعظیماً پہلے مرنا چاہیے۔ البتّہ اِدھر چند برسوں سے ان کو فلکِ کج رفتار سے یہ شکایت ہوچلی تھی کہ افسوس اب کوئی دشمن ایسا باقی نہیں رہا، جسے وہ مرنے کی بددُعا دے سکیں۔
ان سے کٹ کر میں ایک دوسری ٹولی میں جا ملا۔ یہاں مرحوم کے ایک شناسا اور میرے پڑوسی ان کے گیلڑلڑکے کو صبرِجمیل کی تلقین اور گول مول الفاظ میں نعم البدل کی دعا دیتے ہوئے فرمارہے تھے کہ برخودار! یہ مرحوم کے مرنے کے دن نہیں تھے۔ حالانکہ پانچ منٹ پہلے یہی صاحب، جی ہاں، یہی صاحب مجھ سے کہہ رہے تھے کہ مرحوم نے پانچ شال قبل دونوں بیویوں کواپنے تیسرے سہرے کی بہاریں دکھائی تھیں اور یہ ان کے مرنے کے نہیں،ڈوب مرنے کے دن تھے۔ مجھے اچھیّ طرح یاد ہے کہ انہوں نے انگلیوں پرحساب لگا کر کانا پھوسی کے انداز میں یہ تک بتایا کہ تیسری بیوی کی عمرمرحوم کی پنشن کے برابر ہے۔مگر ہے بالکل سیدھی اور بے زبان۔ اس اللہ کی بندی نے کبھی پلٹ کر نہیں پوچھا کہ تمہارے منہ میں کے دانت نہں ہیں۔ مگر مرحوم اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ انہوں نے محض اپنی دعاؤں کے زور سے موصوفہ کا چال چلن قابو میں کررکھا ہے۔ البتہ بیاہتا بیوی سے ان کی کبھی نہیں بنی۔ بھری جوانی میں بھی میاں بیوی 62 کے ہند سے کی طرح ایک دوسرے سے منہ پھیرے رہے اور جب تک جیے، ایک دوسرے کے اعصاب پر سوار رہے۔ ممدُوحہ نے مشہور کررکھا تھا کہ(خدا ان کی روح کو نہ شرمائے) مرحوم شروع سے ہی ایسے ظالم تھے کہ ولیمے کا کھانا بھی مجھ نئی نویلی دلہن سے پکوایا۔
میں نے گفتگو کا رُخ موڑنے کی خاطر گنجان قبرستان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دیکھتے ہی چپّہ چپّہ آباد ہوگیا۔ مرزا حسب معمول پھر بیچ میں کود پڑے۔ کہنے لگے، دیکھ لینا، وہ دن زیادہ دور نہیں جب کراچی میں مردے کو کھڑا گاڑنا پڑے گا اور نائیلون کے ریڈی میڈ کفن میں اوپر زِپ (ZIP) لگے گی تاکہ منہ دیکھنے دکھانے میں آسانی رہے۔
مری طبیعت ان باتوں سے اوبنے لگی تو ایک دوسرے غول میں چلا گیا،جہاں دونوں جوان ستارے کے غلاف جیسی پتلونیں چڑھائے چہک رہے تھے۔ پہلے ‘‘ٹیڈی بوائے’’کی پیلی قمیض پر لڑکیوں کی ایسی واہیات تصویریں بنی ہوئی تھیں کہ نظر پڑتے ہی ثقہ آدمی لاحول پڑھنے لگتے تھے اور ہم نے دیکھا کہ ہرثقہ آدمی بار بار لاحول پڑھ رہا ہے۔ دوسرے نوجوان کو مرحوم کی بے وقت موت سے واقعی دلی صدمہ پہنچا تھا، کیونکہ ان کا سارا‘‘ویک اینڈ’’چوپٹ ہوگیا تھا۔
چونچوں اور چہلوں کا یہ سلسلہ شاید کچھ دیر اور جاری رہتا کہ اتنے میں ایک صاحب نے ہمت کرکے مرحوم کے حق میں پہلا کلمہ خیر کہا اور میری جان میں جان آئی۔ انہوں نے صحیح فرمایا ‘‘یوں آنکھ بند ہونے کے بعد لوگ کیڑے نکالنے لھیں، یہ اور بات ہے، مگرخداان کی قبر کو عنبریں کرے، مرحوم بلاشبہ صاف دل، نیک نیت انسان تھے اور نیک نام بھی۔ یہ بڑی بات ہے۔’’
‘‘نیک نامی میں کیا کلام ہے۔ مرحوم اگر یونہی منہ ہاتھ دھونے بیٹھ جاتے تو سب یہی سمجھتے کہ وضو کر رہے۔۔۔۔۔۔۔۔’’جملہ ختم ہونے سے پہلے مدّاح کی چمکتی چند یا یکایک ایک دھنسی ہوئی قبرمیں غروب ہوگئی۔
اس مقام پرایک تیسرے صاحب نے(جن سےمیں واقف نہیں) ‘‘روئے سخن کسی کی طرف ہو تو روسیاہ’’ والے لہجے میں نیک نیتی اور صاف دلی کا تجزیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ بعض لوگ اپنی پیدائشی بزدلی کے سبب تمام عمر گناہوں سے بچے رہتے ہیں۔ اس کے برعکس بعضوں کے دل و دماغ واقعی آئینے کی طرح صاف ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔یعنی نیک خیال آتے ہیں اورگزرجاتے ہیں۔
شامتِ اعمال کہ میرے منہ سے نکل گیا ‘‘نیت کا حال صرف خدا پر روشن ہے مگراپنی جگہ یہی کیا کم ہے کہ مرحوم سب کے دکھ سکھ میں شریک اور ادنیٰ سے ادنیٰ پڑوسی سے بھی جھک کر ملتے تھے۔’’
ارے صاحب! یہ سنتے ہی وہ صاحب تو لال بھوککا ہوگئے۔ بولے ‘‘حضرات! مجھے خدائی کا دعویٰ تو نہیں۔ تاہم اتنا ضرور جانتا ہوں کہ اکثر بوڑھے خرّانٹ اپنے پڑوسیوں سے محض اس خیال سے جھک کر ملتے ہیں کہ اگر وہ خفا ہوگئے تو کندھا کون دے گا۔’’
خوش قسمتی سے ایک خدا ترس نے میری حمایت کی۔ میرامطلب ہے مرحوم کی حمایت کی۔ انہوں نے کہا کہ مرحوم نے، ماشااللہ،اتنی لمبی عمرپائی۔ مگرصورت پرذرانہیں برستی تھی۔چنانچہ سوائے کنپٹیوں کے اور بال سفید نہیں ہوئے۔ چاہتے تو خضاب لگاکے خوردوں میں شامل ہو سکتے تھے۔ مگر طبیعت ایسی قلندر نہ پائی تھی کہ خضاب کا کبھی جھوٹوں بھی خیال نہیں آیا۔
وہ صاحب سچ مچ پھٹ پڑے‘‘آپ کو خبر بھی ہے؟ مرحوم کا سارا سر پہلے نکاح کے بعد ہی سفید گالا ہوگیا تھا۔ مگر کنپٹیوں کو قصداً سفید رہنے دیتے تھے تاکہ کسی کو شبہ نہ گزرے کہ خضاب لگاتے ہیں۔ سلور گرے قلمیں! یہ تو ان کے میک اپ میں ایک نیچرل ٹچ تھا!’’
‘‘ارے صاحب!اسی مصلحت سے انہوں نے اپنا ایک مصنوعی دانت بھی توڑ رکھا تھا’’ایک دوسرے بدگونے تا بُوت میں آخری کیل ٹھونکی۔
‘‘کچھ بھی سہی وہ ان کھوسٹوں سے ہزار درجے بہتر تھے جو اپنے پوپلے منہ اور سفید بالوں کی داد چھوٹوں سے یوں طلب کرتے ہیں، گویا یہ ان کی ذاتی جدوجہد کا ثمرہ ہے۔’’مرزا نے بگڑی بات بنائی۔
اُن سے پیچھا چھڑا کر کچی پکی قبریں پھاندتا میں منشی ثناءاللہ کے پاس جا پہنچا، جو ایک کتبے سے ٹیک لگائے بیری کے ہرے ہرے پتے کچرکچر چبا رہے تھے اور اس امرپربار بار اپنی حیرانی کا اظہار فرمارہے تھے کہ ابھی پرسوں تک تو مرحوم باتیں کررہے تھے۔گویا ان کے اپنے آداب جانکی کی رُو سے مرحوم کو مرنے سے تین چارسال پہلے چپ ہو جانا چاہیے تھا،بھلامرزاایسا موقع کہاں خالی جانے دیتے تھے۔مجھے مخاطب کرکے کہنے لگے، یاد رکھو! مرد کی آنکھ اورعورت کی زبان کا دم سب سے آخر میں نکلتا ہے۔
یوں تومرزاکے بیان کےمطابق مرحوم کی بیوائیں بھی ایک دوسرے کی چھاتی پردوہتّڑ مارمارکربین کررہی تھیں، لیکن مرحوم کے بڑے نواسے نے جو پانچ سال سے بے روزگار تھا،چیخ چیخ کر اپنا گلا بٹھالیا تھا۔ منشی جی بیری کے پتوں کا رس چوس چوس کر جتنا اسے سمجھاتے پچکارتے، اتنا ہی وہ مرحوم کی پنشن کو یاد کرکے دھوڑیں مار مار کر روتا۔ اسے اگر ایک طرف حضرت عزائیل سے گلہ تھا کہ انہوں نے تیس تاریخ تک انتظارکیوں نہ کیا تو دوسری طرف خود مرحوم سے بھی سخت شکوہ تھا
کیا تیرابگڑتا جونہ مرتا کوئی دن اور؟
ادھرمنشی جی کا سارا زوراس فلسفے پر تھا کہ برخوردار! یہ سب نظر کا دھوکا ہے۔درحقیقت زندگی اور موت میں کوئی فرق نہیں۔ کم ازکم ایشیا میں۔ نیز مرحوم بڑے نصیبہ ور نکلے کہ دنیا کے بکھیڑوں سے اتنی جلدی آزاد ہوگئے۔ مگر تم ہوکہ ناحق اپنی جوان جان کو ہلکان کیے جا رہے ہو۔ یونانی مثل ہے کہ
وہی مرتا ہے جومحبُوبِ خُدا ہوتا ہے
حاضرین ابھی دل ہی دل میں حسد سے جلے جارہے تھے کہ ہائے، مرحوم کی آئی ہمیں کیوں نہ آگئی کہ دم بھر کو بادل کے ایک فالسئی ٹکڑے نے سورج کو ڈھک لیا اورہلکی ہلکی پھوارپڑنےلگی۔ منشی جی نے یکبارگی بیری کے پتّوں کا پھوک نگلتے ہوئے اس کومرحوم کے بہشتی ہونے کا غیبی شگون قرار دیا۔ لیکن مرزا نے بھرے مجمع میں سرہلا ہلا کراس پیشگوئی سے اختلاف کیا۔ میں نے الگ لے جا کروجہ پوچھی توارشاد ہوا:
‘‘مرنے کے لیے سنیچرکا دن بہت منحوس ہوتا ہے۔’’
لیکن سب سے زیادہ پتلا حال مرحوم کے ایک دوست کا تھا،جن کے آنسو کسی طرح تھمنے کا نام نہیں لیتے تھے کہ انھیں مرحوم سے دیرنہ ربط و رفاقت کا دعویٰ تھا۔ اِس رُوحانی یک جہتی کے ثبوت میں اکثر اس واقعے کا ذکر کرتےکہ بغدادی قاعدہ ختم ہونے سے ایک دن پہلے ہم دونوں نے ایک ساتھ سگرٹ پینا سیکھا ۔ چنانچہ اس وقت بھی صاحب موصوف کے بین سے صاف ٹپکتا تھا کہ مرحوم کسی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت داغ بلکہ دغا دے گئے اور بغیر کہے سنے پیچھا چھڑا کے چپ چپاتے جنت الفردوس کو روانہ ہوگئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اکیلے ہی اکیلے!
بعد میں مرزانےصراحتہً بتایا کہ باہمی اخلاص ویگانگت کا یہ عالم تھا کہ مرحوم نےاپنی موت سے تین ماہ پیشترموصوف سے دس ہزار روپئےسکّہ رائج الوقت بطورقرض حسنہ لیےاوروہ توکہیے،بڑی خیریّت ہوئی کہ اسی رقم سے تیسری بیوی کا مہرمعجّل بیباق کرگئے ورنہ قیامت میں اپنے ساس سسرکو کیا منہ دکھاتے۔
(۲)
آپ نےاکثردیکھا ہوگا کہ گنجان محلوّں میں مختلف بلکہ متضاد تقریبیں ایک دوسرے میں بڑی خوبی سے ضم ہو جاتی ہیں۔ گویا دونوں وقت مل رہے ہوں۔ چنانچہ اکثر حضرات دعوت ولیمہ میں ہاتھ دھوتے وقت چہلُم کی بریانی کی ڈکار لیتے، یا سویم میں شبینہ فتوحات کی لزیز داستان سنا تے پکڑے جاتے ہیں۔ لذّتِ ہمسایگی کا یہ نقشہ بھی اکثر دیکھنے میں آیا کہ ایک کوارٹر میں ہنی مون منایا جارہا ہے تو رت جگا دیوار کے اس طرف ہورہا ہے۔ اور یوں بھی ہوتا ہے کہ دائیں طرف والے گھر میں آدھی رات کو قوال بلّیاں لڑارہے ہیں، تو حال بائیں طرف والے گھر میں آرہا ہے۔ آمدنی ہمسائے کی بڑھتی ہے تو اس خوشی میں ناجائز خرچ ہمارے گھرکا بڑھتا ہےاوریہ سانحہ بھی بارہا گزراکہ مچھلی طرحدار پڑوسن نے پکائی اور
مدّتوں اپنے بدن سے تری خوشبوآئی
اس تقریبی گھپلے کا صحیح اندازہ مجھے دوسرے دن ہوا جب ایک شادہ کی تقریب میں تمام وقت مرحوم کی وفات حسرت آیات کے تذکرے ہوتے رہے۔ ایک بزرگ نے، کہ صورت سے خود پا بہ رکاب معلوم ہوتے تھے، تشویش ناک لہجے میں پوچھا، آخری ہوا کیا؟ جواب میں مرحوم کے ایک ہم جماعت نے اشاروں کنایوں میں بتایا کہ مرحوم جوانی میں اشتہاری امراض کا شکار ہوگئے۔ ادھیڑ عمر میں جنسی تونس میں مبتلا رہے۔ لیکن آخری ایام میں تقویٰ ہوگیا تھا۔
‘‘پھربھی آخرہوا کیا؟’’پابہ رکاب مرد بزرگ نے اپنا سوال دہرایا۔
‘‘بھلے چنگے تھے۔ اچانک ایک ہچکی آئی اور جاں بحق ہوگئے’’ دوسرے بزرگ نے انگوچھے سےایک فرضی آنسوپوچھتے ہوئے جواب دیا۔
‘‘سنا ہےچالیس برس سے مرض الموت میں مبتلا تھے’’ایک صاحب نے سوکھے سے مُنہ سے کہا۔
‘‘کیا مطلب؟’’
‘‘چالیس برس سے کھانسی میں مبتلا تھےاورآخراسی میں انتقال فرمایا۔’’
‘‘صاحب! جنّتی تھے کہ کسی اجنبی مرض میں نہیں مرے۔ ورنہ اب تو میڈیکل سائنس کی ترقی کا یہ حال ہے کہ روز ایک نیا مرض ایجاد ہوتا ہے۔’’
‘‘آپ نے گاندھی گارڈن میں اس بوہری سیٹھ کوکارمیں چہل قدمی کرتے نہیں دیکھاجو کہتا ہے کہ میں ساری عمر دمے پراتنی لاگت لگا چکا ہوں کہ اب اگرکسی اورمرض میں مرنا پڑا تو خدا کی قسم، خودکشی کرلوں گا۔’’مرزا چٹکلوں پراترآئے۔


This post first appeared on GumNaam, please read the originial post: here

Share the post

ہوئے مر کے ہم جو رسوا

×

Subscribe to Gumnaam

Get updates delivered right to your inbox!

Thank you for your subscription

×