Get Even More Visitors To Your Blog, Upgrade To A Business Listing >>

لمحہ ادراک

لمحہ ادراک


آج وہ اک بار پھر سرپٹ دوڑ رہا تھا۔ آج بھی دوڑ اس قدر شدید کہ پیروں کی دھمک پھر سے دماغ تک گونج رہی تھی۔ اک بار پھر۔۔۔مگر اس بار کی دوڑ شاید اس دور کی دوڑ سے مختلف تھی۔ پر مختلف کیونکر تھی۔۔۔کیسے تھی۔ سب کچھ تو ویسا ہی تھا۔ اس دن بھی عجلت میں بھاگتے بھاگتے پاوں کی جوتی شاید کہیں رہ گئی تھی۔ اور آج بھی وہ ننگے پاوں تھا۔ سانس اگر اس روز بھی دھونکنی کی مانند چل رہا تھا۔ تو آج بھی اکھڑا ہوا تھا۔۔۔۔دھڑکتا دل اگر اس روز بھی سینہ چیر کر باہر نکلنے کو تھا۔ تو دل کی بے قراری و بے تابی آج بھی ویسی ہی تھی۔ جان جانے کا خوف اس روز بھی عفریت کی طرح پیچھا کر رہا تھا تو زندہ رہنے کی خواہش سسکتے ہوئے آج بھی ساتھ گھسٹ رہی تھی۔ حلق اس روز بھی دو بوند پانی کو ترس رہا تھا تو کانٹے حلق میں آج بھی اگے ہوئے تھے۔ بے سروسامانی کا احساس اس روز بھی تھا تو لاچاری و بے بسی سی کیفیت آج بھی تھی۔ اپنوں کو کھو دینے کا خوف آج بھی اسی روز جیسا تھا۔ بوڑھے بیمار ماں باپ، پیار کرنے والی بیوی, دل و جاں سے عزیز اولاد کے چہرے دل کی نظروں کے سامنے اسی انداز سے گھوم رہے تھے جیسے اس روز گھومے تھے۔ سب کچھ تو ویسے کا ویسا ہی تھا۔ کچھ بھی تو نیا نہیں تھا۔ کچھ بھیتو۔۔۔۔۔

ہاں۔۔۔۔مگر شاید اس روز وہ نہیں دوڑا تھا۔ وہ تو شاید کوئی اور تھا۔ مگر وہ بھی اس جیسا ہی تھا۔ نہیں۔۔۔نہیں۔۔۔وہ جواس روز دوڑا تھا وہ شاید مہاجر تھا۔ یا پھر شاید پنجابی تھا۔ آج دوڑتے سمے یاداشت کام نہیں کر رہی۔ ہو سکتا ہے پٹھان یا پھر بلوچ ہو۔ چہرہ ذہن میں آجائے تو پہچان بھی لیتا۔ مگر بےچاری روح کا تو کوئی چہرہ نہیں ہوتا۔ کوئی قبیلہ بھی نہیں ہوتا۔ کوئی نسل نہیں، کوئی ملک نہیں ہوتا۔ جسم کے پنجرے میں قید پنچھی کی بھلا کیا پہچان ہو۔  مگر وہ جو آج دوڑ رہا تھا۔ اس لمحے روح تو کیا جسم بھی ہر پہچان سے عاری صرف زندگی، زندگی، اور زندگی کا ورد کرتے سر تا پا التجا بنا ہوا تھا۔ بعض اوقات پوری زندگی کا وقت کجھ نہیں سکھا پاتا مگر کبھی اک لمحہ پوری زندگی کا سبق یاد کرا جاتا ہے۔ یہ لمحہ ان بیش قیمت لمحوں میں سے ایک تھا۔ مگر سوال یہ نہیں تھا۔ سوال تو تھا کہ اس لمحے اس روز کے اور آج کے دوڑتے شخص میں کیا فرق ہے۔ ہاں۔۔یاد آیا۔ ۔۔اس روز وہ ننگے پاوں اپنے وطن کی مٹی کی تلاش میں تھا اور بے شمار چبھے کانٹوں سے رستے خون سے لت پت پاوں لئے، دشمن کی کرپانوں سے بچتا دوڑ رہا تھا۔ تو آج خون سے لت پت پیر اپنے ہی وطن کی مٹی سے خاک آلودہ آخر کس کی کرپان سے بچنے کو بے ربط آٹھ رہے تھے۔ مڑ کر اک بار پیچھے دیکھا تو کرپانوں کی جگہ اب بندوقوں نے لے لی تھی۔ اس روز کرپان کے پیچھے تو دشمن تھا۔ مگر آج یہ کیا تھا۔  بندوق کے پیچھے تو اپنے نظر آرہے تھے۔  ۔ آہ۔۔۔مل گیا جواب۔۔۔دوڑتے قدم اب ویسے بھی تھکنے لگے تھے۔ سانسیں وقت سے پہلے اکھڑنے لگی تھیں۔ جب منزل کا تعین نہ تو سفر بے معنی ہو جاتا ہے۔ رکتے قدموں اور شعلے اگلتی بندوقوں کے درمیان جو لمحہ تھا وہی تو ادراک کا لمحہ تھا۔ ادراک کا لمحہ جاں گسل ہوتا ہے۔ اس لمحے جب بندوق سے نکلا فولاد کا ٹکڑا اس کے خوبصورت بالوں کو بے رخی سے جھٹکتا اس کے سر میں داخل ہوا تو دوڑتے قدموں کو یکلخت قرار آگیا۔ سانس تھمی تو بے پناہ دھڑکتا دل بھی پرسکون ہو گیا۔ آنکھیں کھلی رہیں مگر نظریں بجھ گئیں۔ اور بجھتی نظروں نے آخری منظر جو دیکھا وہ اس روز سے فقط اتنا مختلف تھاکہ اس روز دشمن اس کی لاش کے پاس کھڑا تھا۔ مگر آج جو اس کی موت کی تصدیق کرنے اس کے سرہانے آن کھڑا ہوا تھا۔ وہ اپنا تھا۔




This post first appeared on GumNaam, please read the originial post: here

Share the post

لمحہ ادراک

×

Subscribe to Gumnaam

Get updates delivered right to your inbox!

Thank you for your subscription

×