امتحاں ہم نے دیئے اس دار فانی میں بہترنج کھینچے ہم نے اپنی لا مکانی میں بہت وہ نہیں اس سا تو ہے خواب بہار جاوداںاصل کی خوشبو اڑی ہے اس کے ثانی میں بہت رات دن کے آنے جانے میں یہ سونا جاگنافکر والوں کو پتے ہیں اس نشانی میں بہت کوئلیں کوکیں بہت دیوار گلشن کی طرفچاند دمکا حوض کے شفاف پانی میں بہت اس کو کیا یادیں تھیں کیا اور کس جگہ پر رہ گئیںتیز ہے دریائے دل اپنی روانی میں بہت آج اس محفل میں تجھ کو بولتے دیکھا منیرؔتو کہ جو مشہور تھا یوں بے زبانی میں بہت
منیر نیازی
The post امتحاں ہم نے دیئے اس دار فانی میں بہت appeared first on Fruit Chat.
امتØاں ÛÙ… Ù†Û’ دیئے اس دار Ùانی میں بÛت
Get updates delivered right to your inbox!
Please follow the link we've just sent you to activate the subscription.