Get Even More Visitors To Your Blog, Upgrade To A Business Listing >>

پاکستان کی تباہی کے ذمہ درا اچھے لوگ ہیں۔۔

پاکستان کے بحران کے ذمہ دار ۔اچھے لوگ ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک میں کوئی مسئلہ تکلیف یا خرابی اگر ہوجائے تو اس کو تلاش کرنے کے لیے ریسرچ کمیٹی بیٹھتی ہیں اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 

لیکن ہمارے ملک میں اخلاقی زوال جس ہد تک آ چکا ہے، زیادہ تدبر کی ضرورت نہیں، 

صرف ارد گرد دیکھ لیں، اچھائی اس قدر بڑھ گئی ہیکہ لوگ خداوؤں جیسے ہو گئے ہیں ۔

خود کچھ کرتے نہیں، کسی کو کرنے دیتے نہیں۔۔۔

اگر کوئی دیوانہ بڑھے تو  سارے کام چھوڑ کہ سب سے پہلے اسی کا بندوبست کرتے ہیں ۔

اور یہ رویہ 1947 سے ہی ہمارے ساتھ آرہا ہے ،

اتنے اجلے کپڑے پہن لیے ہیں کہ پہلی چھینٹ پر ہی میدان چھوڑ دیتے ہیں کہ دامن پر داغ آئے گا۔ 

نصاب تعلیم اس حد تک ناکارہ اور سوچوں کو بند کرنے والا ہے، اپنے ارد گرد کوئی اک شخص نئے نظریہ یا سوچ کو لیے دکھا دیں۔

اور یہ دھرتی کبھی بانج نہیں تھی۔ ہم نے ہر اٹھنے والے کی اتنی مخالفت کی کہ میدان چھڑوا کر دم لیا۔

تربیت میں وہ مضبوطی دی نہیں کہ ڈٹ کہ کھڑا ہو سکیں۔ 

کیا برائی بڑھی؟

برائی اور اچھائی کا ہمیشہ توازن رہا ہے۔اج بھی ہے لیکن اچھے لوگوں کی اچھائی کا معیار اتنا بلند ہو گیا ہے کہ برائی کو روکنا ضروری نہیں سمجھا۔۔۔۔۔

 معاشرہ کی اکائی فرد ہے ۔ جیسا فرد ہو گا ویسا معاشرہ ہوکا۔ ہر فرد اپنے آپ میں پاکستان ہے اگر سمجھے۔۔

احساس ذمہ داری

احساس بڑی قیمتی چیز ہے اور انسان اور حیواں میں واحد فرق۔

انگلستان میں 

2011 میں آتش زنی کے ایک واقع کے بعد فسادات شروع ہو گئے تھے۔

پولیس اکٹھی ہوئی جلد ہی قابو پا لیا گیا۔ 

نقصان ہوا دوکانیں لٹی، لیکن وہ زندہ معاشرہ ہے ۔

وہاں برائی ہوتا دیکھ کر ظلم دیکھ کر 

سانو کی چل چلیے 

کہنے کا رواج نہیں۔ ہر گزرتا شخص خلاف قانون حرکت دیکھ کر ہلپ لائن ملا دیتا ہے۔

فسادات کی آگ ٹھنڈی ہوئی تو ،معاشرہ کا اصل چہرہ سامنے آیا میجسٹریٹ 24 گھنٹے بیٹھے،

مائیں بیٹوں کا بازو پکڑ کر عدالت میں لے کے آئیں ، اور مال مسروقہ بھی۔

باپ خود شکایت لے کے آئے ۔ 

سی سی ٹی وی کیمرے کے ریکاڑ پر ہی فیصلے ہوتے رہے، وکیل راستے میں رکاوٹ نہیں بنے،

کوئی بڑی سزا نہیں ہوئی، کیونکہ بچے انکے اپنے تھے۔

لیکن معاف بھی نہیں کیا، کہ معاشرہ کا خوف ختم نہ ہو، لوگوں کا انصاف  پر اعتماد رہے۔

اور آج سب کو پتہ ہے کہ لندن کے 40 فیصد تک سی سی ٹی سی ڈمی ہیں۔

وہاں برائی نہیں بڑھتی۔ وہاں ظلم نہیں ہوتا۔ 

وہاں انسانوں کو انسانوں والے حقوق ہیں۔

حقوق ریاست نے پاکستان میں بھی دیے ہیں، لیکن حضرت عمر کا قانون تو چاہیے  نفاذ کے لیے فرشتے درکار ہیں۔  

کاش اچھے لوگ اچھے نہ رہتے۔۔

جب زمانہ بدل رہا تھا نئے انداز اپنا رہا تھا ، فیصلہ اچھے لوگوں کے ہاتھوں میں تھا، کس کی عزت میں کھڑا ہونا ہے؟

پراڈو والے بندوق بردار  یا سائیکل والے استاد 

اچھے لوگوں  نے چھنٹے نہ پڑیں اس خعف سے

 پراڈو کو چنا۔۔۔۔

 

  کلاس روم میں غنڈے گھسے تپھڑ مار کر پروفیسر کو باہر نکال دیا ، خاموش رہے 

دامن پر چینٹ نہ پڑ جائے۔۔۔۔۔

 ایسا  ہو ہی نہیں سکتا، صرف پوچھ لیتےسوال کر لیتے تباہی ہو جاتی۔

آج بھی کسی گلی میں کھڑے ہونے والے لڑکے کو صرف پوچھ لین ،کیوں کھڑے ہو۔۔میلہ نہیں لگتا

  ایک دفعہ میلہ لگ جائے تو پھر وہ پوچھنے دیتے نہیں۔ 

آج بھی اچھے لوگ گھر کی صفائی سے منہ چرا رہے ہیں ۔

سامنے کھڑے ہو کر گھر جلتا دیکھ رہے ہیں پانی نہیں ڈالیں گے۔

کسی طرح انکی اجلی اجلی قمیضوں کے دامن آدھے گرد آلود کر دئے جائیں ، سب ٹھیک ہو جائے گا۔

چوروں کے پاوں نہیں ہوتے، ما لک نیند سے جھاگ جائیں  تو فرار ہو جاتے ہیں۔۔۔ 

لیکن انکو جھگانے کے لیے صرف ثور پھونکا جانا باقی ہے۔سینکڑوں آئے اور چلے گئے معاشرہ مکمل تبدیل ہو گیا ۔

لیکن سب گنوا کر بھی جو چیز ہم نے نہیں چھوڑی وہ ہے 

گوڈا کٹ وراثت

Have Educational Triggers are Made parts of our Minds?

مزید پڑھیں

سچ کا سچ

مزید پڑھیں

قومی غیرت کا فقدان

مزید پڑھیں

نمک حرام سپہ سالار

مزید پڑھیں

The post پاکستان کی تباہی کے ذمہ درا اچھے لوگ ہیں۔۔ appeared first on Fruit Chat.



This post first appeared on Think Different,Let's Fruit Chat, please read the originial post: here

Share the post

پاکستان کی تباہی کے ذمہ درا اچھے لوگ ہیں۔۔

×

Subscribe to Think Different,let's Fruit Chat

Get updates delivered right to your inbox!

Thank you for your subscription

×