Get Even More Visitors To Your Blog, Upgrade To A Business Listing >>

جمہوریت ڈرامہ

جمہوریت ڈرامہ

پاکستان میں خطرہ جمہوریت کو نہیں ، جہالت کو ہے۔ خطرہ آئین لپیٹے جانے کا نہیں آئین کے نافذ ہو جانے کا ہے۔پاکستان میں جمہوریت نامی چڑیا کبھی ائی ہی نہیں۔

جمہوریت ڈرامہ

انسان کو سماجی حیوان بھی کہا جاتا ہے، انسان بستیوں اور آبادیوں کی شکل میں رہتے ہیں۔

 انتظامات کو چلانے کے لیے کوئی نہ کوئی نظام وضع کرتے ہیں۔ یہ نظام پنچایت،یونین کونسل،ضلع کونسل،پالیمانی یا صدارتی نظام کی شکل میں ہوتا ہے۔ لیکن ان تمام کے تمام نظاموں کا واحد مقصد فرد کی زندگی، جان۔ مال۔ مستقبل، اور معیار زندگی کا تحفظ اوراس کو بہترسے بہترین کرنا ہوتا ہے۔یہی جمہوریت کا مقصد ہوتا ہیکہ جمہور مقدم ہو۔

یہی نظام قوموں کے مستقبل کا فیصلہ کرتا ہے اور قوم، اقوام عالم میں کس جگہ کھڑی ہوں گی، اس کا فیصلہ بھی کرتا ہے۔

جمہوریت میں آئین کی اہمیت

انسان اپنی طبعی زندگی کے مختلف ادوارمیں مختلف  کیفیات کے زیر اثر رہتا ہے۔ بچپن میں بے فکری، ٹین ایج میں حد سے بڑا جنون جوش ناممکنات کو ممکن بنا دینے کا جذبہ لیے بغیر نتائج کی پرواہ کیے  فیصلے لیتا ہے۔ عمر میں اضافہ کے ساتھ، جوش سنجیدگی میں تبدیل ہوتا ہے اور فیصلے کرنے سے  پہلے نتائج کتے بارے میں سوچنا شروع کرتا ہے۔ تجربہ اور معلومات ااس کو صورت حال کے درست ادراک اور نتائج کا بر وقت علم دیتی ہیں،لیکن اس حصہ میں عمر سے ہارنے کا خوف اس کی فیصلہ سازی میں خود غرضی کا عنصر شامل کر دیتی ہیں۔

 وہ نادانستگی میں ایسے فیصلے کرسکتا ہے جو افراد کے لیے مناسب نہ ہوں. 

 انسانی رویوں کو دیکھتے ہوئے، عرصہ پہلے اس کا حل نکالا، ہر معاملے میں الگ الگ محکمہ قائم کرکے تمام پیش آمد حالات کو مد نظر رکھ کر ایس او پیزبنائی گئی، یہ ایس او پیز کوئی فرد واحد نہیں، بلکہ مختلف اہل علم ملکر بناتے، تاکہ کسی فرد واحد کی سوچ کے زیر اثر نہ رہے۔

 یہی ایس او پیز ملکر آئین بناتی ہیں۔ ہر صورت حال میں درست فیصلہ سازی کا ضامن ہوتا ہے ، اور یہی جمہوریت کی جان ہوتا ہے تاکہ عوام کے  حقوق کا تحفظ اور ریاست کی ذمہ داریوں کا تعین ہوسکے۔

پاکستان میں ہمیشہ سول اور ملٹری ڈکٹیٹر شپ کی رسہ کشی رہی ، جمہوریت اک خواب ہے،امید شائد کبھی شرمندہ تعبیر ہو۔

پاکستان میں اس وقت 1973 کا آئین نافذ ہے، یہ بھی تقریبا ان تمام خوبیوں کا مالک ہے جو کسی جدید ملک کے آئین میں ہو سکتی ہیں۔

یہ آئین اپنی بد ترین شکل میں بھی آمریت سے بہتر ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہیکہ اگر سب کچھ بہتر ہے تو پھر اچھا کیوں نہیں ہوتا۔

اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔

اگر انکی نیت بہتر ہوتی تو پاکستان کبھی دولخت نہ ہوتا،

 آئین پاکستان شائد دنیا کے بہت سے ممالک سے بہتر ہے لیکن اس کو بنانے والوں اور نافذ کرنے والوں کی بد نیتی  نے اس کے ثمرات کو عام آدمی تک نہ جانے دیا۔ وطن عزیز کی بدقسمتی یہ بھی ہے کہ یہاں پرآئین کو 1973 سے لے کر اب تک نافذ ہونے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔

طاقتور حلقوں کےتمام حقوق کا تحفظ تو کیا گیا۔ وہ آرٹیکلز جن میں ان کے اختیارات اور طاقت میں کسی قسم کی کمی واقع نہ  ہونے پائے پوری قوت سے نافذ ہوئے۔

 لیکن  آئین پاکستان کے جن آرٹیکلز میں عوام کے معیارزندگی اور ریاست کی ذمہ داری ہے ان کواس طرح چھپا دیا گیاکہ کبھی کسی نے ذکر تک نہ کیا۔ آئین کو مقدس قرار دے کراتنا بلند کر دیا، جس طرح قرآن کو غلاف میں لپیٹ کرگھر کی سب سے بلند جگہ رکھ ہر فرد کی زندگی سے دور کر دیا گیا۔

آرٹیکل 6 کا ہر کسی کو علم ہے، کیا اس آرٹیکل کا بھی علم ہے جس میں ہمری تعلیم صحت آزادی رائے،عدل وانصاف،جان و مال کا تحفظ ریاست کی زمہ داری ہے۔

آئین کی حفاطت

جمہوری نظام میں آئین اپنا محافظ خود  ہوتا ہے ۔خود اپناا پہرے دار۔

 مثال کے طور پرپاکستان کے آئین میں ایک نقطہ یا فل سٹاپ کی تبدیلی کے لیے دو تہائی اکثریت اس کے تحفظ کی ضامن ہے۔  اگراس میں کامیاب ہوبھی جائیں، توسینٹ کا ایک اور نگران  موجود ہے۔ اسی طرح ہرایک ادارہ پر دوسرے  ادارہ کا نگران ہے۔ 

اصل قصور واراس ملک کے مالک،عوام خود ہیں۔

ان لوگوں کو منتخب کرکے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے بھیجتے ہیں،جو دستخط تک کرنے کے اہل نہیں۔

جو گریجیویشن تک کی شرط برداشت نہیں کر سکتے، جوپڑھ تک نہ سکیں وہ  قوانین کی کیا حفاظت کریں گے ۔ 

جنکو MNAاور MPA کا مطلب  اورمقصد نہیں معلوم،جنکو ایک ممبر کی job Description  نہیں پتہ کیسے حفاظت کریں گے۔

ایک  MPA کی کارکردگی گٹروں کے ڈھکن مخالفوں پر 4 پرچے اور باقائدگی سے جنازوں میں  شرکت قرار پائی. 

 MNA  چند گلیاں پکی کروانے, 3/4 ایس ایچ او سسپنڈ کروانے اور 3 نئے ٹیوب ویل لگوا کر آسانی سے اگلا الیکشن جیت جاتا ہے۔

گزرشتہ الیکشن تو نت نئے ٹرینڈ لائے، 5 ووٹوں پر موٹرسائیکل، دس ووٹوں والے کو دفتر اور بریانی کی بلا ناغہ ترسیل اور کیمپیں کے نام پر اس قدر بینر اور فلیکس، گویا یہی فلیکس کارکردگی ہوتے ہیں۔ 

آکٹوپسی نظام

آئین ایک سسٹم  ایک نظام تشکیل دیتا ہے۔

 اس نظام میں تمام لوگ ایک دوسرے سے منسلک ہیں، ہر اک پر دوسرا نگران۔۔۔۔۔۔

آپ نے کبھی غور کیا ہیکہ وزیرریلوے جس کو ریلوے کی الف کا نہیں علم اسکا کام کیا ہے؟

وزیر صحت کے لئے ڈاکٹرہونا ضروری نہیں۔؟

وزیر دفاع ٹینک چلانا نہیں جانتا۔۔

وزیر محکمہ کے ملازمین اور بیوروکریسی پرنگران ہیں، عوام کی طرف سے عوام کے حقوق کا تحفط کرنے والا، تاکہ اگرمحکمہ میں کوئی کام غلط  ہو نقصان کا اندیشہ ہو،تو اسے درست کیا جائے۔

اسی طرح ان نمائندوں اور پوری پارلیمنٹ کو 5 سال بعد عوام کے پاس بھیج کران پر عوام کو نگران رکھا گیا۔

جس منسٹر کو بیوروکریسی پر چیک رکھنا تھا وہ اس قابل بھی نہیں کہ ایک فائل چیک کر سکے۔

پاکستان آج بھی اس دور میں جی رہا ہے جہاں سیاست میں جیل جانا باعث افتخار سمجھا جاتا ہے ، جس دور کا حوالہ دیا جاتا ہے وہ دور انگریز حاکموں کا تھا جو جیل گئے اپنے لوگوں کے حقوق کے لئے گئے ،اپنا مال جائیدادیں ،زندگیاں تک اپنے لوگوں کے لیے لٹا کوئی ایک بھی حکومت کرنے کے لالچ میں اور جائیدادیں بنانے پرنہیں  گیا۔

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

رہا سہا آئینی ڈھانچہ  تب زمین بوس ہوا، جب جس کا دل چاہا، اس میں اپنی مرضی کے مطابق تبدیلی کر لی۔ 

اپنے ہم خیالوں کو نوازنے کے لئے اک لمحہ میں سب بدل جاتا ہے۔ 

ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے اس سسٹم کو خود بنا کے، خود اسقدر طاقت دے دی اب اصل حکمران ہے۔

 سیاستدانوں کو جن پر نگرانی  رکھنا تھی انکے آگے گھٹنے ٹیک دیئے۔

 ہرسیاسی پارٹی کا اپنا چیف سیکرٹری الگ منظور نظر افسر۔

سسٹم اسقدر طاقتورہوگیا، چیف منسٹر تو دورکابینہ سے پاس ہوئے فیصلوں 6 ماہ ہاتھ تک نہ لگائیں تو انکی مرضی ۔

اور اگردل چاہا تو اپنا حکمران خود تبدیل کر دیں۔ 

انہیں جب مناسب لگا، خود اپنی مراعات بڑھا لی۔

کبھی کسی نے پوچھا کہ ایک انتظامی افسر سرکاری کلٹس سے سرکاری  فارچونر پر کیوں منتقل ہوا۔ 

ہمارے دشمنوں نے نہیں، ہم نے خود اپنی قبرکھودی ہے۔

پاکستان میں خطرہ جمہوریت کو نہیں جہالت کو ہے ۔

پاکستان میں خطرہ ائین کو نہیں آئین نافظ ہو جانے کا ہے ۔

پورا سسٹم لرز کیوں نہ گیا جب آٹے کی لائن میں ایک شخص جان سے گیا ۔

برغیر پاک وہند میں لوگ ماتھا ٹیکنے کے عادی ہیں، کھڑے ہو کر بات کرنا شائد نسلیں ہوئی ان سے چھن گیا، کبھی راجوں ،مہاراجوں کے سامنے سر جھکاتے ہیں، کھبی انگریزوں کے سامنے، اسی کمزوری سے اس نظام نے خوب فائدہ اٹھایا،اور نسل در نسل غلامی کرتے لوگ آج آزادی کے لفظ کا مذاق اڑاتے ہیں۔

اس قدر ذہنی غلامی کا شکارکہ عقل کے کسی خانہ میں کبھی کسی نے یہ بات سوچی تک نہ ہوگی کہ

یہAC والے بنگلے عوام کے خرچہ پر چلتے ہیں،

سینکڑوں کینال کی سرکاری رہائشیں کہ جنکا کوئی ترقی یافتہ ملک سوچ بھی نہیں سکتا ,اس سندھی ہاری کے ٹیکس پر آباد ہیں جسکے بچوں کو پڑھنے کو اک سکول میسر نہیں۔

بڑے صاحب کا موڈ خراب ہے سن کر سارا دن دھوپ میں کھڑے سائل کو کیامعلوم، صاحب کی تنخواہ اور اخرا جات اس پٹھان موچی کی جیب سے آتے ہیں جو ایک وقت کی روٹی کے لئے گھر بار چھوڑکر لوگوں کی جوتیاں پالش کرتا ہے۔

ہسپتال میں سسکتے مریض کو کہاں معلوم کہ منسٹر صاحب کی مائنر سرجری ملک میں ممکن نہیں، اس بلوچی کی روٹی چھین کر انگلستان میں ہوگی جس کی نسلیں صرف مردم شماری میں گنتی کے کام آتی ہیں۔      

انگریز ہمارے حاکم تھے، ہم انکی رعایا، انکے چلن کو چھوڑ کر عام آدمی کو مالک تسلیم کیا جانا چاہیے ۔

آئین پاکستان کومقدس سے تھوڑا نیچے کا درجہ دے کر صحیح معنوں میں بحال کیا جانا وقت کی ضرورت ہے۔

 فیض احمد فیض صاحب شائد اس سے زیادہ تلخ نہ لکھ پائے ہوں گے، لیکن بھے اثر جانکرضرور آنسووں سے الواع کہہ گئے ہوں گے۔

یہ گلیوں کے آوارہ بے کار کتے
کہ بخشا گیا جن کو ذوق گدائی

زمانے کی پھٹکار سرمایہ ان کا
جہاں بھر کی دھتکار ان کی کمائی

نہ آرام شب کو نہ راحت سویرے
غلاظت میں گھر نالیوں میں بسیرے

جو بگڑیں تو اک دوسرے کو لڑا دو
ذرا ایک روٹی کا ٹکڑا دکھا دو

یہ ہر ایک کی ٹھوکریں کھانے والے
یہ فاقوں سے اکتا کے مر جانے والے

مظلوم مخلوق گر سر اٹھائے
تو انسان سب سرکشی بھول جائے

یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنا لیں
یہ آقاؤں کی ہڈیاں تک چبا لیں

کوئی ان کو احساس ذلت دلا دے
کوئی ان کی سوئی ہوئی دم ہلا دے

 فیض احمد فیض

دوجنرل دوکہانیاں

مزید پڑھیں

نمک حرام سپہ سالار

مزید پڑھیں

ناموری کا راز کیا ہے ؟

مزید پڑھیں

کامیابی کا راز کیا ہے؟

مزید پڑھیں

The post جمہوریت ڈرامہ appeared first on Fruit Chat.



This post first appeared on Think Different,Let's Fruit Chat, please read the originial post: here

Share the post

جمہوریت ڈرامہ

×

Subscribe to Think Different,let's Fruit Chat

Get updates delivered right to your inbox!

Thank you for your subscription

×