Get Even More Visitors To Your Blog, Upgrade To A Business Listing >>

نامور لوگوں کی پہچان کیا ہے ؟

secret of fame

ناموری کا رازکیا  ہے ؟، دنیا میں کچھ لوگ بے انتہا روپیہ پیسا رکھنے کے باوجود اپنا وجود تک نہیں منواسکتے اور کئی لوگ مر کر بھی قابل احترام رہتے ہیں۔کوشش کرتے ہیں سمجھنے کی 

ناموری کا راز 

سب انسان ایک ہی طرح کے ہیں،  ایک جیسے ہی ہاتھ ویسے ہی پاؤں ایک ہی جیسا چہرہ,ایک ساتھ دنیا میں رہتے ہیں۔

  پیدا ہوتےزندہ رہنا سیکھتے ہیں ،پھر زریعہ معاش کے لیے جستجو کرتے ہیں ،تھوڑا سنبھلتے ہی تصور زن سے خواب مہکتے ہیں ۔

اور آنگن میں  چوڑیوں کی کھنک اترتے ہی ,طلب زر میں نہ دن کا علم نہ رات کو ہوش دوڑتا چلا جاتا ہے ۔

صدیوں سے ایسا ہی ہوا، آسودہ حالی میسرآتے ہی,جو پیسہ، دولت، یا زر ہاتھ آیا۔

سب سے پہلے گھرمکان، پلاٹ، زمین اور جاگیر خریدتا ہے۔

یہاں پر زیادہ تر انسانوں کی دوڑاور آگے بڑھنے کی طلب  کم ہونے لگتی اوریہیں انکی منزل آلیتی ہے ۔

؎ لیکن کچھ لوگوں اس سے اگلی منزل پر نظریں جمالیتے ہیں ۔اگلی منزل

شہرت ، ناموری ،  پہچان 

قرار پاتی ہے ۔انکی محفلیں جمنے لگتی ہیں ،چوپالوں میں رونقیں ،دسترخوانوں میں وسعت آجاتی ہے ۔ ہر خاص وعام کے ساتھ سلام دعا بڑھتی ہے ۔

جو شخص چند سالوں پہلے تک  اپنے آپ میں مگن دائیں بائیں کی حالت  سے غافل،  آج ہر خاص و عام کے ساتھ  جیسے برسوں پرانی دوستی ،ہر جگہ نمایاں ،لوگوں میں پہچان بنتی ہے ۔

 جیلے سے  ملک جمیل ہوتا ہے۔

فیقے سے چوہدری رفیق بنتا ہے

اب طاقت اور اختیار کو منزل سمجھنے لگتا ہے ۔طاقت کے لیے پہلے زمانوں میں فوج رکھی جاتی تھی ۔

 لیکن آج کل اختیار کا دروازہ  سیاست سے کھلتا ہے٫ یہی راستہ تخت تک لے کر جاتا ہے۔

 جہاں جہاں طاقت کا مرکز ہے ۔ اختیار کا محور ۔۔

انسان کی طبعیت میں رکنا نہیں ہے ،اکتا جاتا ہے ۔

جنت میں بھی اسی ایک چیز کو جاننے کی طلب  نے چین سے رہنے نہ دیا ، جس سے روکا گیا تھا ،اس لیے خوب سے خوب تر کی جستجو ہمیشہ رہتی ہے ۔

 

 جب حضرت انسان کو جنت سے دنیا پر بھیجا گیا تھا ، تو یہ دنیا جنت نہ سہی جنت سے کم بھی نہ ہوگی ۔

 طاقت پا لینے کے بعد ، جب زن زر زمین کو حاصل کر چکتا ہے، تو اس چوتھے عنصر کے زیر اثر آنے لگتا ہے۔ 

اپنے قد سے عمر سے آ گے سوچنے لگتا ہے ،ہمیشہ رہنے کی خواہش ، موت سے فرار کی چاہ ، ناموری کی طلب ۔۔

 

ہم توکسی گنتی میں ہی نہیں ، زندہ بھی ہیں تو مردوں سے بدتر ، زندہ ہیں تو اک گنتی نہ ہوں گے ، تو نہ سہی ۔ ۔

لیکن جو زندہ ہیں شعور اورآزاد سوچ رکھتے ہیں، آج بھی موت کو شکست دینے کے لیے دن رات سر توڑ کوشش میں ہیں ۔

 

 اسی خواہش کے زیر اثربڑے بڑے محل ، سلطنت کی حدود پر مینار ، اپنے نام سے جڑی یادگار اور احرام بنتے ہیں ۔ آج کے دور میں ہر سڑک ہر منصوبے پر تختی اسی ازلی خواہش کی تسکین کا سامان ہے ۔

یہاں قدرت اپنے پوری حکمت  کے ساتھ جلوہ افروز ہوتی ہے ، ڈیل کرتی ہے دو بدو ۔۔۔۔

جتنا پڑےاور دیرینہ نام و مقام کی طلب ااتنی بڑی قربانی ۔

اب تک یہاں پہنچنے کے لیے جو کمایا جوڑا خواہ مال ہو ، احباب ہوں ، سب کی قربانی دینی پڑتی ہے ۔

پھر قدرت رینیو کرتی ہے ،نیا رنگ و روغن نئی پہچان کہ نسلوں بعد آنے والے بھی نام عزت سے پکاریں۔ 

کتنے ہی تو لوگ ہیں ۔۔۔ 

اس چوتھے عنصر کے سحر سے نکلنا اتنا آسان کہاں  ہے ۔۔۔۔

یہاں فیصلہ ہوتا ہے ہے کہ انسان نے تاریخ میں میں مرنے کے سالوں بعد بھی زندہ رہنا ہے  یا مرنے سے پہلے ہی اپنا نام تاریخ کے سیاہ اوراق میں لکھوانا ہے ۔

 سانپ سیڑھی کا کھیل ننانوے پر آ جاتا ہے  ۔

کم وبیش جتنے بھی عظیم لوگ مقام پا سکے ۔

اپنی ذات ،کی نفی کر کے ہی قدرت کے نئے رنگ میں رنگے گئے ہیں۔

جس نے یہاں اپنا نام،مال،ذات سنبھالی، وہ تاریخ کی سیاہی میں گم ہو گیا۔

 

محمدعلی

      نامور بیرسٹر یورپ میں ساری زندگی عیش سے رہ سکتےتھے، گورنر جنرل بنا تو کوئی جاگیر لے لیتے،

مگر ایمبولینس میں مرے اور اج تک احترام میں دنیا نظریں جھکاتی ہے ۔

 لیاقت علی خان

     پھٹی بنیان میں شہید ہوئے اور نوابی ایسی کہ جو کپڑا ایک دفعہ پہن لیا دوبارہ نہ پہنا، اور رنگ محل کا نام تو اب بھی سماعت کو سننے کو مل جاتا ہے ایسے پارس کہ خود تو عظیم بنے ، انکی شریک حیات نے ساری زندگی پاکستان نامی خواب کی خدمت میں گرار دی ۔

نیدرلینڈ میں محل اک لمہہ  میں تحفہ دے دیا پاکستان کو۔

 جواہر لعل نہرو

   کی ذاتی ملکیت 200 کڑوڑ تھی ، 98٪ دولت نوزائیدہ انڈیا کے نام کر دی ۔

کرم چند گاندھی

     ایک راجا کا وزیر اعظم تھا ، لیکن جب بیٹا موھنداس کرم چند جب گاندھی بنتا ہے مرتے وقت صرف لاٹھی اثاثہ۔

سردار پٹیل کی وفات کے وقت انکی فیملی فلیٹ میں رہتی تھی ۔ 

نیلسن منڈیلا 

      کیوں ساری عمر دے گیا اپنی قوم کو اور جاتے ہوئے کوئی طلن دنیا نہیں۔

 مہاتیرمحمد

  جب اپنے عروج پر سیاست چھور کر گئے تو کیوں کسی محل کا مالک نہیں تھا۔ 

بل گیڈز

جیسے لوگ کیوں اپنی اولاد کو دینے کی بجائے ، اپنی کمائی ہوئی دولت لوگوں میں بانٹے جا رہا ہے ؎

وارن بفٹ

   کو کیوں اپنے بیٹے نظر نہیں آتے ۔انکو افریقہ کے بچوں کی بھوک سے کیا مطلب ۔

اکبر کی سلطنت اور چنڈ اشوک کی سلطنت کا درمیان کئی شاندار اور عالی شان حکومتیں گزری ہیں ۔

حقیقت جانتے ہی سب تیاگ دینا ہی، اس کے تین شیر کے نشان کو آج بھی بھارتی شان کے طور زندہ رکھ گیا ۔

مازےتنگ

کے سامنے اس کے بھائی کوپھانسی دی گئی

گوتم بدھ

نے کیا ایسا کر دیا کہ لوگ خدا جیسا ماننے لگے ۔

ذرا سوچیں ، امریکی جنگ جیت ہی جاتے کبھی نہ کبھی لیکن اگر جارج واشنگٹن ڈکٹیربن جاتے ، جنگ جیتنے کے بعد موقع اور باقاعدہ توجہ دلائے جانے کے باوجودانکار کی بجائے  ،مارشل لا لگا دیتے، تو اس جیتی جنگ کی کیا وقعت رہ جاتی ۔

انہوں نے نہ صرف انکار کیا بلکہ لولی لنگڑی سول حکومت کو اپنا استعفا دے کر اس کو طاقت دی۔

کون لوگ ہیں یہ جن کی نسلیں تو گم ہو گیں اور انکے نام کے دیے روشن ہیں ۔

بڑے لوگوں کی زندگی میں اک لمہہ اتا ہے جو انکو حقیقی معنوں میں عظیم ثابت کرتا ہے ۔

نفسانی خواہشات ۔

زن ،زر، زمین،طاقت،اختیار اولاد یہی انسان کا امتحان ہیں جس نے انکو زیر کر لیا ۔اور یہی ان عظیم لوگوں کی عظمت کا راز ہے ۔

قدرت خود اسکی پیشوائی کرتی ہے عظمت کی راہ پر،

مزید پڑھیں

Fruit Chat

نمک حرام سپہ سالار

مفادات کی جنگ میں قومیت ،عصمیت، وطنیت لسانی تکریم سب بکواس ہیں ، تخت کی لڑائی کل بھی تھی آج بھی ہے۔ 1765 میر جعفر

read more
Fruit Chat

دوجنرل دوکہانیاں

دو جنرل دو قومیں دونوں طاقتور،دونوں بااختیار نتائج۔۔۔۔۔۔

read more
Fruit Chat

وارن بفٹ کی کامیابی کا راز

یہ شخص خود پارس ہے ، جسے چھو لے سونا ، تین سادہ سے راز وارن بفٹ کی زندگی سے جو ہر کوئی اپنا سکتا

read more
Fruit Chat

Tools To Rule The Fools

انسانی ذہن نہت پیچیدہ اور مچکل سے سمجگ آنے والی چیز ہے لیکن چھوتی چھوٹی چیزوں کو استعمال میں لا کر انسان کو کنرول کیا

read more

The post نامور لوگوں کی پہچان کیا ہے ؟ appeared first on Fruit Chat.



This post first appeared on Let's Fruit Chat میری موج میری سوچ, please read the originial post: here

Share the post

نامور لوگوں کی پہچان کیا ہے ؟

×

Subscribe to Let's Fruit Chat میری موج میری سوچ

Get updates delivered right to your inbox!

Thank you for your subscription

×