تیری خوشبو کا پتہ کرتی ہے
تیری خوشبو کا پتہ کرتی ہے
مجھ پہ احسان ہوا کرتی ہے
شب کی تنہائی میں اب تو اکثر
گفتگو تجھ سے رہا کرتی ہے
دل کو اس راہ پہ چلنا ہی نہیں
جو مجھے تجھ سے جدا کرتی ہے
زندگی میری تھی لیکن اب تو
تیرے کہنے میں رہا کرتی ہے
اس نے دیکھا ہی نہین ورنہ یہ آنکھ
دل کا احوال کہا کرتی ہے
بے نیازِ کفِ دریا انگشت
ریت پر نام لکھا کرتی ہے
شام پڑتے ہے کسی شخص کی یاد
کوچۂ جاں میں صدا کرتی ہے
مجھ سے بھی اسکا ہے ویسا ہی سلوک
حال جو تیرا انا کرتی ہے
دکھ ہوا کرتا ہےکچھ اور بیاں
بات کچھ اور ہوا کرتی ہے
ابر برسے تو عنایت اس کی
شاخ تو صرف دعا کرتی ہے
مسئلہ جب بھی اٹھا چراغوں کا
فیصلہ صرف ہوا کرتی ہے
پروین شاؔکر