Get Even More Visitors To Your Blog, Upgrade To A Business Listing >>

جنگِ آزادی 1857ء کا مختصر جائزہ

سن ۱۸۵۷ء برصغیر ہند وپاکستان کی تاریخ کا ایک اہم سال ہے۔ جس طرح نحیف سے نحیف جسم بھی شدید بیماری کی صورت میں ایک نہ ایک مرتبہ اپنی ساری توانائیوں کو سمیٹ کر مرض کو دفع کرنے کے لئے پورا زور صرف کر دیتا ہے کم و بیش ایسا ہی واقعہ ۱۸۵۷ء میں پیش آیا جب کہ ہند وپاکستان کے لوگ جو اندرونی زوال اور بیرونی تسلط کی دوہری مار سے پس چکے تھے ایک مرتبہ پھر منظم ومتحد ہوئے اورانھوں نے اجنبی اقتدار کے جوئے کو کاندھے سے اتار پھینکنے کے لئے غیرمعمولی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ آغاز تو ایسا ہی ہوا جیسا کہ اکثر بیان کیا جاتا ہے یعنی یہ کہ ہندوستانی فوجیوں کو اپنے حکام کے ساتھ متعدد شکائتیں پیدا ہوگئی تھیں جو رفتہ رفتہ عام فوجی بے چینی کا باعث بن گئیں۔

یہی وہ بے چینی اور بے اطمینانی ہے جو ۱۸۵۷ء میں جنگ کی صورت میں ظاہر ہوئی۔ لیکن چونکہ یہی وہ زمانہ تھا جبکہ برصغیر کے مختلف طبقات نے جو قطع نظر جذبۂ آزادی کے اور دوسری وجوہ کی بناپر اجنبی تسلط سے بیزار تھے اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہا۔ چنانچہ یہ واقعہ جس کا آغاز تو فوجی شورش سے ہوا بالآخر قومی جنگ کی صورت اختیار کر گیا۔ مگر حال کے جن مورخین نے مسئلہ کو اسی طرح سمجھا ہے ان کی تصانیف کا سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ اس میں داستان کی تکمیل اور نتائج کے اخذ کرنے میں اس رول کو ملحوظ نہیں رکھا گیا جو کہ مسلمان علما نے اس جنگ آزادی میں ادا کیا۔

جہاں تک واقعات کا تعلق ہے یہ بھی جانتے ہیں کہ انگریز برصغیر میں تاجروں کی حیثیت سے داخل ہوئے لیکن یہاں کے سیاسی حالات بالخصوص درباری رقابتوں سے فائدہ اٹھا کر پہلے تو انھوں نے دکن میں اپنا عمل دخل بڑھایا اور کچھ عرصے بعد بنگال کے علاقے کے مالک بن بیٹھے۔ البتہ ابتدا ہی سے انگریز پیش قدمی اور توسیع اقتدار کی پالیسی پر کارفرما رہے اور نت نئے طریقوں سے بالواسطہ یا بلاواسطہ سارے برصغیر پر قابض ہو گئے۔ بیرونی غلبے کا فوری اثر یہ پڑا کہ حکمراں طبقہ اقتدار سے محروم ہو گیا اور امرا اپنا اثر و رسوخ کھو بیٹھے۔ سیاسی محرومی اپنے جلو میں معاشی ابتری بھی لئے ہوئے تھی۔ پہلی بڑی معاشی مار زمیندار طبقے پر پڑی جس سے وہ طبقہ بھی متاثرہوا جو ان سے کسی نہ کسی طرح پر وابستہ تھا۔ تاجر و صنعت کار طبقے بھی انگریزی حکومت سے خوش نہیں رہ سکے۔ 

ملک کی صنعتیں اور حرفتیں ملک کے نئے حالات میں پنپ نہ سکیں۔ یہاں کی صنعتیں حکومت کی سرپرستی کے بغیر آزاد مقابلے کی تاب نہ لاسکتی تھیں۔ سیاسی و معاشی غلامی میں ظاہر ہے کہ ملکی تہذیب بیرونی اثر سے آزاد نہیں رہ سکتی، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ انگریزی تہذیب رفتہ رفتہ ملک میں اثر و نفوذ کرنے لگی جو دور رس نتائج کا باعث بنی۔ ان حالات میں ایک غیور قوم کا اجنبی حکومت کو للکارنا ایک فطری امر تھا۔ ہندو اور مسلمان طویل سیاسی اور تہذیبی مقاصد میں ہمیشہ سے الگ الگ رہے ہیں لیکن بیرونی غلبے سے آزادی حاصل کرنا ایسا جذبہ تھا جس میں ہندو اور مسلمان دونوں برابر کے شریک تھے۔ اس موقع پر جو نقطۂ اتحاد دونوں قوموں کے لئے قابل قبول ہو سکتا تھا وہ مغل شہنشاہ کی ذات تھی مانا کہ مغل بادشاہ کا وجود اب برائے نام تھا لیکن اس کی قانونی حیثیت اب بھی مسلم تھی۔

مزید برآں عوام کی وفاداری کی دیرینہ روایات بھی مغل خاندان سے وابستہ تھیں۔ ان ہی وجوہ کی بنا پر قیادت کے لئے ہندو اور مسلمان دونوں کی نظریں مغل شہنشاہ پر پڑیں۔ لیکن ملک کی سیاسی بے چینی ابھی منظم تحریک کی پختہ صورت نہ اختیار کر پائی تھی کہ فوج میں بغاوت کی چنگاری اٹھی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے ایک شعلے کی شکل میں برصغیر کے بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس جنگ میں امیر وغریب، عالم وجاہل سب ہی شامل تھے۔ مرد تو مرد عورتوں نے بھی اس موقع پر غیرمعمولی شجاعت کا مظاہرہ کیا۔ نتائج کے اعتبار سے بھی یہ جنگ برصغیر میں پہلی جنگ آزادی کہلانے کی مستحق ہے۔ یہ صحیح ہے کہ انگریزوں کو نکال باہر کرنے میں کامیابی نہیں ہوئی لیکن ان کی یہ ناکامی عوام کے جذبۂ حریت کو پامال نہ کر سکی۔ بیرونی اقتدار کے خلاف جذبہ روز بروز بڑھتا رہا ہے، حصول آزادی کی متواتر کوششیں مختلف سمتوں میں جاری رہیں، جس کا پھل بالآخر مکمل آزادی کی صورت میں ۱۹۴۷ ء میں ملا۔ 

تاریخ میں اختلاف رائے ایک معمولی امر ہے یہ تحقیق حق میں کسی طرح حارج نہیں تاریخی مساعی میں اختلاف رائے کا پایا جانا ایک اعتبار سے ضروری بھی ہے۔ علم تاریخ میں ایک فرد کی کوشش بالکل ناکافی ہوتی ہے کیونکہ کسی مورخ کی آنکھ میں اتنی تیزی نہیں کہ واقعہ کو اس کے پورے پس منظر میں دیکھے۔ مختلف آنکھوں کی مدد ہی سے وہ بصیرت حاصل ہو سکتی ہے جس سے واقعہ کی ماہیت کو اچھی طرح دیکھا جا سکتا ہے۔ مختلف نقطہ ہائے نظر سے مسئلے کے سمجھنے میں الجھاؤ ضرور پیدا ہو جاتا ہے۔ لیکن دلائل کی تنقیدی جانچ سے اس الجھاؤ کو دور کیا جا سکتا ہے۔ تاریخ بنیادی طور پر ایک ایسا علم ہے جس میں تنقید کے ذریعہ ہی سے حقیقت تک پہنچا جاتا ہے۔ 

جہاں تک ۱۸۵۷ء کا تعلق ہے اس پر اب تک جو کام ہوئے ہیں اور خاص طور پر ۱۸۵۷ء میں صد سالہ یادگار کے موقع پر جو کتابیں شائع ہوئی ہیں اپنی اپنی جگہ پر مستحسن ہیں لیکن ان کو کافی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ قطع نظر اختلاف رائے کے جو بات قابل ذکر ہے وہ یہ کہ ابھی تک کوئی ایسا مبسوط کام نہیں کیا گیا ہے جس میں مسلمان علما کے کارناموں کو بیان کیا گیا ہو۔ ناکامی کے بعد محبان وطن پر جو جھوٹے مقدمات چلائے گئے اور ان کے خلاف بربریت اور وحشت کے جو افسانے گھڑے گئے وہ سب مورخ کی ناقدانہ جانچ کے محتاج ہیں۔ ضرورت ہے کہ مورخین اس طرف متوجہ ہوں۔

ڈاکٹر محمود حسین


 



This post first appeared on All About Pakistan, please read the originial post: here

Share the post

جنگِ آزادی 1857ء کا مختصر جائزہ

×

Subscribe to All About Pakistan

Get updates delivered right to your inbox!

Thank you for your subscription

×