Get Even More Visitors To Your Blog, Upgrade To A Business Listing >>

ایم کیو ایم اپنے انجام کی طرف گامزن

پاکستان کی سیاست میں پیسہ نے ساری سیاست کو آلودہ کر دیا ہے۔ پیسہ نے نظریات کو ختم کر دیا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے درمیان اب نظریات کی کوئی تقسیم نہیں رہ گئی ہے اور نظریاتی اختلافات ختم ہو گئے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو سب سیاسی جماعتیں ایک جیسی ہو گئی ہیں۔ سینیٹ کے ٹکٹوں کی تقسیم کو ہی دیکھ لیں اقربا پروری اور سرمایہ داروں کے درمیان ٹکٹوں کی تقسیم نظر آتی ہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت نے اپنے کارکنوں کو ٹکٹ دینا گوارہ نہیں کیا ہے۔ اس وقت ایم کیو ایم میں اختلافات کا بہت شور ہے۔ یہ اختلافات بھی کوئی نظریاتی نہیں بظاہر یہ بھی پیسے کی لڑائی لگتی ہے۔ فاروق ستار کسی کارکن کے حق کے لیے ساری جماعت سے نہیں لڑ رہے بلکہ یہ ایک سرمایہ دار کی لڑائی ہے۔ وہ کسی غریب کے ساتھ حق دوستی نہیں نبھا رہے بلکہ سونے کے ایک تاجر کے ساتھ دوستی نبھا رہے ہیں۔ دوسری طرف رابطہ کمیٹی کا موقف بھی کوئی خاص اصولی نہیں ہے یہ بھی حسد کی لڑائی لگ رہی ہے۔

ایک رائے یہ بھی ہے کہ کامران ٹسوری پوری ایم کیو ایم میں فاروق ستار کے سوا کسی کو لفٹ نہیں کرواتے۔ جس کا سب کو حسد ہے کہ یہ ہمیں کچھ نہیں سمجھتا۔ بس فاروق ستار کا دم چھلا بنا ہوا ہے۔ ورنہ ایم کیو ایم میں تو ہمیشہ ہی اوپر سے فیصلے مسلط ہوتے رہے ہیں۔ وہاں تو ہمیشہ ہی آمریت رہی ہے، یہ سب کچھ وہاں کوئی پہلی دفعہ نہیں ہو رہا۔ شائد فاروق ستار الطاف حسین نہیں ہیں اسی لیے سب ان کے خلاف شور مچا رہے ہیں۔ ورنہ یہی رابطہ کمیٹی الطاف حسین کے سامنے بولنے کی جرات نہیں رکھتی تھی۔ الطاف حسین کے غلط فیصلوں کا بھی دفاع کرتی۔ یہ وہی رابطہ کمیٹی ہے جس کو الطاف حسین گھر کی لونڈی سمجھتے تھے، اس کے ارکان کو اپنا غلام سمجھتے تھے۔

لیکن فاروق ستار کو شائد یہ احساس نہیں کہ وہ بے شک ایم کیو ایم پاکستان کے لیڈر بن گئے ہیں لیکن وہ الطاف حسین نہیں ہے۔ لوگ ان کا احترام تو کر سکتے ہیں لیکن ان سے ڈرتے نہیں ہیں۔ان کے پاس الطاف حسین والی طاقت نہیں ہے۔ اسی لیے وہ من مانی اور مرضی نہیں کر سکتے۔ سوال یہ بھی ہے کہ آخر سونے کے تاجر کامران ٹسوری کے پاس ایسا کیا ہے کہ فاروق ستار اس کے لیے اپنی ساری سیاست داؤ پر لگانے کے لیے تیار ہیں۔ کیوں کامران ٹسوری کا سینیٹ میں پہنچنا اتنا ضروری ہے کہ اس کے لیے فاروق ستار اپنی ساری سیاست داؤ پر لگانے کے لیے تیار ہیں۔ ویسے یہ ایم کیو ایم میں پہلی دفعہ نہیں ہے کہ کسی کو یک دم ٹکٹ دیا جائے ۔

بیرسٹر سیف کی مثال بھی سب کے سامنے ہے۔ وہ ق لیگ سے ایم کیو ایم میں آئے اور سیدھے سینیٹر بن گئے۔ اور بھی مثالیں ہیں۔ الطاف حسین لوگوں کو یک دم ٹکٹوں سے نوازتے رہے ہیں۔ تب تو کسی رابطہ کمیٹی نے کوئی سوال نہیں اٹھایا تھا۔ لیکن آج سوال ہے۔ کیا ایم کیو ایم بدل گئی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ کامران ٹسوری کو اسٹبلشمنٹ کی حمائت حاصل ہے اس لیے فاروق ستار ان کا کیس لڑ رہے ہیں۔ میں یہ نہیں مانتا کہ اس رابطہ کمیٹی میں اتنی جان ہے کہ اسٹبلشمنٹ کے کسی نمایندہ کی اس طرح مخالفت کر سکے۔ ایک تو ہر کوئی اسٹبلشمنٹ کی حمائت کا دعویٰ کرنے لگتا ہے چاہے اس کا دور دور تک اسٹبلشمنٹ سے کوئی تعلق ہی نہ ہو۔ اگر اسٹبلشمنٹ کامران ٹسوری کو سینیٹ میں لے جانا چاہتی ہو تو اتنا شور نہ مچے وہ سب کو سمجھا لیتے۔ ان میں سے کوئی ایسا نہیں جو اسٹبلشمنٹ کی بات نہ سمجھ سکے۔ بظاہر ایسا ہی لگتا ہے کہ یہ سب پیسے کی لڑائی ہے اور فاروق ستار کی قیادت کو چیلنج کرنے کی لڑائی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ فاروق ستار ایک منجھدار میں پھنس چکے ہیں۔ وہ دو کشتیوں کے سوار ہونے کی وجہ سے ڈوب رہے ہیں۔

اب ایسے میں ان کے پاس دو ہی راستے ہیں ایک یہ کہ وہ قیادت سے دستبردار ہو جائیں یا وہ اپنا الگ دھڑا بنا لیں۔ جہاں تک رابطہ کمیٹی کا سوال ہے توآج جو لوگ ان کو چیلنج کر رہے ہیں۔ وہ سب ان کے ہم عصر رہ چکے ہیں۔ ان میں سے کسی نے بھی ان کو دل سے قائد تسلیم نہیں کیا ہے۔ عامر خان کا خیال ہے کہ انھیں قائد ہونا چاہیے فاروق ستار کیوں۔ وہ کھلم کھلا فاروق ستار کو چیلنج کر رہے ہیں۔ اسی طرح خالد مقبول صدیقی بھی انھیں چیلنج کر رہے ہیں۔ وسیم اختر بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ یہ سب نمبر ون بننے کے چکر میں ہیں کوئی بھی نمبر ٹو بننے کے لیے تیار نہیں۔ ایم کیو ایم اپنی طاقت کھو رہی ہے۔ یہ اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہی ہے۔ اس گھر کو آگ لگ رہی ہے اس گھر کے چراغ کے مصداق اب ایم کیو ایم کی مزید تباہی اس کے اپنے لیڈر خود ہی کر رہے ہیں۔ آپس کی لڑائی، قیادت کی لڑائی، پیسہ کی لڑائی۔ سب نے ایم کیو ایم کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کر دیا ہے۔ اگر کوئی ووٹ بینک بچ بھی گیا تھا تو وہ ختم ہو رہا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ جب ساری قیادت کے درمیان جوتوں میں دال بٹ رہی ہو تو ووٹ بینک قائم رہ سکے۔

اس آپس کی لڑائی کی وجہ سے ایم کیو ایم کا کراچی میں کنٹرول مزید کم ہو جائے گا۔ عمران خان نے کراچی کے حوالے سے شدید نا امید کیا ہے۔ گزشتہ انتخابات میں ان کی جماعت کو کراچی میں اچھے ووٹ ملے تھے۔ ایک امید پیدا ہوئی تھی کہ تحریک انصاف کراچی میں ایم کیو ایم کی جگہ لے سکتی ہے۔ لیکن عمران خان پنجاب میں اس قدر پھنس گئے کہ ان کے پاس کراچی کے لیے وقت ہی نہیں تھا، انھوں نے کراچی کو بہت نظر انداز کیا۔ وہ کراچی کے معاملات سے لاتعلق رہے، وہ کراچی میں ایک مہمان اداکار بن گئے جس کی وجہ سے ان کا ووٹ بینک گر گیا۔ اب شائد بہت دیر ہو چکی ہے۔ وہ چاہیں بھی تو ایم کیو ایم کی خالی کی جانے والی جگہ حاصل نہیں کر سکتے، پھر کیا ہو گا ؟

کیا سب کچھ مصطفیٰ کمال کو مل جائے گا۔ کیا ایم کیو ایم میں اس تقسیم کا فائدہ مصطفیٰ کمال کو ہو گا۔ کیا پاک سرزمین ایم کیو ایم کا متبادل بن گئی ہے۔ ابھی تک ایسا نظر نہیں آرہا۔ لیکن لگ ایسا رہا ہے کیونکہ اور کوئی نظر نہیں آرہا۔ میدان خالی ہوتا جا رہا ہے۔ پتہ نہیں ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ ایم کیو ایم کی قیادت خود پلیٹ میں رکھ کر کراچی کی سیاست مصطفیٰ کمال کو دے رہی ہے۔ جس طرح جب روم جل رہا تھا نیرو بانسری بجا رہا تھا۔ ایسے میں جب ایم کیو ایم کی بقا کو سنجیدہ خطرات درپیش ہیں قیادت آپس میں لڑ رہی ہے۔ کسی میں کسی کو برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں ہے۔ اگر اس بار صلح ہو بھی جائے تو پھر لڑائی ہو گی۔ اس طرح لڑائیاں ہوتی رہیں گے ۔

مزمل سہروردی
 



This post first appeared on All About Pakistan, please read the originial post: here

Share the post

ایم کیو ایم اپنے انجام کی طرف گامزن

×

Subscribe to All About Pakistan

Get updates delivered right to your inbox!

Thank you for your subscription

×