Get Even More Visitors To Your Blog, Upgrade To A Business Listing >>

ٹرمپ، نظریے سے دنیا کا امن خطرے میں ہے

جب دنیا کی دو بڑی جمہوریتوں امریکہ اور بھارت نے ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندر مودی کو منتخب کیا تو اس سے امن کو پہلا دھچکا، ان دونوں ممالک کے ساتھ اسرائیل کا اشتراک دنیا کے کروڑوں امن پسندوں کیلئے مزید مہلک ثابت ہوا۔ جب ہر کوئی سال نو کی مبارک بادیں وصول کر رہا تھا تو عین اس وقت امریکی صدر ٹرمپ نے پاکستان پر نئے سال کا ’’بم‘‘ گرا دیا۔ مقام حیرت ہے کہ دنیا کی اکلوتی سپر پاور کو اپنی خارجہ پالیسی ان دنوں ٹویٹر کے ذریعے چلانی پڑ رہی ہے، امریکی صدر کو شائد کوئی بھی سوشل میڈیا پر نہ پچھاڑ سکے۔ ایک ٹویٹ کے ذریعے جنگ تو برپا کی جا سکتی ہے لیکن امن قائم نہیں کیا جا سکتا۔

سب سے پہلے تو امریکیوں کے ساتھ ہمدردی کرنی چاہیے جنہیں سب سے بڑا دھچکا تب لگا جب ڈونلڈ ٹرمپ کرسی صدارت پر متمکن ہو گیا اور تجربہ کار ہیلری ہار گئی۔ دنیا کی سب سے بڑی لبرل جمہوریت نے ایک عورت کے وائٹ ہائوس میں داخلے کے حق میں کبھی ووٹ نہیں دیا جبکہ پاکستان میں ایک خاتون محترمہ بینظیر بھٹو دو دفعہ وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہیں تو پھر صدر یا وزیر اعظم کے انتخاب کے لئے کونسا ملک زیادہ اعتدال پسند سوچ کا حامل ہے۔ ٹرمپ کی صدارت میں اظہار رائے کی آزادی سب سے پہلے نشانہ بنی ۔

میڈیا کے ساتھ اس کی جنگ صدر منتخب ہونے سے قبل ہی شروع ہو چکی تھی۔اس نے جو کہا وہ پاکستانیوں کیلئے نئے سال کا تحفہ ہے ’امریکہ نے 15 سال میں پاکستان کو 33 ملین ڈالرز کی امداد دے کر بیوقوفی کی، اس کے بدلے پاکستان نے ہمیں کچھ نہیں دیا سوائے جھوٹ اور دھوکے کے، پاکستانی ہمارے رہنمائوں کو پاگل سمجھتے ہیں، وہ دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتے ہیں جبکہ ہم افغانستان میں انہیں ختم کر رہے ہیں ’’نو مور‘‘۔ سال سالہا ’’ڈو مور‘‘ پر عمل کرنے کے بعد پاکستان کی جانب سے چند دن قبل کہے جانے والے ’’نو مور‘‘ کے جواب میں ٹرمپ کا یہ ’’نومور‘‘ سامنے آیا ہے۔

یقیناً ہم نے بہت ساری غلطیاں کی ہیں اور ان میں شائد سب سے بڑی غلطی افغانستان کے حوالے سے ہماری پالیسی تھی جو کئی عشرے پرانی ہے۔ ٹرمپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ 1980ء میں امریکہ کی سوویت افغان جنگ سے قبل پاکستان بھی ایک اعتدال پسند ملک تھا۔ اس جنگ نے پاکستان کو 50 لاکھ مہاجرین، بندوق اور منشیات کا کلچر ، دہشت گردی اور انتہا پسندی ملی ۔ ہزاروں غیر ملکی جن میں عرب بھی شامل تھے امریکہ کی جنگ لڑنے کیلئے پاکستان میں بھیجے گئے۔
اسامہ بن لادن بھی ان میں سے ایک تھا جو 9/11 کا ماسٹر مائنڈ اور مطلوب ترین مجرم رہا۔ امریکیو ں کے بجائے پاکستانی بیوقوف ہیں جوامریکیوں پر یقین کرتے ہوئے آزادی کے فوراً بعد ان کے اتحادی بن گئے۔ امریکیوں کی تقلید میں پاکستان میں بائیں بازو کی سیاسی جماعتیں کیمونسٹ پارٹی آف پاکستان پر 50 کے عشرے میں جبکہ نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) پر 70 کے عشرے میں پابندی لگا دی گئی۔ اب ہمارا جواب کیا ہونا چاہئے؟

ہماری کمزریوں کے باوجود ہمارا جواب ٹرمپ کی طرح بیوقوفانہ نہیں ہونا چاہئے۔ ہم ایک ذمہ دار قوم ہیں اور حال ہی میں ہمیں اقوام متحدہ میں اچھی حمایت ملی ہے جو کہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ جب بھی دنیا نے ہمیں سپورٹ کیا تب ہی امریکہ نے ہماری مخالفت کی۔ وزیراعظم عباسی نے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا جس میں سول و عسکری قیادت ٹرمپ کے الزامات کے بعد کی صورتحال کا جائزہ لے گی۔ اس اہم مسئلہ پر حکومت اور حزب اختلاف ایک صفحے پر ہیں تاہم اس کے باوجود ہمارے اپنے مسائل ہیں لیکن یہ اہم وقت ہے کہ ہم افغانستان سے متعلق اپنی عشروں پرانی پالیسی میں تبدیلی کریں۔

خارجہ پالیسی کے خدوخال واضح کریں۔ پاکستان کو نہ کسی پراکسی کا حصہ بننا چاہئے اور نہ ہی کسی کے خلاف پراکسی اختیار کرنی چاہئے۔ امریکہ ہیروشیما، ناگاساکی، شام، عراق، افغانستان اور لیبیا جیسی مہم جوئیوں کی تاریخ رکھتا ہے۔ جب امریکی مفادات کی بات آتی ہے تو انسانوں کی اہمیت نہیں رہتی۔ ہم 1977 اور 1979ء کے سال کیسے بھول سکتے ہیں جب امریکہ نے اپنی پالیسیوں سے روگردانی کی پاداش میں ہمارے منتخب وزیراعظم کو ’’عبرتناک مثال‘‘ بنا دیا تھا ۔ ہمارا جواب بالکل شائستہ ہونا چاہئے کیونکہ پاکستان میں کوئی ’’ڈونلڈ ٹرمپ ‘‘نہیں ہے۔ 

ہمیں صرف یہ آئینہ دکھانے کی ضرورت ہے کہ ہم نے گزشتہ 15 یا 30 سال میں کیا قیمت چکائی یا پھر 1950 کے عشرے سے امریکیوں کی بانہوں میں بانہیں ڈالیں تب سے آج تک ہم نے اس دوستی کی کیا قیمت چکائی ہے۔ یہ نہایت شرمناک بات ہے کہ امریکی صدر ہماری گزشتہ 40 سال کی قربانیوں کو تسلیم نہیں کر رہا۔ یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ امریکہ نے ہمیشہ پاکستان میں آمریت کی حمایت کی۔ چاہے وہ فیلڈ مارشل ایوب خان ہوں، ضیاء الحق یا جنرل مشرف ہوں۔ پاکستانی عوام ابھی تک بھٹو کا تختہ الٹے جانے میں مبینہ امریکی کردار کو نہیں بھولے۔ اگر امریکہ نے اقوام متحدہ میں شمالی کوریا، عراق یا ایران کے خلاف قرارداد کی مخالفت نہیں کی تو اس نے یروشلم پر قرارداد کی مخالفت کیوں کی؟

دنیا 9/11 کے بعد یقیناََ بہت بدل چکی ہے، 9/11 جس میں 3 ہزار لوگوں نے اپنی جانیں گنوا دیں تاہم ایک پاکستانی جس کا نام ’’ہمدانی‘‘ تھا اس نے وہاں لوگوں کی زندگیاں بچائیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں پاکستانی جانیں گنوا چکے ہیں، پھر بھی یہ جنگ جاری رہنی چاہئے کیونکہ ہم غیر ریاستی عناصر کے پھلنے پھولنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ہمیں ڈرون حملوں سے بھی باخبر رہنا ہے۔ پاکستان کو ڈرون حملوں اور معاشی پابندیوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔ دہشت گردی کا ناسور مکمل ختم نہیں ہو سکا۔ یہ بدقسمتی ہے کہ جب دنیا امن کی کوششیں کر رہی ہے دنیا کی دو بڑی جمہوریتیں ٹرمپ اور مودی جیسوں کے زیر کمان ہیں۔

مظہر عباس
 



This post first appeared on All About Pakistan, please read the originial post: here

Share the post

ٹرمپ، نظریے سے دنیا کا امن خطرے میں ہے

×

Subscribe to All About Pakistan

Get updates delivered right to your inbox!

Thank you for your subscription

×